آج عساکر پاکستان کی دفاع وطن کی ذمہ داریاں نبھانے کی زیادہ ضرورت ہے

کورکمانڈرز کانفرنس میں ہر قسم کے خطرات سے عہدہ برأ ہونے کا عزم اور حکومت کی اپوزیشن کو قومی ڈائیلاگ کی پیشکش
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ہم نے ملک کی داخلی سلامتی کی بہتر صورتحال اور استحکام اجتماعی قومی کوششوں‘ مسلح افواج‘ تمام اداروں اور سب سے بڑھ کر قوم کی لازوال قربانیوں کی بدولت حاصل کیا ہے‘ مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے یہ ثمرات ضائع کرنے کی کسی قیمت پر اجازت نہیں دی جائیگی۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق آرمی چیف نے گزشتہ روز کورکمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی ادارے کی حیثیت سے پاک فوج سے جب بھی آئین پاکستان کے تحت دیگر قومی اداروں کیلئے مدد طلب کی گئی تو وہ ہم فراہم کرتے رہیں گے‘ پاکستان کی افواج قوم اور ریاستی اداروں کے تعاون سے مشرقی سرحد اور لائن آف کنٹرول سمیت ملک کو درپیش ہر نوعیت کے خطرہ کا تدارک کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کلیدی قومی امور پر سٹیک ہولڈرز کے مابین جاری ہم آہنگی دشمن قوتوں کو شکست دینے کیلئے ضروری ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت کورکمانڈرز کانفرنس میں شرکاء نے علاقائی سلامتی اور قومی سلامتی کے ماحول کا جائزہ لیا جبکہ اجلاس میں ملک کی داخلی سلامتی‘ مشرقی سرحدوں کی صورتحال‘ کنٹرول لائن اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال زیرغور آئی۔ کورکمانڈرز نے ہر قسم کے خطرات کیخلاف وطن کے دفاع کے بھرپور عزم کا اظہار کیا۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت حکمران پی ٹی آئی اور اسکی اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں گزشتہ روز ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ فوج ایک غیرجابندار ادارہ ہے جو ہمیشہ منتخب حکومت کے ساتھ کھڑا ہوا ہے‘ ہم پارلیمنٹ کو مضبوط بنائیں گے اور کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئینگے۔ قرارداد میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا اور اپوزیشن کے کسی بھی غیرجمہوری اور غیرقانونی اقدام کو مسترد کیا گیا۔ قرارداد میں حکومتی مذاکراتی کمیٹی پر بھی مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ وزیراعظم نے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دینگے‘ ہم راشن پروگرام بھی شروع کررہے ہیں‘ آٹا‘ دال‘ چینی لوگوں کے گھروں تک پہنچائیں گے۔ انکے بقول اپوزیشن ملک میں انتشار چاہتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کے تناظر میں آج ہمیں ملکی اور قومی استحکام کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ملک کسی سیاسی انتشار اور عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بے شک عساکر پاکستان نے سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر کسی خلفشار پر قابو پانے کیلئے بھی اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوتی ہیں جس کیلئے سول انتظامیہ فوج کی معاونت حاصل کرنے کی مجاز ہوتی ہے اور سول انتظامیہ کو حاصل اسی آئینی اختیار کے تحت انتظامیہ کی معاونت کیلئے فوج کی خدمات حاصل کی جاتی رہی ہیں تاہم اسکی نوبت اس وقت ہی آتی ہے جب سول انتظامیہ اپنے ماتحت سکیورٹی اداروں کے ذریعے ملک کے کسی علاقے میں پھیلے انتشار و خلفشار پر قابو پانے میں ناکام ہوجائے۔ ہمیں بہرصورت ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کی ضرورت ہے تاکہ ہماری سلامتی کے درپے ہمارے دشمن بھارت اور ملک کے اندر پھیلائے اسکے ایجنٹوں کو ہماری کسی اندرونی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ملک میں افراتفری کا ایجنڈا پایۂ تکمیل کو پہنچانے کا موقع نہ مل سکے۔ ہمارے دشمن نے آج ملک کی سلامتی کیلئے جو سنگین خطرات پیدا کر دیئے ہیں اور جس جارحانہ طرز عمل کے ساتھ وہ ہمہ وقت آمادۂ جنگ نظر آرہا ہے‘ اسکے پیش نظر عساکر پاکستان میں دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے مکمل یکسوئی کی ضرورت ہے۔ آج دفاع وطن اور سرحدوں کی حفاظت سے متعلق عساکر پاکستان کی ذمہ داریاں دوچند ہو گئی ہیں۔ اگر اس صورتحال میں کسی اندرونی انتشار و خلفشار کی بنیاد پر عساکر پاکستان کی توجہ بٹے گی اور ملک کی اندرونی عدم استحکام کی صورتحال ان سے ملک کے اندر بھی امن و امان کنٹرول کرنے کی متقاضی ہوگی تو ہمارے مکار دشمن کو یقیناً ہماری اس اندرونی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔
ملک کے اندر کسی قسم کا انتشار و اضطراب پیدا نہ ہونے دینا فی الحقیقت سول انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ عوام انتخابات میں کسی سیاسی پارٹی اور اسکی قیادت کو اقتدار کا مینڈیٹ اپنے روزمرہ کے گھمبیر روٹی‘ روزگار‘ غربت مہنگائی کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے ہی دیتے ہیں۔ اگر عوام کی منتخب حکومت اس مینڈیٹ کی صحیح معنوں میں پاسداری نہ کرے اور اسکی سیاسی‘ اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں سے عوام کے مسائل کم ہونے میں مدد ملنے کے بجائے ان مسائل میں مزید اضافہ ہو جائے تو ان مسائل میں گھرے عوام کا مضطرب ہونا بھی فطری امر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ بھی یہی المیہ ہوا ہے کہ اسکی قیادت نے اپنے اپوزیشن کے دور میں اس وقت کے حکمرانوں کے پیدا کردہ غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کے حل کیلئے جو بلند بانگ دعوے اور عوام سے دل خوش کن وعدے کئے‘ اپنے اقتدار میں وہ نہ صرف یہ مسائل حل کرنے میں عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی بلکہ ان مسائل میں بتدریج اضافہ کرکے عوام کو غم و غصہ کے اظہار کی بھی دعوت دی۔
یہی وہ حالات تھے جن سے اپوزیشن کو اپنی حکومت مخالف سیاست کیلئے فائدہ اٹھانے اور ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا موقع ملا۔ پی ٹی آئی کے اقتدار کے پہلے چند ماہ تک تو اپوزیشن جماعتوں کو اپنے قائدین کیخلاف درج مقدمات کو بھگتتے ہوئے ویسے ہی سر اٹھانے کی مہلت نہیں مل سکی‘ تاہم پی ٹی آئی کی قیادت نے ایک جانب تو کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کے تواتر کے ساتھ اعلانات کرکے حزبِ مخالف کے سیاست دانوں کو زچ کیا اور دوسری جانب عوام کو بتدریج مہنگائی کی مار مار کر انکی صفوں میں بھی اضطراب کی کیفیت پیدا کی چنانچہ ان دونوں تلخ فضائوں نے باہم مل کر حکومت مخالف تحریک کی فضا بنا دی جبکہ ملک کی سرحدوں پر دشمن کی پیدا کردہ سنگین صورتحال کے تناظر میں اندرونی عدم استحکام کی عکاسی کرنیوالی ایسی فضا ہموار کرنے سے گریز ضروری تھا۔ اگر حکومت اپنی کسی ٹھوس پالیسی کے تحت عوام کا اضطراب مزید نہ پنپنے دیتی اور انہیں ریلیف دے کر مطمئن کردیتی تو آج اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان اور انکی حلیف دوسری جماعتوں کا دھرنا حکومت کیلئے جس پریشانی کا اہتمام کررہا ہے‘ اسکی کبھی نوبت ہی نہ آتی۔
بے شک مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور دھرنا کی بنیاد پر وزیراعظم کا استعفیٰ لینا اور نئے انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا ممکن نہیں ہوگا مگر انکے اس احتجاجی پروگرام سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا تو بہرصورت ہموار ہورہی ہے جس کا حکومت ہی نہیں‘ موجودہ حالات میں ملک کو بھی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ یقیناً یہی امر ہماری عسکری قیادتوں کیلئے بھی فکرمندی کا باعث بنا ہے کیونکہ ملک میں پیدا شدہ کسی خلفشار کو کنٹرول کرنا بھی عساکر پاکستان کی آئینی ذمہ داری ہے جس کیلئے اسے بہرصورت سول انتظامیہ اور حکومت کی معاونت کرنا ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتے ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے بھی اسی تناظر میں اپنے ٹویٹر پیغام میں باور کرایا تھا کہ بطور ریاستی ادارہ عساکر پاکستان آئینی طور پر منتخب حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں جبکہ ان کا ملک میں کوئی سیاسی کردار نہیں ہے۔ اب گزشتہ روز کورکمانڈرز کانفرنس میں بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسی حوالے سے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا ہے کہ ہم آئین کے تحت قومی اداروں کی مدد کرتے رہیں گے۔ اسکے ساتھ ساتھ عساکر پاکستان دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے بھی پرعزم ہیں اور کنٹرول لائن پر دشمن کے ہر جارحانہ اقدام پر اسکے دانت کھٹے بھی کررہی ہیں۔ انہیں بہرصورت مکمل یکسوئی کے ساتھ دفاع وطن کے تقاضے نبھانے ہیں جس کیلئے ملک کے اندر سیاسی اور اقتصادی استحکام بے حد ضروری ہے۔ اس کیلئے یقیناً ملک کی سول سیاسی اور حکومتی قیادتوں نے ہی بنیادی کردار ادا کرنا ہے جو مفاہمت کے جذبے کو فروغ دینے سے ہی ممکن ہے۔ آج اگر ملک ہماری سکیورٹی فورسز کی انتھک محنت‘ مشاقی اور عظیم قربانیوں سے دہشت گردی کی لعنت سے پاک ہورہا ہے اور دوبارہ امن و امان کا گہوارہ بن کر سیاحت و تجارت کے فروغ کیلئے بیرونی دنیا کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے تو امن و آشتی کی اس فضا کو اب کسی سیاسی انتشار و خلفشار کی ہرگز بھینٹ نہیں چڑھنے دینا چاہیے۔ عساکر پاکستان تو یقیناً اس معاملہ میں اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کریں گی جس کا گزشتہ روز کورکمانڈرز کانفرنس میں بھی ٹھوس عندیہ دیا گیا ہے تاہم ہماری سیاسی حکومتی قیادتوں کو بھی دوراندیشی اور فہم و بصیرت سے کام لے کر کسی سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی نوبت نہیں آنے دینی چاہیے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اپوزیشن کی جارحانہ سیاست کے ردعمل میں حکومت خود بھی جارحانہ طرزعمل اختیار کرنے سے گریز کرے اور معاملہ فہمی سے کام لے کر باہمی ڈائیلاگ کے ذریعے اپوزیشن کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ حکومت نے اس معاملہ میں پیش رفت کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو قومی ڈائیلاگ کی پیشکش کی ہے جس کیلئے سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر کلیدی کردار ادا کررہے ہیں جبکہ حکومتی حلیف مسلم لیگ (ق) کے قائدین چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی بھی حکومتی مذاکراتی ٹیم کا حصہ بن کر اپوزیشن کے ساتھ سلسلۂ جنبانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کے قائدین نے بھی مثبت سوچ کے تحت افہام و تفہیم کی گنجائش نکالنے کا راستہ اپنایا ہے جس کے تحت انہوں نے آزادی مارچ اور اجتماع کے حوالے سے اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی مکمل پاسداری کی اور امن و امان میں کسی قسم کا خلل پیدا نہیں ہونے دیا جبکہ اب اپوزیشن کی جانب سے ڈی چوک اسلام آباد تک جانے سے بھی گریز کی پالیسی اختیار کی گئی ہے جس سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین قومی ڈائیلاگ کی نہ صرف فضا سازگار ہوگی بلکہ قومی ڈائیلاگ کے ملکی سلامتی کے تقاضوں کے حوالے سے مثبت اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ بے شک یہ ملک حکومت اور اپوزیشن سمیت سب کا ہے جس کے دفاع و تحفظ اور استحکام کیلئے ہم سب نے کردار ادا کرنا ہے۔ کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ملک میں کسی اندرونی خلفشار پر قابو پانے کیلئے قومی ادارے عساکر پاکستان کی معاونت حاصل کرنے کی نوبت نہ آئے کیونکہ آج عساکر پاکستان کی جانب سے دفاع وطن کی مکمل یکسوئی کے ساتھ ذمہ داریاں نبھانے کی زیادہ ضرورت ہے۔