بلھے شاہ اسی مرنا ناہیں۔۔۔
اپنے ذکر سے کالم شروع کرنا اور اپنی ذات پر روشنی ڈالنا اگرچہ خود میرے نزدیک پسندیدہ فعل نہیں تاہم موضوع کے تقاضے کے پیش نظر مجبوراً ایسی ابتدا کر رہا ہوں۔ اگر صحافت صرف اور صرف سچ لکھنے کا نام ہے تو عجز و انکسار ایک طرف، کسر نفسی گئی بھاڑ میں، سچ یہ ہے کہ میں ایک مکمل پیشہ ور صحافی ہوں۔ انتہائی بدلحاظ، بے حد منہ پھٹ اور ہر لمحہ خبر کے لیے بے چین۔ خبر لینے کے لیے بھی اور خبر دینے کے لیے بھی۔ خبر لینے کے لیے رگ و پے میں تجسس بھرا ہے تو خبر دینے کے لیے طبیعت میں اسی قدر بے قراری جبکہ خبر رکھنے یعنی ہر ایسی بات کو جو خبر کی ذیل میں آتی ہو ، زیادہ سے زیادہ بڑے پیمانے پر اطلاع بنا دینے تک ایک ایک لمحہ کس قدر بھاری ہوتا ہے، میں ہی جانتا ہوں۔ اور اگر پیشہ ور صحافی یہی ہوتا ہے تو میرا نام قدرت اللہ چوہدری ہے۔ خبر روکنا میرے بس میں کبھی رہا ہی نہیں۔ میں ہمیشہ خبرپہن کے پھرا اور خبر اوڑھ کے سویا کہ میرے نزدیک صحافت محض طبعی میلان (aptitude) کا نام نہیں رویہ (attitude) کا نام ہے، اور سٹوری میں زیادہ سے زیادہ شواہد اور معتبریت (authenticity) بھرنے کی افتاد طبع سے میں نے متعدد بڑے سورس گنوا دیئے جو عرصہ تک مجھ سے ناراض رہے۔ سدا صحافت ہی کی، حتیٰ کہ بے روزگاری میں بھی کوئی اور کام نہیں کیا، لہٰذا میں قدرت اللہ چوہدری ہوں، اور ہر دور میں کچھ نہ کچھ قدرت اللہ چوہدری موجود رہیں گے جو پیشہ ورانہ صحافت کے رول ماڈلز میں شامل ہیں۔
انگریزی اور اردو، دونوں زبانوں پر مکمل دسترس رکھنے، اعلیٰ ادبی وقوف اور عمدہ شعری ذوق رکھنے والے مگر زیادہ عرصہ اردو صحافت میں خدمات انجام دینے والے لاہور کے ان زیرک صحافیوں میں سے اعجاز رضوی بھی چلے گئے، قدرت اللہ چوہدری بھی، منو بھائی بھی، عباس اطہر بھی، عارف امان بھی اور جواد نظیر بھی جنہیں رول ماڈل کہا جا سکتا تھا۔ صرف نصرت جاوید، شاہد ملک اور اسلم ملک دستیاب ہیں، جو حقیقی معنوں میں پڑھے لکھے صحافی ہیں۔ جہاں تک میرے علم میں ہے ماسوائے عباس اطہر اور اسلم ملک کے یہ تمام لوگ جب تک رپورٹنگ میں رہے کمال کے رپورٹر رہے اور جب نیوز ڈیسک پر آئے تو غضب کی سرخی جمانے اور اعلیٰ پائے کا پرچہ تیار کرنے والے صحافی ثابت ہوئے۔ لاہور میں موجود حیات صحافیوں میں البتہ محترم حسین نقی عمر بھر مرحوم نثار عثمانی کی طرح رپورٹنگ تک محدود رہے جس طرح جناب راشد رحمان ایڈیٹنگ تک اور محترم مجیب الرحمن شامی، محمود شام اور حسن نثار جرائد کی صحافت تک۔ اعجاز رضوی اور عباس اطہر تو خود بھی بہت پائے کے شاعر تھے مگر ان کا ’پہلا پیار‘ چونکہ ہمیشہ صحافت رہا اس لیے شاعری کو مساوی توجہ اور وقت نہیں دے پائے۔ بالکل اسی طرح جیسے اردو کے سب ایڈیٹر ہمارے دوست زاہد عباس سید یا بیوروکریسی میں سے اوریا مقبول جان اور شعیب بن عزیز بہت عمدہ شاعر ہونے کے باوجود بطور شاعر کہیں گم ہو کے رہ گئے۔
خبر تجسس سے شروع ہو کر حیرت پہ ختم ہونے والے سفر کا نام ہے۔ رپورٹر کا تجسس اس سے کوئی انہونی واقعہ یا غیر معمولی بات دریافت کرواتا ہے اور نیوز ڈیسک اسے مناسب ٹریٹمنٹ دے کر پڑھنے/ سننے والے کو حیرت سے دوچار کرتا ہے تاہم کوئی سٹوری فائل کرنے والے سے لے کر شائع کرنے والے تک کا کام خبر کے مضمرات کے حوالے سے بہت نازک ہے، اس لیے صحافت کا پہلا بنیادی عنصر ذمہ دارانہ رویہ ہے اور ایک مکمل نیوز مین ہونے کے ناتے قدرت اللہ چوہدری اس کی کلاسیک مثال تھے۔ ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ اخبار کے کسی ایک صفحہ کے انچارج ہوں یا گروپ ایڈیٹر، پورے اخبار کی ہر ’کاپی‘ (صفحہ) کی ایک ایک سطر پڑھنے کے بعد پریس کو بھجوانے کے لیے ’کاپی‘ فائنل کرتے تھے۔ کسی بھی اخبار میں کوئی دوسرا ایسا کردار میرے علم میں نہیں۔ طبیعت میں سادگی ایسی کہ گروپ ایڈیٹر ہوتے ہوئے بھی تمام اہم خبریں خود ایڈٹ کرتے ، خود ان کی سرخیاں نکالتے، یہاں تک کہ انہیں خود اوپر نیوز روم میں دستی لے جا کر شفٹ انچارج کو تھماتے۔ ’ہیلپر‘، پروف ریڈر، سب ایڈیٹر سبھی کردار نبھاتے تھے۔
مردم شناس ایسے کہ کون کس درجے کا رپورٹر یا سب ایڈیٹر ہے، خوب پہچانتے تھے اور ’بڑے‘ خبر نویس کی بہت قدر کرتے تھے اور اپنے جیسے دیانت دار اور شفاف کردار کے حامل صحافی کو بہت عزت دیتے تھے۔ پیشہ ورانہ کردار اتنا مضبوط تھا کہ خبر کسی قیمت پر ہاتھ سے نہ جانے دیتے چاہے کوئی ان کا پسندیدہ شخص ہی کیوں نہ ’رگڑا‘ جائے۔ ادبی ذوق کے حامل، زیرک اور نستعلیق ایسے کہ خبروں ، بالخصوص لیڈ سٹوریز پر ایسی ایسی کلاسیک سرخیاں جمائیں جو مدتوں یاد رہیں گی۔ ایک رات سرگودھا سے ایک پولیس مقابلے کی خبر آئی جس میں پولیس کی بھاری نفری نے شہر کی ایک پرائیویٹ میڈیکل لیبارٹری پر دھاوا بولا اور اندھا دھند فائرنگ کر کے برسوں سے انتہائی مطلوب دہشت گرد ریاض بسرا کو بالآخر ہلاک کر دیا تھا۔ ظاہر ہے اسے اس روز کی لیڈ سٹوری بننا تھا مگر اگلے 24 گھنٹوں میں جب یہ خوفناک انکشاف ہوا کہ ’گور پیا کوئی ہور‘ یعنی پولیس نے محض شکل کی مشابہت پر مبنی غلط فہمی میں کسی بے گناہ باریش جوان کا خون کر دیا ہے تو قدرت اللہ چوہدری نے اگلے روز اسے لیڈ سٹوری بناتے ہوئے شہ سرخی جمائی ’ بلھے شاہ اسی مرنا ناہیں‘۔ جیسے کچھ عرصہ بعد جنرل پرویز مشرف کے حکم پر طویل قید کاٹنے کے بعد عدالتی حکم پر جیل سے مخدوم جاوید ہاشمی کی رہائی پر روزنامہ ’پاکستان‘ میں بینر ہیڈ لائن لگی تھی: ’چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا‘۔