وزیراعظم کا ریلیف پیکج اور مہنگائی مین پسے عوام

Nov 06, 2021

Ambreen Fatima

عنبرین فاطمہ 
کورونا کے بعد دیگر ممالک کی طرح بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پاکستان کو بھی بری طرح سے متاثر کیا ہے ،کم آمدنی والے لوگوں کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ عالمی منڈی میں کچھ چیزوں کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اس میں تیل اور خوردنی تیل کی قیمت سر فہرست ہے۔ بدقسمتی سے زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم دالیں بھی درآمد کررہے ہیں  اور  خوردنی تیل ملائیشیا سے پام آئل کی شکل میں منگوانا پڑتا ہے۔اسی طرح پاکستان میں بننے والی بجلی کے لئے کوئلہ آسٹریلیا سے درآمد کیا جاتاہے۔
حکومتی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت اس قت ایک سو ستر روپے ہے اور اگر اس حساب سے تیل کی قیمت طے کی جائے فی لیٹر پٹرول کی قیمت کچھ نہیں تو دو سو روپے سے اوپر چلی جاتی ہے جو کہ خطے کے دیگر ممالک سے کم ہے۔اگر نظر دوڑائیں انڈیا کے ڈالر کی قیمت پر تو وہاں ڈالر کی قیمت اسی روپے ہے لیکن وہاں فی لیٹر پیٹرول دو سو روپے سے اوپر ہے۔ یہی صورتحال بنگلہ دیش میں بھی ہے ۔تین روز قبل وزیراعظم عمران خان نے عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے عوام کے لئے ایک بڑے ریلیف پیکج کا اعلان کیاہے۔جس کے تحت چھ ماہ میں کھانے پینے کی اشیاء میں 13کروڑ افراد کو یو ٹیلٹی سٹوروں پر   120ارب روپے کی سبسڈی دی جائیگی ۔لیکن فی الوقت پٹرول کی قیمت بڑھانی پڑے گی اور پٹرول کی قیمت کو بڑھانا حکومت کی مجبوری بتایا ۔اس خطاب کے بعد سوشل میڈیا سمیت ٹی وی پر تبصرے بھی ہوتے رہے لوگ پٹرول کی قیمت بڑھنے کے بعد مہنگائی سے آنے والے طوفان کی باتیں کرتے رہے ۔یوں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی تقریر کے اڑتالیس گھنٹوں کے بعد ہی پٹرول کی قیمت میں 8روپے سے زیادہ اضافہ کر دیا گیا ۔مجموعی طور پر دیکھیں تو پچھلے چار ماہ چار دن میں پٹرول پینتیس روپے اور ڈیزل تیس روپے فی لیٹر مہنگا ہو چکا ہے۔رپورٹس کے مطابق  پٹرول کی نئی قیمت 145روپے 82 پیسے ہوگئی ہے، اسی طرح ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 8روپے 14 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔مٹی کے تیل کی قیمت 6 روپے 27 پیسے اضافے سے 116روپے 53 پیسے کردی گئی ہے۔دوسری طرف چینی کی قیمت بھی 150روپے کلو تک پہنچ گئی ہے ۔ چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ کو مہنگائی نہیں بلکہ شوگر مافیا کی جانائز منافع خوری کہا جائیگا ۔دوسری طرف سبزیاں اور پھل پیٹرول کی قیمت بڑھتے ہی مہنگے ہو گئے ہیں ۔حالانکہ اسے ہم درآمد نہیں کرتے یہ پاکستان میں ہی پیدا ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ آڑھتی مافیا اور دوکاندار کررہے ہیں۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتو ں میں اضافے کے بعد’’ شہباز گل‘‘  نے فورا ایک ٹویٹ کی اور کہا کہ ’’ پیٹرول کی قیمت بڑھانا کوئی پسندیدہ فیصلہ نہیں تھا ہر پہلوسے دیکھا گیا پوری دنیا میں پٹرولیم کی قیمت دو گنا ہو چکی حکومت پہلے ہی پٹرولیم ٹیکس 31روپے سے کم کرکے پانچ روپے تک لا چکی ۔ترجمان وزیراعظم ڈاکٹر شہباز گل امریکی یونیورسٹیز میں معیشت پر نا صرف لیکچرز دیتے تھے بلکہ ڈاکٹری کے معزز پیشے سے بھی منسلک تھے۔ وہ عمران خان کی محبت اور ملکی مفاد میں اپنی لگژری لائف کو ترک کر ملک واپس آئے۔ لیکن محض اپوزیشن کو برا بھلا کہنے کی بجائے وہ حکومتی عوامی فلاحی منصوبہ جات اور غیرملکی قرضوں پر اعدادوشمار  کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔
 اب سوال یہ ہے کہ لوگ کیا کریں غربت میں پسنے والا طبقہ کیا کرے سفید پوش کہاں جائے۔ وہ بجلی کے بل ادا کرے دو وقت کی روٹی پوری کرے ،گھر کا کرایہ دے یا بچوں کو تعلیم دلوائے؟۔ہر طرف ناجائز منافع خوری کا بازار گرم ہے کسی جگہ پر سبزی کا ریٹ کچھ ہے تو دوسری جگہ کچھ اور ،انتظامیہ اس من مانی  پر غافل دکھائی دے رہی ہے۔ بلکہ یوں کہا جانا چاہیے کہ حکومت قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ یہ کس قانون کے تحت ریٹ وصول  کئے جاتے ہیں کہ ایک جگہ گوبھی پچاس روپے کلو فروخت ہو رہی ہے اور دوسری جگہ اسی روپے کلو۔ اب ایک ریڑھی بان جو نہ بجلی کا بل دے رہا ہے نہ دوکان کا کرایہ ،وہ کس  وجہ سے سبزی کے دام اپنی مرضی سے لگا کر فروخت کر رہا ہے؟۔  ڈالر مہنگا ہوجانے پر پٹرول باہر سے مہنگا منگوایا جانا تو سمجھ میں آتا ہے ہے ، لیکن پاکستان میں جو سبزی اگتی ہے اسکا ڈالر کے ریٹ یا پیٹرول کی قیمت سے کیا تعلق ہے؟ پاکستان میں ہر چیز کو  پٹرول سے منسلک کر دینا رواج بن گیا  ہے جیسے پیٹرول کی قیمت بڑھتی ہے ایسی چیزوں کی قیمتوں کو بھی پر لگ جاتے ہیں جو پاکستان میں ہی پائی جاتی ہیں اور کہیں سے درآمد نہیں کرنی پڑتیں۔ 
آج صورتحال یہ ہے کہ ایک فیملی جس کے چھ یا سات ممبرز ہیں ان کیلئے ایک وقت کی سبزی بھی پکانا مشکل ہو گیا ہے۔ہمارا آئین بھی کہتا ہے کہ حکومت عوام کی ضروریات زندگی پوری کرنے کی ذمہ دار ہے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومت کو اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لانے چاہیں ۔بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اسکے نتیجے میں ہونے والی بدحالی کو روکنے کے لئے حکومت اور عوام دونوں میں اعتماد کا رشتہ  برقرار رہنا ضروری امر ہے ۔جس رفتار سے مہنگائی کا بے قابو جن غریبوں کونگل رہا ہے اور آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی نے بھوک و افلاس سے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے ،اس میں حکومت کے ہاتھوں  انتظامی کنٹرول کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ہر دوسرے دن ہر چیز کی قیمت میں اضافہ عوام کی جان کو آگیا ہے، ہر چیز چاہے وہ کھانے کی ہو یا اوڑھنے کی ، اس پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔مہنگائی کی سطح عروج پر ہے ، معاشرے کا کون سا ایسا طبقہ ہے جو اس کمر توڑ مہنگائی سے براہ راست متاثر نہ ہوا ہو۔ غریب اور مزدور طبقے کی تو بات ہی مت پوچھیے ان کے یہاں تو چولہا جلنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے دوراقتدارمیں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پریشان حال عوام کو ریلیف دینے کیلئے، اتوار بازار، سستے بازار اور یوٹیلیٹی اسٹورز قائم کیے ان ااسٹورز پر اشیائے خوردونوش کو سستے داموں فروخت کیا جاتا تھالیکن گزرتے وقت کے ساتھ یوٹیلیٹی اسٹورز بھی اس معاشی بحران  میں امیدوں پرپورے نہیں اتر رہے۔
دوسری طرف دیکھیں تو بچوں کی تعلیم ہو یا علاج معالجہ یہ بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے ادویات کی قیمتوں میں بھی حد درجہ اضافہ ہوا ہے کچھ نہیں تو ادویات کی قیمتوں میں دو گنا سے لیکر دس گناہ تک اضافہ ہوا ہے،لوگ اپنی گاڑیاں کیا لوکل ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنے سے گھبراہٹ کا شکار ہیں،نہ صحت نہ تعلیم نہ رہائش آخر غریب کدھر جائے کیا کرے ؟۔ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے جب تنخواہ اتنی کم اور مہنگائی اتنی زیادہ ہے۔مہنگائی سیلابی ریلے کی طرح عوام کو بہا کر لے جا رہی ہے ، موجودہ حکومت کو جلد از جلد اس مہنگائی پر قابو پانا ہو گا ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈالر کی قیمت میں کمی کرے روپے کی ویلیو  میں استحکام لائے قیمتیں خود بخود کم ہوجائیں گی اور مہنگائی کے مارے عوام کچھ تو سانس لے سکیں گے ۔
۔

کروناسے عالمی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی

 محبوب احمد
تحریک انصاف کی حکومت نے جب اقتدار سنبھالاتو فارن ایکسچینج بحران کے ساتھ ساتھ ایکسٹرنل اکاؤنٹ پر بے پناہ دباؤ تھاجس پر قابو پانے کیلئے کئی بار معاشی ٹیم بھی تبدیل کرنا پڑی۔ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ آیا تو معیشت میں کچھ بہتری آئی مگر اس کے ساتھ ہی یہ معاشی بحالی ’’کرونا‘‘کے باعث متاثر ہونا شروع ہو گئی۔ ’’کرونا‘‘سے پوری دنیا کے ممالک متاثر ہوئے لیکن اس نازک مرحلے میں ملک میں سمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے اقتصادی سرگرمیوں کو محدود پیمانے پر جاری رکھا گیا۔وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میںترقی پذیرممالک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے  عالمی برادری کو 43سو ارب ڈالر کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عالمی معیشت اس وقت تک مکمل بحال نہیں ہو گی جب تک تمام ممالک پائیدار ترقیاتی مقاصد اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کے لئے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں کریں گے۔اس میںکوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ  دنیا کا کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو  مہنگائی سے متاثر ہوئے بغیر رہا ہو۔ ترکی کی کرنسی 35 فیصد گراوٹ کا شکارہے جبکہ امریکہ اور یورپ 2008 ء کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ڈالر کی کمی کی وجہ سے ہی پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنا پڑاان نازک حالات میں اگر سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات مدد کیلئے میدان میںنہ آتے تو اسے دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔  لہٰذا ایسی صورت میںحکومت کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے اور قرضوں کی واپسی کیلئے نئے قرض حاصل کرنا نا گزیر تھا۔ بہرکیف عام آدمی حکومتی قرضوں یا خسارے کو نہیں دیکھتا کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ اشیاء ضروریہ اس کی دسترس میں ہیں یا نہیں۔ عالمی سطح پر گزشتہ 4 ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 100 فیصد جبکہ پاکستان میں محض 33 فیصد اضافہ ہوا لہٰذا ایسی کٹھن صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان نے مہنگائی اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیش نظر تاریخ کے سب سے بڑے جس فلاحی پروگرام کا اعلان کیا ہے اس کے مطابق 40لاکھ مستحق خاندانوں کو گھروں کی تعمیر کے لئے بلاسود قرضوں کی فراہمی ،گھی، آٹا، دال پر 30 فیصد سبسڈی ،ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سکالرشپ پروگرا م شروع کرتے ہوئے کامیاب پاکستان پروگرام کے لئے 14 ارب اور60 لاکھ وظائف کے لئے47 ارب روپے مختص کرکے دسمبرمیں پورے اسلام آباد جبکہ مارچ 2022 ء تک پورے صوبہ پنجاب میں صحت انصاف کارڈ کا اجرا ء اور مہنگائی سے ریلیف کیلئے 2 کروڑ خاندانوں کیلئے خصوصی پیکج دیاجائے گایہاں احساس پروگرام کی ٹیم نے 3 برس میں جس طرح تمام مستحق لوگوں کاجو ڈیٹا جمع کیا وہ یقینا قابل تحسین ہے کیونکہ اس کے بغیر سبسڈی دینا آسان کام نہیں تھا۔
 تاریخ شاہد ہے کہ پیپلز پارٹی کا دور ہو یا پھر ن لیگ کا لوڈشیڈنگ ہمارا ایسا مسئلہ رہا جسے مستحکم شخصی حکومتیں بھی حل کئے بغیر رخصت ہو گئیں۔پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی اوپرنیچے آتے رہے،ڈالر نے60سے90اور پھر 130تک اڑان بھری،گردشی قرضوں میں ریکارڈ اضافے سے ہر پاکستانی سوالاکھ کا مقروض ہوا،سٹیل مل،پی آئی اے اور دیگر منافع بخش ادارے ہماری آنکھوں کے سامنے سفید ہاتھی بن گئے۔ پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی قرضہ لینے کی ضرورت پڑ گئی تھی لہٰذا بیرونی قرضوں کے لحاظ سے اس کو8 ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس حکمران نے وطن عزیز کو کتنا مقروض کیا۔بھٹو کے تباہ کن جمہوری دور میں پاکستان نے پہلی بار بڑے بڑے قرضے لینے شروع کئے اوریہ سلسلہ زرداری اور نواز شریف کی جمہوری حکومت نے بھی برقرار رکھا لیکن بظاہر ایسے کوئی منصوبے نظر نہیں آئے جہاں یہ رقم خرچ کی گئی ہو،اگر بغور جائزہ لیا جائے تو جمہوری حکومتوں کے لئے گئے قرضوں کا محض سود ہی آمرانہ ادوار کے کل لئے گئے قرضوں سے زیادہ ہے، بدقسمتی سے گزشتہ 10برس کے دوران ٹیکس بیس کا بہت کم ہونا، زرمبادلہ کے ذخائر کا ہمیشہ نازک سطح اور سرکاری اداروں کا مسلسل نقصان میں رہنا معاشی بدحالی کے ذمہ دار عوامل ہیںاوراب ان سب کو ٹھیک کئے بغیر آمدن نہیں بڑھے گی۔چشم فلک نے ماضی میں ایسے ایسے واقعات بھی دیکھے کے جس سے سر شرم سے جھک جاتے ہیں مثال کے طور پرپاناماسکینڈل منظر عام پر آیا تو ہمارے حکمرانوں کو عالمی میڈیا نے بحری قذاق سے تشبیہہ دی،سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ بھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم کو امریکی ایئرپورٹ پر کپڑے اتروا کر تلاشی کیلئے مجبور کیا گیا۔ پانامہ پیپرزنے عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے کیونکہ اس عالمی سکینڈل میں سیاسی رہنماؤں کے علاوہ فنکار،کھلاڑی اوردیگر بہت سے لوگوں کا بھی ذکر سامنے آیا جنہوں نے ٹیکس بچانے کے لئے آف شور کمپنیاں بنا ئیں اور یہ کہ حکمران طبقات اور دیگر نے ٹیکس سے بچنے کے لئے ایسے ایسے مضحکہ خیز حربے استعمال کئے جس سے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔سابقہ ادوار کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو وطن عزیز کے ہر شعبے اورادارے میں کرپشن اور اقربا پروری ’’اوپر سے نیچے ‘‘اس حد تک سرایت کرگئی تھی کہ پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہو کہ جنہیں سیاسی جماعتوں نے اپنے مقاصد کیلئے استعمال نہ کیا ہو، ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اہم قومی اداروں کو معاشی زبوں حالی کا شکارکرنے کیلئے سیاسی،سفارشی اور رشوت کی بنیاد پر گنجائش سے دوگنی بھرتیاں کی گئیں۔مقام افسوس ہے کہ لوٹ مار اور کرپشن کا بازار ہی گرم نہیںرہا بلکہ سیاست میں دولت کا عنصر بھی حاوی ہوتا چلاگیا۔
حکومت کی طرف سے اربوں روپے کے ریلیف پیکجز کی فراہمی کے باوجودملکی حالات کاروز بروز دگر گوں ہونا لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔اس حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیں ہے کہ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ ہونے کے باعث عوام اشیاء خور و نوش مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔پرائس کنٹرول کمیٹیز گرانفروشوں اور منافع خوروں کے آگے مکمل بے بس جبکہ ضلعی انتظامیہ کا کردار بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ذخیرہ اندوز اور گراں فروش مافیا متعلقہ محکموںکی روایتی سستی کا فائدہ اٹھا کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مسلسل بڑھنے سے آئے روز مہنگائی کا ایک نیا طوفان عوام کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے حالانکہ تحریک انصاف نے ریلیف فراہم کے سہانے خواب دکھائے تھے مگرآئے روزمروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور نئے ٹیکس عائد ہونے سے بھی سکھ کا سانس لینا مشکل ہوچکا ہے ۔ عالمی مارکیٹ میں اگر پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا ہمارے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو شاید قیمتوں میں اضافے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہولہٰذاموجودہ کسمپرسی کے حالات میں آئی ایم ایف کی قبول کی گئی شرائط کے تحت پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں بتدریج اضافہ عوام کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے ایسے میں حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں پر نظرثانی کرکے عوام کو غربت،مہنگائی اوربے روزگاری کے عفریت سے نکالنے کیلئے کائی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا کیونکہ اگریونہی بیرونی ڈکٹیشن پر تیل ،گیس،بجلی،ادویات اور اشیاء خودرنی کے نرخ بڑھاکرعوام کو نئے ٹیکسوںکے بوجھ تلے دبایا جاتا رہا تو اپوزیشن کو حکومت مخالف تحریک چلانے کا بھرپور موقع میسر آئے گا جس کیلئے دوبارہ صف بندی بھی کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کومصنوعی مہنگائی کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے مٹھی بھر مفاد پرستوں کے ہاتھوں یرغمال بننے اور ان کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کی بجائے سرکاری نرخوں پر اشیاء کی فروخت یقینی بنانے اور گرانفروشی کے سدباب کیلئے پولیس و سول انتظامیہ پر مشتمل ایسی خصوصی کمیٹیاں تشکیل دینی چاہئیں کہ جو مہنگائی' ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔پی ٹی آئی حکومت نے انتخابات سے قبل کرپٹ عناصر کو کٹہرے میں لاکر پائی پائی وصول کرنے کا جو نعرے لگایا تھا اس پرخاطر خواہ عملدرآمدنہ ہونے سے عوام کے اعتماد کوشدید ٹھیس پہنچی ہے لہٰذا اب 3برس بعد مہنگائی اور بے روزگاری پر احتجاج کرکے سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنانے والی اپوزیشن جماعتوں سے30 برس کے دوران لوٹی گئی دولت ملک واپس لانے کیلئے وزیر اعظم عمران خان کی محض درخواست کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ بدعنوان عناصر سے ہاتھ نہ ملانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ دیا جائے،یہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن کے کیسز میں ملوث ملزمان چاہے وہ کوئی بھی ہوں کی میڈیا پر پابندی کیلئے مئوثر قانون سازی کی جائے کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بدعنوان عناصر کوٹی وی پروگرامز میں بلاکر 2،2 گھنٹے کی تقریر کرائی جائے اس حوالے سے معاشرے میں ایک فکری انقلاب کی بھی اشد ضرورت ہے ۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت بڑھتی ہوئی مہنگائی کیخلاف صرف بیان بازی پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہے اور ان دونوں جماعتوں کے قائدین اب اس انتظار میںہیں کہ خود تحریک چلانے کے بجائے اس وقت کا انتظار کیا جائے جب لوگ ٹیکسوں اور مہنگائی سے تنگ آ کر خود باہر نکلیں لیکن اب سیاسی شطرنج کی چال بدل چکی ہے لہٰذا حکومت اب کوئی ایسا موقع فراہم نہیں کرے گی جس سے مخالف جماعتوں کو کوئی سیاسی فائدہ حاصل ہو پائے ۔زرداری اور شریف خاندان کی سیاست اب ’’آئی سی یو ‘‘وارڈ میں آخری ہچکی لے رہی ہے اور مستقبل قریب میں ایم کیوایم ’’متحدہ‘‘کی طرح اس کا بھی کوئی کرداردکھائی نہیں دے رہا۔

مزیدخبریں