اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسمائے حسنیٰ میں ایک نام العدل بھی ہے۔ العدل کا مطلب سراسر اور سراپا عدل ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جابجا عدل قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ سورہ الرحمن میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے ساری کائنات میں عدل قائم کیا ہے۔ سورج، چاند، ستارے، پوری کائنات میں ایک توازن اور عدل ہے۔
آج کل پاکستان کا جو حشر ہم نے بنا دیا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ڈنڈی مارنا اور دو نمبری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم کو ہمارے لئے کامل نمونہ بنایا جو سراپا عدل و انصاف تھے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوسرے لوگوں کےلئے نمونہ بنایا ہے لیکن ہمارا کیا حال ہے؟ ہم لوگوں کےلئے کس طرح کا نمونہ ہیں؟ جھوٹ، مکاری، دغا بازی، غداری، کام چوری، خیانت، تعصب، حق کے سامنے سر تسلیم نہ خم کرنے اور غلط باتوں پر اڑے رہنے کا نمونہ ہیں؟ رشوت، سفارش، نااہلی، میرٹ کے قتل کا نمونہ ہیں؟ ڈھٹائی ، بے شرمی و بے حیائی کا نمونہ ہیں؟
اگر ہمیں پستی اور ذلت کی اس دلدل سے نکلنا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رسی یعنی قرآن مجید کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا۔ ہمارے کتنے لوگ ہیں جو نماز میں اللہ کی بات سنتے اور سمجھتے ہیں؟پانچ وقت کی نمازوں کو تو ہمارے ایمانوں کو مکمل چارج کر دینا چاہئے تھا۔ اگر ایمان ذرا سا بھی ڈانواں ڈول ہو بھی رہا ہو تو اگلی نماز میں اس کو پھر سے چارج ہو جانا چاہئے لیکن یہ تو تب ہو گا جب ہم اللہ تعالیٰ سے جُڑ جائیں یعنی Conect ہو جائےں گے۔ جب کنکشن ہی نہ ہو گا تو چارج کہاں سے ہو گا؟ ذرا مساجد کے باہر کھڑے ہو کر ایک سروے کریں کہ جب لوگوں نے نمازیں اور تراویح پڑھی ہیں انہوں نے کیا سمجھا؟ اگر سمجھا ہوتا اور اس پر عمل ہوتا تو یقیناً معاشرے سے جہالت فرقہ واریت تشدد، بے ایمانی، خیانت کا خاتمہ ہوتا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کوئی دینی اور سیاسی جماعت قرآنی عربی سیکھانے کا خاطر خواہ کام نہیں کر رہی۔ ہر ایک کو اپنے لیکچرز کا شوق ہے۔ یا پھر کسی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب کو روزانہ پڑھنے پڑھانے کا حالانکہ قرآن مجید کو دیگر کتب پر وہی فضلیت ہے جو اللہ کو اپنی مخلوق پر اس ضمن میں ہمیں پنجاب اسمبلی کی تعریف کرنا پڑےگی جس میں کہا گیا ہے کہ بچوں میں قرآنی عربی سکھا کر سکول ہی میں پورے قرآن کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کر دی جائیگی لیکن ہم سب اور پورا عالم منتظر ہے کہ اس قرارداد پر کب عمل ہو تا ہے۔ قرآن اللہ کا آئین ہے اور پاکستانی آئین قرآن مجید کا تابع ہے اور جو لوگ قرآن مجید کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اللہ تعالیٰ انہیں سورہ المائدہ میں کافر، فاسق اور ظالم کہتے ہیں پھر ایسے لوگوں کا دنیا اور آخرت میں کیا انجام ہو گا؟
آج مختلف ٹی وی چینلز پر طرح طرح سے عدلیہ پر حملے ہو رہے ہیں۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو اس ملک کے غریب عوام پر نہ خرچ کرنے کی تدابیر وہ لوگ کر رہے ہیں جو عوامی نمائندہ ہونے کے دعویدار ہیں۔ ایسی ایسی احمقانہ باتیں سننے کو ملی ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے احمق ترین افراد بھی کہنے کی جسارت نہیں رکھتے مثلاً عدالتوں کو آئین کی تشریح کا حق نہیں ہے۔ میڈیا کی کالی بھیڑیں بجائے عدل اور عدلیہ کو سہارا دینے کے اسے ڈھانے کے درپے ہیں کچھ لوگوں کو مائیکرو اسکوپ بلکہ الیکٹرون مائیکرو اسکوپ میں رکھ کر انکے عیوب بہانے بہانے سے گنائے جاتے ہیں جبکہ وہ لوگ جنکے جرائم کےلئے کسی آلے کی ضرورت نہیں ہے سرے سے چھپائے جاتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر نذیر احمد شہید جب صحافی کا قلم بکتا ہے تو قوم بکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انصاف اور مساوات کو یقینی بنایا جائے۔ عدل اور انسانیت کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں۔ کسی کو ڈاکہ زنی اور چوری کا استثنیٰ نہیں ہوتا جو لوگ آج ظلم کی حمایت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں وہ اس تھوڑی سی حقیر دنیا کےلئے اپنی آخرت تباہ کر رہے ہیں۔ ہمیں ہر طرح کے تعصب بشمول زبان، فرقہ اور جماعت بندی سے بلند ہو کر صرف اور صرف عدل کی بات کرنا چاہئے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024