قوموں کے بننے سنورنے کی داستانیں کسی ایک حادثے یا واقعے سے عبارت نہیں ہوا کرتیں بلکہ اس میں صدیوں کی جانفشانی اور جذبوں کی روانی کارفرما ہوا کرتی ہے۔ محمد علی جناح کی آواز پر لبیک کہنے والی قوم جب سبز ہلالی پرچم تلے جمع ہوتی ہے اور طاقت کا اک سمندر بن کر اْبھرتی ہے اور چند سالوں کی تحریک کے بعد ہی یہ قوم خطے کے حکمرانوں کو یہ کہنے کے قابل ہو جاتی ہے کہ وہ ایوان اقتدار کی چند سیٹوں میں سے نہیں بلکہ ’براعظم میں سے اپنا حصہ نکالے گی۔‘قوم کے عزم اور جناح جیسی پروقار قیادت نے یہ ثابت کر دکھایا کہ یہ قوم دنیا کی ایک منفرد قوم ہے جو اپنے اصولوں کیلئے نہ جْھکتی ہے اور نہ کوئی سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہوتی ہے۔ 14 اگست کی صبح ایک روشن مستقبل کی نوید بن کر طلوع ہوتی ہے اور برصغیر کی تقسیم یوں ہوئی کہ طے شدہ فارمولا عین وقت پر تبدیل کر کے پاکستان کے کچھ ایسے علاقے جو آگے چل کر اْس کیلئے جغرافیائی اعتبار سے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہندوستان کی جھولی میں ڈال دیئے گئے۔ پاکستان کے اثاثے اْسے نہ دیئے گئے۔ موثر فوجی ساز و سامان کے بغیر ایک غیر منظم فوج پاکستان کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ گویا ایک ملک تو حاصل ہو گیا مگر اْسکے وسائل اْس سے چھن جاتے ہیںلیکن وہ کیا جذبہ، وہ کیا لگن اور وہ کیا اْمنگ تھی کہ زیرو سے سٹارٹ لینے والا ملک اپنے اندر طاقت اور جستجو کا ایک ایسا پہاڑ دریافت کرتا ہے جو ایک ہی سال میں حکومتِ وقت میں وہ جذبہ اور اعتماد پیدا کر دیتا ہے کہ وہ اپنی افواج کو کشمیر کے محاذ پر پیش قدمی کا حکم دیتی ہے اور 1948ء میں کشمیر کے محاذ پر ہونیوالے پاک بھارت معرکے میں پاک فوج کا ایک عظیم سپوت کیپٹن سرور شہید نشان حیدر کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ دشمن کو باور کرانے کیلئے کیپٹن سرور سمیت فوج کے جوانوں کی شہادتیں یہ پیغام دینے کیلئے کافی تھیں کہ جو ملک سینکڑوں جانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا اسکی حفاظت کیلئے ہزاروں جانیں بھی قربان کرنا پڑیں تو قوم کے یہ غیور بچے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بلاشبہ دشمن کیلئے کشمیر محاذ پر لڑا جانیوالا پہلا معرکہ کسی بہت بڑے دھچکے سے کم نہیں تھا۔ پاکستان کے جری سپوتوں نے اس مٹی کیلئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے دشمن کو باور کرایا کہ وسائل کی کمی بھرپور جذبے اور عزم سے پوری کی جا سکتی ہے۔ستمبر 1965ء کو جب پاکستان صرف اٹھارہ برس کی عمر کا ہوتا ہے تو دشمن ایک موثر اور بھرپور جارحیت اس عزم کے ساتھ کرتا ہے کہ نعوذ باللہ پاکستان کی دفاعی لائن توڑ کر اسے ایسی کار ضرب لگائی جائے کہ یہ نوآموز ریاست پارہ پارہ ہو کر دوبارہ بھارت میں شمولیت کی استدعا کرنے لگے۔ بھارتی فوج کے جرنیل اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اتنے مخمور اور اپنی کامیابی کے حصول میں اتنے پْرامید کہ وہ لاہور کے جمخانہ کلب میں اپنی ٹی بریک کرنے کا وقت بھی متعین کر چکے تھے۔ جب پاک فضائیہ کے جہاز لاہور کا ’سائونڈ بیریئر‘ توڑ کر اہلِ لاہور کو دشمن کے حملے سے الرٹ کرتے ہیں تو دوسری جانب اس وقت کے صدرِ مملکت اور پاک فوج کے سربراہ جنرل محمد ایوب خان جب اپنی ریڈیو تقریر میں قوم کو مخاطب کر کے یہ کہتے ہیں کہ دشمن کو بتا دو کہ اْس نے کس قوم کو للکارا ہے تو پاکستان کے ہر ہر شہری کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ افواج پاکستان کے افسر اور جوانوں کو تو کبھی کسی تقریر کا انتظار بھی نہیں ہوتا کہ یہ قوم کے وہ جانثار ہیں جو ہر لحظہ اور ہر آن وطن کی سالمیت کیلئے مر مٹنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔ جذبوں کو لفظوں اور حرفوں کے استعمال سے نہیں جانچا جاتا بلکہ قوم کے سپوتوں کی عملی کارکردگی اسکے پیچھے پنہاں جذبوں کی غمازی کرتی ہے۔ بی آر بی نہر پر جس طرح میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر اور میجر شفقت بلوچ ستارہ جرأت اور پاک فوج کے بہادر جوانوں نے دشمن کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دشمن کو ایک انچ بھی آگے نہ بڑھنے دیا بلکہ قصور محاذ پر ہمارے فوجی ان کا پیچھا کرتے ہوئے کھیم کرن تک پہنچ گئے۔پاک فوج کے پیچھے پاکستان کے کروڑوں عوام کی طاقت اور سپورٹ ہی تھی کہ پاک فوج نے دشمن کا اْس کے علاقے تک پیچھا کیا۔ افواج پاکستان جس میں ایئر فورس، نیوی اور بری فوج سب شامل ہیں نے دشمن افواج کی وہ درگت بنائی کہ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کو روس سے مدد کی بھیک مانگنا پڑی اور معاہدہ تاشقند عمل میں آیا۔ ایسا کبھی ممکن نہ ہو پاتا اگر پاکستان کے شہری دشمن کے ساتھ مقابلے کیلئے پْرعزم نہ ہوتے اور وہ دیوانہ وار پاک فوج کے جوانوں کی مدد کیلئے ڈنڈے، کْدالیں، بیٹ پکڑ کر دشمن کی سرکوبی کیلئے بارڈر پر نہ پہنچ جاتے۔ پاکستان کے شہری فوجی جوانوں کے کانوائے کی گاڑیوں میں دھڑا دھڑ کھانے پینے کی اشیاء جن میں بسکٹ، چاکلیٹ اور نجانے کیا کیا کچھ تھا، پھینکنے کی کوشش کرتے رہے جو فوجی جوان شکریے کے ساتھ واپس بھی کرتے کہ انکے پاس اپنا راشن ہے انہیں صرف قوم کی دعائیں اور نیک تمنائیں درکار ہیں۔ الغرض قوم نے ہر کٹھن مرحلے پر ایک قوم بن کر دکھایا اور جب کبھی بھی باہر سے کوئی جارحیت ہوئی قوم یکسر اپنے باہمی اختلافات بھلا کر سبز ہلالی پرچم کے نیچے جمع ہو گئی اور دشمن پر ایک کوہ گراں بن کر گری۔
1971ء میں قوم کا جذبہ لافانی رہا اور جرات و ہمت کی ایک داستان رقم ہوئی لیکن دشمن افواج اور اسکی خفیہ ایجنسیوں کی ملی بھگت سے خانہ جنگی کی سی کیفیت نے مشرقی پاکستان کے سانحہ کو پیدا کرنے میں ایک کردار ادا کیا لیکن قوم نے ہمت نہیں ہاری اور اس نے ملکی سرحدوں کو مضبوط بنانے کیلئے اپنی قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ پاکستان آج بھی ایک نازک اور کٹھن ترین صورتحال سے گزر رہا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نبردآزما ہے۔ دشمنان پاکستان اس ارض پاک کی سالمیت کے درپے ہیں۔ ملک کے اندر ایک طرف صوبائیت اور فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے تو دوسری جانب پاکستان کے بعض پڑوسی ممالک پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ کراچی اور دیگر شہروں میں ٹارگٹ کلنگ ایسے واقعات بھی ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسکے باوجود قوم کے اندر ایک عزم اور یقین کا عنصر بھی دکھائی دیتا ہے جو اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ قوم اس مشکل اور کٹھن مراحل سے نکلنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے اور خواہش بھی۔ قوم اپنے دشمنوں کو پہچان چکی ہے اور وہ جانتی ہے کہ وہ کون سے عناصر اور وہ کون سی طاقتیں ہیں جو ملکی سالمیت کے درپے ہیں۔ پاکستان کے عوام جان چکے ہیں کہ کس طرح سے ملک کے سکیورٹی اداروں کو بدنام کر کے دشمن اپنے مقاصد کے حصول کیلئے عمل پیرا ہے۔ یہ وقت آپس کے تفرقات اور تنازعات میں الجھنے کا نہیں بلکہ یکسوئی اور اولوالعزمی کے ساتھ ملک کو دشمن کی سازشوں سے بچانے کا ہے۔ ہمیں اتحاد و یگانگت اور یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اقوام عالم کو باور کروانا ہو گا کہ ہم ایک تھے، ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024