۶۔ پاکستان میں فاٹا کے علاقوں میں مسلسل ڈرون حملوں اور ہماری فوجی چوکیوں پر حملے کرکے ہماری عسکری قیادت کو ہراساں رکھا جائے اور انہیں ان کی کمزوری کا احساس دلا کر مُلا عمر کے طالبان اور حقانی گروپ وغیرہ کے خلاف سخت کاروائیاں کرنے پر مجبور کیا جائے حالانکہ ان لوگوں نے آج تک کبھی بھی پاکستان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی اور وہ صرف اپنے ملک افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کو نکالنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
۷۔ امریکہ یہ بھی چاہے گا کہ اپنے مقاصد پورے ہونے تک گوادر کی بندرگاہ کو ناکارہ بنا دیا جائے تاکہ پاکستان اس کو بھر پور طریقے سے استعمال نہ کر سکے اس مقصد کےلئے ایک امریکی بحری بےڑہ بھی گوادر کے نزدیک لنگر انداز ہو چکا ہے۔
ایسے معلوم ہوتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کروا کر آصف علی زرداری کو پاکستان کے تخت پر براجمان کروانے کا مقصد بھی شائد یہی تھا کہ ان کے ذریعے امریکی اےجنڈے پر عمل کروایا جائے ان پر ڈالروں کی بوچھاڑ کر دی جائے اور ان کے ساتھیوں کو ملکی اثاثوں کی لوٹ کھسوٹ کی کھلی چھٹی دے دی جائے بلکہ امریکی اےجنڈہ مکمل کرنے کےلئے آئندہ انتخابات میں بھی انہی ڈالروں کے ذریعے پیپلز پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی کوشش کی جائے کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو جو کچھ بھی تھیں وہ اپنے ملک سے اتنی بڑی دشمنی نہیں کر سکتی تھیں۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کے ان ناپاک ارادوں کو کچلنے کےلئے ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔
۱۔مےرے خیال میں پاکستان کی پہلی کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ بلوچستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد حامد کارزائی (جو وہاں کے کرپٹ ترین حکمران سمجھے جاتے ہیں اور اپنے عوام میں انتہائی غیر مقبول ہیں) کی مخالف قوتوں کی سرپرستی کی جائے تاکہ وہ اقتدار میں آ سکیں جس کے بعد پاکستان کی مغربی سرحدیں بھی کافی حد تک محفوظ ہو سکتی ہیں۔
۲۔بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو بے درےغ فوجی قوت استعمال کرکے کچلنے کی پالیسی بلکل ناکام ہو چکی ہے اور اس پر بضد رہ کر بلوچستان کو دھکے دے کر پاکستان سے الگ کرنے کی بجائے افغانستان میں امریکی کارروائیوں کی ناکامیوں سے سبق حاصل کیا جائے اور ان سرداروں اور قوم پرستوں کے ساتھ ہر قیمت پر بلا مشروط اور سنجیدگی سے گفتگو کرکے ان کا مکمل اعتماد حاصل کیا جائے وہاں کے قدرتی وسائل پر کام کرنے سے پہلے اس علاقے کے سرداروں کے ساتھ رائلٹی کے معاہدے کئے جائیں اور ان پر عمل بھی کیا جائے بلوچستان کے عوام کےلئے یہاں سڑکیں سکول کالج اور ہسپتال بنائے جائیں تاکہ انکے بچے مفت تعلیم حاصل کر سکیں کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر کے علاوہ اس قدر مقدار میں کوئلہ موجود ہے کہ اس کا صرف 2 فیصد استعمال کرکے ایٹمی ری ایکٹر پلانٹ کے ذریعے اگر بجلی پیدا کی جائے تو آئیندہ 60 سالوں تک ہمارے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے بلوچستان کی ایک عظیم اکثریت آج بھی پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے مگر ان کے ساتھ ساتھ ناراض سرداروں کی مکمل حمایت بھی نہایت ضروری ہے کہ اس کے بغیر ہمیں بہت سی مشکلات پےش آ سکتی ہیں۔
۳۔ہماری 1,40,000 پاکستانی افواج جو پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر کھڑی ہیں ان کے ذریعے پاکستان کے اندر خصوصاً فاٹا کے علاقوں سے ان تمام نام نہاد تحریک پاکستانی طالبان والوں کا قلع قمع کیا جائے جنہوں نے امریکی سرپرستی میں پاکستان کے اندر تباہی مچا رکھی ہے۔
۴۔ گوادر کی بندرگاہ جو کافی حد تک2007 میں تیار ہو چکی تھی مگر پوری طرح مکمل نہیں ہوئی تھی اس پر جہاں کام رکا ہوا ہے اسے گوادر پورٹ اتھارٹی کے تحت چینی انجیئنروں کی مدد سے دوباہ شروع کیا جائے اور اس کا نظم و نسق بھی گوادر پورٹ اتھارٹی کے علاوہ چینی ماہرین کے سپرد کیا جائے مگر شرائط ایسی ہوں کہ حکومت پاکستان کو اس کا آخری منتظم سمجھا جائے گوادر کی بندرگاہ پاکستان کے سنہری مستقبل کی ضامن ہے اسی کے ذریعے پاکستان سنٹرل اےشین ریاستوں اور افغانستان کی در آمد و بر آمد کو یقینی بنا سکتا ہے یہ تمام ریاستیں landlogged ہیں اور ان کےلئے گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے سمندر تک رسائی پیدا کرکے ہم ان ریاستوں میں ایک منفرد مقام حاصل کر سکتے ہیں ان ریاستوں کےلئے بھی سمندر تک پہنچنے کا یہ ایک انتہائی نزدیک اور سستا ترین راستہ ہے اسی طرح ہم بلوچستان سے امریکی اور بھارتی اثر و نفوذ کو بھی ختم کرسکتے ہیں۔
۵۔گوادر کی یہ بندرگاہ چین کےلئے بھی انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے اور سلک روٹ کے راستے سے اس کی اس بندرگاہ تک رسائی سے اس کی اشیائے درآمدوبرآمد کے اخراجات کئی گنا کم ہو سکتے ہیں اور اس قابل اعتماد دوست ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات اور بھی مضبوط ہو سکتے ہیں جس سے ہم پر بھارتی جارحیت کا خطرہ بھی بہت کم ہو سکتا ہے۔
مگر ایسے جرائت مندانہ اقدامات صرف ایسی حکومت ہی اٹھا سکتی ہے جس کو اپنے وطن سے والہانہ محبت ہو جس کی دیانت ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہو اور جو کسی بھی غیرملکی طاقت کے آگے جھکنے کو تیار نہ ہو ہماری موجودہ حکومت تو ان خوبیوں سے یکسر عاری ہے اب یہ آنے والی حکومت پہ منحصر ہوگا کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ حالات تےزی سے ہمارے خلاف جا رہے ہیں اور ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اس لئے ملک بچانے کےلئے ہمیں اپنی پہلی ترجیح میں ان پےش کی گئی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024