امسال پنجاب بھر کے تمام بورڈ کا انٹرمیڈیٹ کا سالانہ امتحانات کا نتیجہ تمام گذشتہ سالوں کی نسبت بہت بہتر تھا۔ اس سلسہ میں تمام تعلیمی بورڈز کے چیئرمین ‘ کنٹرولر امتحانات‘ سپرنٹنڈنس‘ مارکنگ کرنے والے تمام معزز اساتذہ مبارک باد کے مستحق ہیں سب سے بڑھ کر سنٹر مارکنگ میں بورڈز کی جانب سے تمام معاون جن کی مستعد اور ایماندارانہ کارکردگی کی وجہ سے بہت کم شکایات سامنے آئیں۔ یہ سب کچھ درحقیقت خادم پنجاب میاں محمد شہبازشریف کی دیرینہ خواہش ‘ کہ ہر کام میرٹ پر ہونا چاہئے کا نتیجہ ہے۔ یہ تمام اوصاف ایک طرف مگر سب سے سوہان روح اور طلبا و طالبات کےلئے جس اضافی بوجھ کو مسلسل روا رکھا جا رہا ہے۔ وہ گذشتہ بارہ‘ تیرہ سال سے رائج ”انٹری ٹیسٹ“ جو بلاشبہ لائق اور ذہین طلباءو طالبات کے لئے ذہنی کوفت اور بیشتر غریب والدین کے لئے بے پناہ ذہنی اور مالی تکالیف کا باعث بنا ہواہے۔ انٹری ٹیسٹ کا سلیبس ایف ایس سی کے طلباءو طالبات کے لئے کسی صورت بھی معاون نہیں نہ تو اس کا میڈیکل یا پری انجینئرنگ کے شعبہ سے تعلق ہے اس حقیقت سے سب آگاہ ہیں کہ ایف ایس سی میں نہایت ہی لائق اور ذہین طلباءو طالبات میٹرک میں اعلیٰ نمبروں کی بدولت ہی‘ اور مختلف تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی معاونت سے پوزیشن لیتے ہیں۔ ان کی چار سالہ محنت آخر ثمر آور ثابت ہونے کے قریب ہوتی ہے تو ان کے سروں ”انٹری ٹیسٹ“ کا عفریت سوار ہو جاتا ہے ۔ اس سلسلہ میں چند ”اکیڈمیز مافیا“ نے منفی کردار ادا کیا ہے۔ جائز وناجائز طریقہ سے ہر سال کروڑوں روپیہ ان کی نذر ہو جاتا ہے۔ بعض اکیڈمیاں 23 تا 25 ہزار روپے ”انٹری ٹیسٹ“ کی تیاری کے لئے والدین سے اینٹھ لیتی ہیں یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کیا اڑھائی گھنٹے کا ٹیسٹ طلباءو طالبات کی چار سالہ شب و روز محنت کا متبادل ہو سکتا ہے۔
ایک اور المناک صورت حال کہ لاہور کے اطراف سے آئے ہوئے اکثر طلباءو طالبات کومختلف ہاسٹلز میں مجبوراً رہنا پڑتا ہے‘ جس سے والدین بے پناہ معاشی مشکلات سے دو چار ہوئے ہیں‘ لہذا تمام والدین اور انکے معاشی مسائل‘ طلباءو طالبات کے ذہنوں پر اضافی بوجھ ”انٹری ٹیسٹ“ کو فی الفور ختم کیا جائے‘ اگر اس امر کا مشاہدہ کیا جائے تو امتحانات کا شفاف انعقاد‘ مارکنگ کا کمپیوٹرائزڈ نظام‘ فی الفور مارکنگ کی چیکنگ سب کی موجودگی ”انٹری ٹیسٹ“ کاجواز نہیں رہتا۔ اگر بیورو کریسی ”انٹری ٹیسٹ“ پر اتنا ہی بضد ہے تو پھرایس ایس سی کی بجائے میٹرک کو بنیاد بنا کر صرف ”انٹری ٹیسٹ“ لے کر ہی طلباءو طالبات کو میڈیکل اور انجینئرنگ کے شعبہ جات میں داخلہ کا موقع فراہم کرے۔ ان تمام حقائق میں ایک اور ظلم روا رکھنے والا قدم‘ گذشتہ سالوں میں انٹری ٹیسٹ کے 30 فیصد / 70 فیصد تعلیمی کارکردگی کا فارمولا تھا اور اب 50 فیصد انٹری ٹیسٹ اور 50 فیصد تعلیمی کارکردگی اس سے بڑھ کر اور ظلم اور بوجھ کیا ہو گا طلباءو طالبات کے لئے ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024