
پاکستان نے افغانستان کو ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک سمجھ کر ہمیشہ اور ہر مرحلے پر اس کی مدد کی ہے۔ اسی کا ایک بین ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ چالیس سال سے زائد عرصے سے افغانیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں مقیم ہے جنھیں پاکستان میں نہ صرف امن و امان دیا گیا بلکہ یہاں تعلیم اور روزگار کے لیے ایسے مواقع بھی فراہم کیے گئے جن سے وہ اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بدلے میں افغانستان بھی پاکستان کا اسی طرح احساس کرتا اور احسان کا بدلہ احسان سے چکاتا لیکن افسوس کی بات ہے کہ جو کچھ ہوتا آیا ہے اور اب تک ہورہا ہے وہ اس سے بہت مختلف ہے؛ افغانستان کی طرف سے پاکستان کو پہلے بھی مسائل کا سامنا رہا ہے اور جب سے امریکی انخلا کے بعد وہاں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہوئی ہے تب سے ان مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ گو کہ افغان حکومت کی جانب سے کئی بار یہ کہا جاچکا ہے کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور پر امن تعلقات کا خواہاں ہے اور اپنی سر زمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا لیکن یہ بیانات عمل کے سانچے میں ڈھلتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔
افغانستان کی طرف سے پاکستان کو امن و امان کے سلسلے میں دو قسم کے مسائل کا سامنا ہے: ایک یہ کہ افغان فوج کے اہلکار کئی بار سرحد پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے ایسی صورتحال پیدا کرتے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر زد پڑتی ہے، اور دوسرا یہ کہ افغانستان سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ دہشت گرد پاکستان کے علاقوں میں آ کر تخریب کاری کی کارروائیاں کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ ان کارروائیوں کے بعد بھاگ کر واپس افغانستان چلے جاتے ہیں۔ یہ دونوں مسائل کئی مرتبہ افغان حکومت کے علم میں لائے جاچکے ہیں اور کارروائی کا مطالبہ بھی بہت بار کیا جاچکا ہے لیکن اس حوالے سے طالبان کی عبوری حکومت بیانات کے سوا کچھ کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں طرح کی وارداتیں تھمنے میں نہیں آرہی ہیں۔ پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف تو کارروائیاں کر کے ان کی تخریبی سرگرمیوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن افغان فوج کے اہلکاروں کی طرف سے کیے جانے والے واقعات کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ ان کے خلاف کیے گئے اقدامات ریاستوں کے تعلقات کو بری طرح متاثر کرسکتے ہیں۔
افغان فوج کے اہلکاروں کی کارروائیوں کے بارے میں پاکستان نہ صرف ثبوتوں کے ساتھ ایسے معاملات کو افغانستان کی عبوری حکومت کے علم میں لاتا ہے بلکہ اپنے مطالبات بھی ان کے سامنے رکھتا ہے لیکن ابھی تک کے حالات یہ بتا رہے ہیں کہ طالبان حکومت ان واقعات کی روک تھام کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔ اسی وجہ ایسے واقعات ہوتے ہی جارہے ہیں۔ بدھ کے روز بھی اسی قسم کا ایک واقعہ پیش آیا جس میں چمن بارڈر کراسنگ کے فرینڈ شپ گیٹ پر تعینات افغان فوجی نے راہ گیروں پر بلااشتعال فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 12 سالہ بچے سمیت دو پاکستانی شہید ہوگئے۔ پاک افواج کے شعبہ¿ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، یہ واقعہ زیرو لائن پر واقع آو¿ٹ بانڈ گیٹ پر پیش آیا تاہم سکیورٹی فورسز نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے گناہ مسافروں کی موجودگی میں فائرنگ کے تبادلے سے گریز کیا تاکہ جانی نقصان سے بچا جا سکے۔ جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشوں کو ڈی ایچ کیو اسپتال چمن منتقل کر دیا گیا اور زخمی بچہ جسے سکیورٹی فورسز نے فوری طور پر باہر نکالا تھا، زیر علاج ہے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ افغان حکام سے اس غیر ذمہ دارانہ اقدام اور بے پروائی کی وجہ دریافت کی گئی ہے اور مجرم کو پکڑ کر پاکستانی حکام کے حوالے کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔ افغان حکام سے کہا گیا ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی کشیدگی سے بچنے کے لیے ذمہ داری سے کام کرنے کے لیے نظم وضبط کا مظاہرہ کریں۔ پاکستان مثبت اور تعمیری دوطرفہ تعلقات کے ذریعے امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہے، تاہم اس طرح کے ناخوشگوار واقعات سے خلوص نیت اور مقصد کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد پر فائرنگ کا واقعہ قابل مذمت ہے ، افغان حکومت سے مطالبہ ہے کہ فائرنگ کرنے والے مجرم کو پاکستان کے حوالے کیا جائے تا کہ اس کیس کو پاکستان کی عدالت میں چلا کر کیفرکردارتک پہنچایا جاسکے ، پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم ہی جیتیں گے۔ہماری فورسز نے اس واقعہ پر تحمل کا مظاہرہ کیا ،ایک ذمہ دار ریاست کا ایسا ہی مظاہرہ ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سکیورٹی فورسز نے ایک انفارمیشن بیسڈ آپریشن کیا جس میں 10 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گرد پاکستان میں عرصے سے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں بھی افغان دہشت گردوں کا ہاتھ ہونے کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ چند مہینوں میں پاکستان میں ہونے والے 24 خودکش حملہ آوروں میں سے 14 افغانی تھے۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد نیٹ ورک کو افغان دہشت گردوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ خیبر پختونخوا میں رواں برس 3 ہزار 911 افغان مہاجرین جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں، 597 افغان مہاجرین پاکستانی شناختی کارڈ بنانے کی کوشش میں گرفتار ہوئے۔ افغان کمشنریٹ کے مطابق، امارت اسلامی حکومت کے قیام کے بعد افغان مہاجرین کی آمد میں اضافہ ہوا اور پاکستان میں غیرقانونی طور پر7 لاکھ 75 ہزار افغان مہاجرین پاکستان داخل ہوئے۔
امریکی انخلا کے بعد سے افغانستان جس عدم استحکام کا شکار ہے وہ پاکستان سمیت اس کے تمام ہمسایوں کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کو سنجیدگی سے اس مسئلے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہ مسئلہ ابھی تو افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے لیے وبالِ جان بنا ہے لیکن آگے چل کر یہ عالمی امن کے لیے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے اور خود امریکا بھی اس خدشے کا اظہار کرچکا ہے۔ افغانستان میں قائم عبوری حکومت کو بھی اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ اگر انھوں نے دہشت گردوں اور ان کی کارروائیوں پر قابو نہ پایا تو ملک ان کے ہاتھ میں بھی نہیں رہے گا، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں کسی بھی صورت میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ طالبان حکومت کو چاہیے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں اور اپنی فوج میں موجود ایسے عناصر کو لگام ڈالے جو پاکستان کے ساتھ افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب کرا کے افغانستان کو ایک اچھے دوست کے تعاون سے محروم کرنے کی سازش کررہے ہیں۔