شاعر کسی اور پیرائے میں بات کر رہا تھا۔ وہ دراصل اس خوبصورت زبان کی نزاکتوں لطافتوں، شیرینی اور وضاحت کا قصیدہ پڑھ رہا تھا معنوی اعتبار سے جو کچھ اس نے کہا آج بھی حرف بحرف درست ہے۔ اس ملک کی قومی زبان اردو ہے۔ پاکستان کو بنے چھیاسٹھ برس ہو گئے ہیں۔ بانی پاکستان نے تمام مصلحتوں کو بالائے طارق رکھتے ہوئے اعلان کیا؛ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی۔ آئین پاکستان نے اسکی ضمانت دی۔ ساری قوم نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ اس طرح اردو ہر پاکستانی کی امیدوں، امنگوں آرزوئوں اور ارادوں کا محور و مرکز بن گئی۔ بایں ہمہ یہ پاکستان کی صحیح معنوں میں قومی زبان نہ بن سکی۔ اسے انگریزی کا دست نگر بنا دیا گیا۔ تمام اعلیٰ مناصب انگریزی دانوں کو ملنے لگے۔ مقابلے کے امتحان انگریزی میں ہونے لگے۔ دفتری زبان بھی یہ ہی قرار پائی۔
وجہ…؟ یہ ملک تو آزاد ہو گیا لیکن فکر و نظر آزاد نہ ہو سکی۔ ایک قلیل لیکن منظم گروہ پیر تسمہ پا کی طرح قوم کے اعصاب پر سوار ہو گیا جس قدر غیریت، مخاصمت، کدورت اور عدم توجہی ان لوگوں نے اس زبان کے ساتھ روا رکھی اسکی مثال نہیں ملتی۔ اسکے نفاذ نہ کرنے سے متعلق کئی دلیلیں دیں، سینکڑوں تاویلیں نکال لیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہنوز اپنے آپکو انگریز کی معنوی اولاد سمجھتے ہیں۔ تمباکو کے پائپ کی طرح منہ ٹیڑھا کرکے دریائے ٹیمز میں دھلی ہوئی انگریزی بولتے ہیں۔ باہر جا کر کچھ ایسا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے انہوں نے اس ملک میں پیدا ہو کر بہت بڑی غلطی کی ہو کمبخت یہ نہیں سوچتے کہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں اس ملک کی وجہ سے ہیں۔ اگر خدانخواستہ پاکستان نہ بنتا تو ہندو بنیا انکی قابلیت کی قلعی کھول دیتا۔ انکی اکثریت کسی سیٹھ گھنشام داس کی منشی گیری کر رہی ہوتی اور یہ بڑی توندوں اور کرخت چہروں والے کارخانہ دار، تاجر کوچہ املی شاہ میں گول گپے بیچ رہے ہوتے۔ ہندی ان پر مسلط کر دی جاتی جس کے رسم الخط کو سمجھنے کیلئے ہی ان کو ایک عمر درکار ہوتی۔
اردو کا نفاذ ایک آئینی ذمہ داری ہے۔ ایک قومی فریضہ ہے اس سے صریحاً خلاف ورزی کے ذمہ دار ہمارے حکمران بھی ہیں۔ یہ ایک عجیب قسم کے احساس کمتری کا شکار ہیں۔ انگریزی انہیں آتی نہیں ہے اردو سے رسمی علیک سلیک ہے۔ ان پر …ع
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جائوں کدھر کو میں
والی کیفیت طاری ہے۔ شاہ ملتانی جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس کرکے اپنے بھد اڑوائی تھی۔ گیلانی صاحب صحیح انگریزی بول نہیں سکتے تھے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ سمجھنے میں بھی دشواری پیش آ رہی تھی۔ ہر سوال گندم کا جواب چنا دیتے۔ میاں نواز شریف نے بھی پچھلے دنوں اوبامہ کے ساتھ جو مشترکہ پریس کانفرنس کی، اس نے کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ چند لفظ ادا کرنے کیلئے بھی انہیں پرت حقیر کا سہارا لینا پڑا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ چین، روس، جرمنی اور فرانس کے حکمرانوں کی طرح قومی زبان میں بولتے۔ بھرم بھی قائم رہتا اور پوری قوم کا سر بھی فخر سے بلند کر دیتے اور یوں حیران امریکی صدر انگشت حیرت منہ میں نہ ڈالتا۔
انگریزی دان طبقہ اپنے موقف کے حق میں چند بودی دلیلیں پیش کرتا ہے۔ اردو میں سائنسی علوم کو اپنے اندر جذب کرنے کی سکت نہیں ہے۔ سائنسی تعلیم کے بغیر ہم شاہراہ ترقی پر گامزن نہیں ہو سکتے۔ انگریزی عملاً بین الاقوامی زبان بن چکی ہے۔ اسے نظر انداز کرکے آگے بڑھنا مشکل ہو گا۔ اردو ہندی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے، جب ملک الگ ہو گیا ہے تو زبان کے معاملے میں بھی غور کرنا ہو گا۔
اگر ان اعتراضات کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ان میں کوئی وزن نہیں ہے۔ جب سائنسی علوم کو لاطینی سے انگریزی کے قالب میں ڈھالا جا رہا تھا تب بھی یہ مدفوق منطق اختیار کی گئی تھی۔ اسکا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ جہاں تک دوسری دلیل کا تعلق ہے کسی نے بھی نہیں کہا کہ انگریزی کو ملک بدر کر دیا جائے۔ یہ مفید زبان ہے اس کو ضرور رہنا چاہیے لیکن اردو کی قیمت پر یا اسکی قربانی دیکر نہیں۔ پہلے اپنی قومی زبان سیکھیں پھر جو بھی زبان سیکھیں گے وہ سونے پر سہاگہ ہو گی۔ اسے بیس کروڑ عوام پر انکی مرضی کیخلاف مسلط نہ کریں۔
اردو کا ہندی کے ساتھ اتنا ہی تعلق ہے جتنا فارسی، عربی وغیرہ کے ساتھ ہے۔ دنیا کی تمام زبانوں نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا ہے۔ انگریزی کو اگر غور سے دیکھا جائے تو اس میں لاطینی، فرانسیسی، جرمن اور دیگر الفاظ کی بھرمار ہے۔ زندہ زبانیں وقت کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔ اپنے اوپر جمود طاری نہیں کرتیں۔
میں نے اپنے سابقہ کالم میں ’’ملتان میں عالمی اردو کانفرنس‘‘ کا اجمالاً ذکر کیا تھا۔ اس پر مزید کچھ لکھنے کی گنجائش ہے، اس سے اندازہ ہو گا کہ مغرب زدہ طبقہ اور نوکر شاہی اردو کی مخالفت میں کس قدر آگے بڑھ گئے ہیں۔ 1992ء میں، میں ڈپٹی کمشنر ملتان تھا۔ سوچا عالمی اردو کانفرنس منعقد کروا کے ایک فرض کی تکمیل کی جائے جب ہم نے دعوت نامے بھیجنے شروع کیے تو مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ لاہور سیکرٹریٹ میں کئی جبینیں شکن آلود ہوئیں۔ بے شمار چہروں پر غصے کا مدوجزر ابھرا۔ آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا! کمشنر رانا سلیم اختر نے جن پر ہر وقت اپنی ٹرانسفر کے خوف کا بھوت سوار رہتا تھا مجھے ارباب بست و کشاد کی ناراضی سے آگاہ کیا۔ ایک انگریزی اخبار کے بیورو چیف نے احتجاج کیا۔ سرائیکی بیلٹ میں اردو کی ترقی و ترویج کی بات کرنا نامناسب ہو گا۔ اندیشہ ہائے دور دراز کو ذہن کے زندان سے باہر نکالتے ہوئے میں نے اس کا اہتمام کر ڈالا۔ تمام دنیا سے اردو دان بلوائے گئے۔ ہندوستان سے گوپی چند نارنگ، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر خلیق انجم، ناروے سے جمشید مسرور، انگلینڈ سے اعجاز احمد، ایران سے آقائے شاہ رخ عرب شاہی ، چین سے یوان وے شوائے، وطن عزیز سے احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر جمیل جالبی، اشفاق احمد، ڈاکٹر سلیم اختر، پریشان خٹک، مشکور حسین یاد، خواجہ زکریا، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر محمد امین، مرزا حامد بیگ، طاہر تونسوی، امجد اسلام امجد، محسن احسان، محمد صلاح الدین مدیر ہفت روزہ تکبیر و دیگران…غلام حیدر وائیں وزیر اعلیٰ مہمان خصوصی تھے۔
میں نے اپنے افتتاحی خطبے میں وزیر اعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ حسن والے حسن کا انجام دیکھ، ڈوبتے سورج کو وقت شام دیکھ… وائیں صاحب! وزارت علیہ تو آنے جانیوالی چیز ہے اس پر بھروسہ نہ کریں۔ آپ تاریخ کی دہلیز پر کھڑے ہیں تاریخ نے تو یہ دیکھنا ہے کہ آپ نے گیسوئے اردو سنوارنے میں کیا خدمات سرانجام دی ہیں۔ جب اخباروں میں اگلے دن خبر چھپی تو چیف سیکرٹری نے میری جواب طلبی کر دی۔ وزیر اعلیٰ کی شان میں گستاخی کیوں کی ہے؟ جواباً لکھا:
یہ دل جو قحط انا سے غریب ٹھہرا ہے
میری زبان کو زر التماس کیا دے گا
وائیں صاحب نے واپس جا کر جب حکم صادر کیا کہ تمام سمریاں اردو میں بھجوائی جائیں تو چار سو شور مچ گیا؛ وزیر اعلیٰ ان پڑھ ہے جبھی تو اردو کی بات کرتا ہے۔ یہ ایک طویل داستان ہے جو ایک کالم میں بیان نہیں ہو سکتی۔ ان لوگوں نے پہلے بھی اسمبلی کی متفقہ ریزولوشن اور عدالتی احکامات ہوا میں اڑائے ہیں۔ دیکھیں! سپریم کورٹ کے واضح حکم کے بعد گنبد نیلو فری سے اچھلتا ہے کیا!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38