بلدیاتی نظام کے حوالے سے پاکستان تحریکِ انصاف بھی کام کر رہی ہے۔اس سلسلہ میں لوکل گورنمنٹ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی ، صوبائی وزیر لوکل گورنمنٹ سندھ سید ناصر حسین شاہ اور طاہر اقبال چوہدری ممبر قومی اسمبلی ‘‘ لوکل گورنمنٹ کانفرنس 2021 ‘‘ کے موقع پر پاکستان میں مقامی حکومتوں کے لیے گراں قدر خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ زاہد اقبال چوہدری چئیرمین لوکل کونسلز ایسوسی ایشن آف دی پنجاب ،حمائیت اللہ معیار صدر LCA خیبر پختونخواہ، اْو وِیڈْو مائک ہیڈ آف کوآپریشن یورپین یونین پاکستان، میاں راجن سلطان پیرزادہ صدر ADLG، سید کمیل حیدر شاہ صدر LCA سندھ، عابد لہڑی صدر LCA بلوچستان ، انور حسین چیف ایگزیکٹو آفیسر ADLG ، ارشاد حسین نمائندہ خصوصی یورپین یونین ، جاوید حسن، فوزیہ خالد وڑائچ صدر LCA پنجاب، میاں راجن سلطان پیرزادہ صدر ADLG حمائیت اللہ معیار صدر LCA خیبر پختونخواہ، انور حسین ،جاوید حسن اور ملک بھر سے تشریف لائے ہوئے چیئرمینز ضلع کونسلز ، مئیرز ، کونسلرز ، سول سوسائٹی اور نمائندہ افراد کی کثیر تعداد شریک تھے۔ اس کانفرنس کا انعقاد خوش آئند ہے۔ پنجاب کے وزیر میاں محمود الرشید بھی موجود تھے۔ زاہد اقبال چودھری کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ بلدیاتی نظام کے حوالے سے ان کی رائے کی بہت اہمیت ہے۔ بہت کام کرنے والے، خدمت کرنے والے اور نظام کو بنانے اور چلانے کی خوبیاں رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر بلدیاتی نظام جمہوریت کی بنیاد ہے۔ جیسے کرکٹ میں گراس روٹ لیول کی بہت اہمیت ہے ویسے ہی جمہوریت میں بلدیاتی نظام کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ زاہد اقبال چودھری کو کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ وہ نچلی سطح کے نظام کو بہت اچھے طریقے سے سمجھتے اور اس شعبے میں کارکردگی دکھانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ میاں محمودالرشید بھی کئی بلدیاتی نظام دیکھ چکے ہیں۔ گذشتہ پینتیس چالیس برس میں جتنے بھی بلدیاتی نظام آئے ہیں وہ ان سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ بلدیاتی نظام جمہوریت کی بنیاد ہے لیکن پاکستان میں ہر سیاسی جماعت اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جو بھی جماعت حکومت میں ہوتی ہے وہ اس نظام کو لے کر آتی ہے جو سیاسی طور پر اسے فائدہ پہنچا سکتا ہو۔ بلدیاتی نظام کو کبھی بنیاد سمجھ کر نہیں لایا گیا بلکہ اسے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے ہاں اس نظام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
سیاسی حلقوں میں جب بھی اس نظام کے حوالے سے بات چیت ہوتی ہے تو جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کی تعریف سننے کو ملتی ہے لیکن بدقسمتی سے وہ نظام ان کے ساتھ ہی رخصت ہوا اور ہمیشہ سے یہی ہوتا ہے جو حکمران جاتا ہے اس کی بنائی ہوئی چیزیں بھی اس کے ساتھ ہی رخصت ہو جاتی ہیں۔ ہمارے سیاستدان حکومت میں آنے کے بعد فنڈز کے زور پر انتخابات جیتنے کی طرف توجہ دیتے ہیں انہوں نے کبھی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے کام نہیں کیا وہ صرف اپنا الیکشن سیدھا کرتے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے لیے فنڈز کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کی ذمہ داری تو قانون سازی، اہم ملکی معاملات، بین الاقوامی معاملات پر قومی نقطہ نظر اور خارجہ پالیسی پر کام کرنا ہوتا ہے لیکن یہاں یہ پہلو نظر انداز ہوتا ہے۔ سب کی نظریں ترقیاتی فنڈز پر ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سب جان بوجھ کر بلدیاتی نظام کو نظر انداز کرتے ہیں اگر کونسلر آ گئے تو ترقیاتی کام تو نچلی سطح پر ہونا شروع ہو جائیں گے پھر ایم این اے اور ایم پی اے کو کوئی نہیں پوچھے گا لوگ اپنے مسائل کے لیے اپنے ناظم، چیئرمین یا کونسلر کے پاس جائیں گے۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی اہمیت ختم ہو جائے گی جب کہ وہ تو کروڑوں روپے لگا کر انتخابات میں حصہ ہی اس لیے لیتے ہیں کہ انہوں نے علاقے میں اپنی دھاک بٹھانا ہوتی ہے دوسرا فنڈز کے ساتھ کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی نظام پاؤں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔ یا پھر وہ اسے خودکشی سمجھتے ہیں۔ ان پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد وہ از حد اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں اس نظام کی مخالفت کرتے ہیں۔ اب پاکستان تحریکِ انصاف اس پر کام کر رہی ہے۔ ہمیں غیر ضروری طور پر خوش ہونے کی ضرورت تو نہیں لیکن ممکن ہے کہ کچھ مثبت تبدیلی دیکھنے کو مل جائے۔
ملک زولان پاکستانی نوجوان ہیں۔ انڈونیشیا میں قالینوں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ انڈونیشیا میں ان کے خاندان کے کئی افراد یہی کاروبار کرتے ہیں۔ جکارتہ میں پاکستان کی پہچان ہیں۔ پاکستان کے ہاتھ سے بنے قالینوں کی یہاں بہت مانگ ہے۔ پاکستان سے قالینوں کے علاوہ بھی کئی چیزیں انڈونیشیا لے کر جاتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر وہاں کام کر رہے ہیں۔ لگ بھگ 26سال سے انڈونیشیا میں کاروبار کر رہے ہیں۔ ملک زولان کہتے ہیں کہ اپنے بزنس کے ذریعے انڈونیشیا اور پاکستان کے عوام کے قریب لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں یہاں صرف بزنس نہیں کرتا بلکہ پاکستان کی ثقافت کو بھی فروغ دینے کے لیے کام کر رہا ہوں۔ انڈونیشیا کی اہم سیاسی شخصیات پاکستانی قالینوں کو بہت پسند کرتی ہیں۔ پاکستان کے ہنر مندوں کی یہاں بہت قدر کی جاتی ہے۔ کسی کو بھی اچھے قالینوں کی ضرورت ہو تو سب سے پہلے پاکستان کا نام لیا جاتا ہے۔ ہمارے لیے یہ بہت فخر کی بات ہے۔ ہم اپنے کسٹمرز کو پاکستانی ثقافت سے روشناس کرانے کے لیے شلوار قمیض کا تحفہ پیش کرتے ہیں۔ کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی مصنوعات یہاں لائیں اور انڈونیشیا کی مارکیٹ سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی خدمت کریں۔ میں انڈونیشیا اور پاکستان کے سیاسی دانوں کو قریب لانے اور پاکستانی کمیونٹی کو متحد کرنے کے لیے بھی کام کر رہا ہوں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38