اقبالؒ کو افغانوں سے بہت محبت تھی کیونکہ اْنہیں یقین تھا کہ افغان کبھی کسی کی غلامی قبول نہیں کرتے۔ اسی لئے اقبال نے کہا افغان باقی، کہسار باقی الحکم للہ، الملک للہ۔۔۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے صرف یہ سوچ کر افغانستان پر یلغار کی کہ مٹھی بھر طالبان کو ملیامیٹ کرنے کے لیے بی باون طیارے سے گرائے جانے والے چند ڈیزی کٹر بم ہی کافی ہوں گے، جبکہ سادہ لوح افغان عوام کو وہ ڈالروں کی چمک، تعمیر ِ نو کے کھوکھلے وعدوں اور چند حامد کرزئیوں اور اشرف غنیوں کے ذریعے رام کرلیں گے، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ امریکی سیانے یہ بھول گئے کہ جو معاشرہ ’’پختون ولی‘‘ جیسے شاندار ضابطہ وقار کو اپنے دل و جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہو۔ جہاں بندوق کو مرد کا زیور تصور کیا جائے۔ جہاں کے مشکلات سے بھرپور موسمی حالات افغان نوجوانوں میں نوعمری میں ہی دلیری، جفاکشی، مضبوط جسمانی ساخت، مصائب و تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے جیسے اوصاف پیدا کردیتے ہیں۔ اس معاشرے کو بزور جھکانا ناممکن ہے۔11ستمبر 2001ء سے شروع ہونے والی افغان جنگ لاکھوں انسانی جانوں کا تاوان وصول کر کے اختتامی مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ بجا‘ طالبان نمائندں کا حوالہ سر آنکھوں پر اور زلمی خلیل زاد اور اشرف غنی کے دعوے بھی اپنی جگہ‘ زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ترلوں پر اتر آیا ہے اور پاکستان کے گوڈے کو ہاتھ لگا رہا ہے کہ کسی طرح اسے با عزت واپسی کا راستہ مہیا کیا جائے۔ افغان عوام کی سرفروشانہ جدوجہد رنگ لا رہی ہے اور امریکی صدر ٹرمپ اپنے پیشروئوں کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے بے تاب ہے۔ تو حالات حاضرہ کچھ یوں ہیں کہ طالبان کا وفد اسلام آباد میں موجود ہے، جس نے جمعرات کو پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ اس ملاقات کے موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین دو طرفہ برادرانہ تعلقات، مذہبی، ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر استوار ہیں جبکہ پاکستان گذشتہ 40 برسوں سے افغانستان میں عدم استحکام کا خمیازہ یکساں طور پر بھگت رہا ہے۔ وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان صدق دل سے سمجھتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور افغانستان میں قیام امن کیلئے 'مذاکرات' ہی مثبت اور واحد راستہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے آج دنیا، افغانستان کے حوالے سے ہمارے مؤقف کی تائید کر رہی ہے۔ وفود کی سطح پر دفتر خارجہ میں ہونے والی ملاقات میں پاکستان فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔ خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، افغان طالبان کے وفد نے جمعرات کو ہی امریکی نمائیندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت سے بھی ملاقات کی ہے۔زلمے خلیل زاد اور طالبان رہنماؤں کے درمیان ملاقات ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ ایک ٹوئٹ کے ذریعے امن مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کیا تھا۔قطر سے پاکستان آئے ہوئے 12 رکنی طالبان رہنماؤں کے وفد کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر ہیں۔ ملا عبدالغنی برادر ان طالبان رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے پچھلے سال 24 اکتوبر 2018 کو لگ بھگ آٹھ سال پاکستان کے قید خانوں میں گزارنے کے بعد رہائی پائی تھی۔ ملا عبدالغنی برادر کیساتھ قید کے دوران حکام کا سلوک کیسا رہا اس بارے میں صرف ملا عبدالغنی برادر ہی کچھ بتا سکتے ہیں۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق قید کے دوران ملا عبدالغنی برادر کو ذیابطیس اور دیگر بیماریاں لاحق ہوئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ 24 اکتوبر 2018 کو رہا ہونے کے بعد ملا عبد الغنی برادر کو کراچی کے نجی ہسپتال سے علاج کرانا پڑا تھا۔آج وہی قیدی اسلام آباد بطور مہمان خصوصی تشریف فرما ہے۔ اللہ جس کو عزت دے۔ امریکہ کی ضرورت پاکستان کی بھی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں جنگ بندی اور امریکی فوج کے انخلا کے سلسلے میں طالبان وفد کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات ختم ہونے کے بعد طالبان وفد کا یہ چوتھا غیرملکی دورہ ہے۔ رواں سال ستمبر کے اوائل میں امریکی صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔س سے پہلے لگ بھگ 11 ماہ تک امریکی اور طالبان وفود کے درمیان مذاکرات چلتے رہے اور امریکی صدر کے اعلان سے ایک ہفتہ قبل وفود کی سطح پر مسودے پر اتفاق ہوگیا تھا تاہم صدر ٹرمپ نے مذاکرات ختم کر دیے تھے۔مبصرین خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ 12 رکنی طالبان رہنماؤں کے وفد کے دورہ پاکستان سے اسلام آباد اور واشنگٹن کس قدر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔افغان باقی کوہسار باقی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38