بدھ‘ 8 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 6؍ نومبر2019 ء
مریم کی ضمانت پر کارکنوں کا جشن، رہنمائوں نے منع کر دیا ۔
کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ مگر سیاست کرنے والوں کے سر میں دماغ تو ہوتا ہے۔ ہمارے سیاسی کارکن ہی نہیں رہنما بھی نجانے کیوں عقل سے محروم نظر آتے ہیں۔ موقع محل دیکھے بغیر کسی بات پر ڈھول بجا کر ناچ گا کر پیسے لٹا کر مٹھائیاں کھلا کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی بڑا تیر چلا لیا۔ اب مریم نواز کی ضمانت کو ہی لے لیں۔ انہیں عدالت نے اپنے بیمار باپ کی تیمار داری کے لیے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جونہی یہ فیصلہ آیا عدالت کے باہر کھڑے ’’کاکے منے عقل کے انے‘‘ قسم کے مسلم لیگیوں نے ناچنا شروع کر د یا ۔ خوشیاں منانے لگے۔ کئی مقامات پر تو جذباتی رہنما مٹھائیاں بانٹنے لگے۔ حد ہوتی ہے کم عقلی کی۔ اس سے قبل میاں نواز شریف کو عدالت نے بیماری کی وجہ سے علاج کے لیے رہا کرنے کا حکم دیا تو اس وقت بھی یہی نوٹنکی رچائی گئی۔ کسی نے نہیں سوچا کہ ایک بیمار شخص جس کی حالت خاصی تشویشناک ہے‘ کی علاج کیلئے رہائی کے فیصلے پر خوشیاں منانے کا کیا تُک ہے۔ مگر کیا کریں اس ڈھول ڈھمکے والی ذہنیت کا۔ یہ ہر جگہ کام کرتی ہے۔ اب شکر ہے مسلم لیگ کے سنجیدہ حلقوں نے لیڈروں اور ورکروں سے کہا ہے کہ وہ ایسی حرکتیں کرنے کی بجائے احتیاط اور عقل سے کام لیں ۔ خوشیاں منانے کی بجائے میاں صاحب کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کریں۔ اب دیکھنا ہے مریم بی بی ایک سعادت مند بیٹی کی طرح والد کی تیمار داری کرتی ہیں یا سیاسی جلسے جلوسوں میں شرکت پر توجہ دیتی ہیں۔ جس کے لیے ان کے وکیل کی ہلہ شیری سامنے ہے۔ موصوف فرماتے ہیں۔ مریم صاحبہ سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گی۔ اگر ایسا ہے تو پھر ضمانت کس بات پر لی گئی کیا اس کا احساس ہے کسی کو۔
٭٭٭٭٭
پاکستان آکر قتل ہونا نہیں چاہتا ۔ ذوالفقار بھٹو جونیئر
امن پسند ہونا اچھی بات ہے۔ مگر موت سے ڈرنا بزدلی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ قتل کے خوف سے پاکستان نہ آنے کی بات ایک ایسا نوجوان کر رہا ہے جو اس خاندان کا وارث ہے جس کے پاس سیاسی شہیدوں کی ایک بڑی فہرست ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ان کے دادا تھے۔ مرتضیٰ بھٹو ان کے والد ہیں۔ شاہنواز بھٹو ان کے چچا ، بے نظیر بھٹو ان کی پھوپھو ہیں۔ یہ سب ذوالفقار جونیئر کے بھٹو خاندان کے شہید ہیں جو قتل ہوئے۔ مگر ان میں سے کوئی موت کے خوف سے بھاگا نہیں۔ فاطمہ بھٹو جو ذوالفقار جونیئر کی بہن ہیں وہ بھی تو پاکستان میں ہی ہیں۔ اسی طرح انکی والدہ غنویٰ بھی پاکستان میں ہی رہتی ہیں۔ ان کو بھی خطرات ہونگے مگر وہ ڈرتیں نہیں۔ ایسے میں بھٹو خاندان کے وارث کے منہ سے قتل ہونے کا خوف سجتا نہیں۔ گرچہ انہوں نے مثبت معنیٰ میں بات کی کہ ایسے قتل کا کیا فائدہ جس سے عوام کو فائدہ نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستانی سیاسی تاریخ کا گہرا ادراک رکھتے ہیں ۔ کیونکہ یہاں جو لیڈر قتل ہوا اس کا فائدہ اس کے قاتلوں نے ہی اٹھایا۔ ذوالفقار جونیئر نے یہ بات بھی بڑی پتے کی کی ہے کہ پاکستان کی سیاست میں جنہیں قتل و غارت گری کی عادت نہیں ہوتی وہ قتل کر دئیے جاتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے گرچہ تلخ سہی کہ ہماری سیاست اب واقعی مجرموں کے ہاتھ لگتی جا رہی ہے۔ مختلف مافیاز نے اسے گھر کی لونڈی بنا لیا ہے جو جرائم کی سرپرستی کرتے ہیں۔ مگر اسکے باوجود کیا جونیئر بھٹو یہ نہیں جانتے کہ سندھی عوام کی ہی نہیں ملک کے پڑھے لکھے لبرل لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی انہیں سیاست میں دیکھنا چاہتی ہے کیونکہ وہ علم اور فن کے دلدادہ ہیں اور ایک کھلا ذہن رکھتے ہیں۔ جو آرٹ سے محبت کرتا ہو وہ کبھی کٹر شدت پسند نہیں ہوسکتا۔
٭٭٭٭٭
شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات
یہ سعد ستاروں کا اجتماع بتاتا ہے کہ دنیائے سیاست کے آسمان پر اس وقت جو متحارب ستاروں کی کشمکش سے نجس اثرات پھیل رہے ہیں ۔ ان میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔ چودھری برادران ملک کے سنجیدہ اور دھیمے مزاج کے سیاستدان اور رہنما کے طور پر مشہور ہیں۔ انکے پاس طویل سیاسی تجربہ بھی ہے۔ وہ اقتدار میں بھی رہے اور اپوزیشن میں بھی۔ انکے پاس وافر سیاسی تجربہ اور مذاکرات کرنے کرانے کی مہارت بھی ہے۔ ویسے بھی دنیا کا کونسا مسئلہ ہے جو بات چیت سے حل نہ ہو۔ بس ثابت قدمی اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے پاس ہے۔ چودھری برادران نے اب حکومت اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پاٹنے کا عمل شروع کیا ہے اس سے موجودہ صورتحال سے پریشان پاکستانی عوام نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی خانہ جنگی کا فائدہ ہمیشہ آمریت کے حامیوں نے اٹھایا ہے۔ جن کی دلی خواہشیں صرف مارشل لاء کی چھتری تلے پوری ہوتی ہیں۔ اس وقت ملک کی اندرونی اور بیرونی صورتحال کسی ایسی مہم جوئی کیلئے مناسب نہیں۔ اس لیے ہم سب کو احتیاط سے کام لیکر سیاست کے پرخار راستے پر چلنا ہو گا۔ یہ چودھری برادران اور مولانا کی عقل و دانش کا امتحان ہے کہ کسی طرح مسئلہ بھی حل ہو اور کسی کی سبکی بھی نہ ہو۔ دیکھتے ہیں حکومت کے دل میں چبھا یہ احتجاجی کانٹا کس طرح نکلتا ہے۔ چودھری برادران اپنے کام کے ماہر ہیں مگر مولانا نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ وہ اس وقت انوکھا لاڈ لانبے کھیلن کو چاند مانگ رہے ہیں جو ان کی پہنچ سے بہت دور ہے۔
٭٭٭٭٭
شرط جیتنے کیلئے 50 انڈے کھاتے ہوئے نوجوان ہلاک۔
صرف دو ہزار روپے کی شرط جیتنے کیلئے 50 انڈے کھانے والا یہ 42 سالہ شخص حیرت انگیز طور پر 42 واں انڈہ کھاتے ہی چل بسا۔ یہ واقعہ ان لوگوں کیلئے مثال عبرت ہے جو بنا سوچے سمجھے ایسی شرط لگاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہ بیماری ہے کہ کوئی دریا پار کرنے کی کوئی کئی کلو کھانا کھانے کی کوئی پریشر پمپ سے پیٹ میں ہوا بھرنے کی واہیات شرط لگا کر زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے پہلوان بھی موجود ہیں جو کئی درجن انڈے منٹوں میں چٹ کر جاتے ہیں مگر ان کو اس چیز کی پریکٹس ہوتی ہے۔ وہ کسرت کرتے ہیں۔ اب اتر پردیش کے اس 42 سالہ بھارتی کی عقل کیا گھاس چرنے گئی تھی کہ اس نے 50 انڈے کھانے کی شرط مان لی۔ گرچہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا مگر 42 واںانڈہ حلق سے اترتے ہی اس کا دم باہر آ گیا۔ بھارت والے بے چارے انڈے گوشت جیسی نعمتوں کے عادی نہیں وہ تو دال ساگ کھاتے ہیں۔ جد ید خیال ہندو اور سکھ سفید گوشت یعنی مرغی اور مچھلی پر ہاتھ صاف کرتے ہیں مگر اندر سے وہ بھی سبزی خور اور دال خور ہی رہتے ہیں۔ اگر یہی 50 انڈے کھانے کی شرط کسی مسلمان نے قبول کی ہوتی تو وہ ان انڈوں کا آملیٹ بنا کر چار پانچ روٹیوں کے ساتھ بآسانی کھا کر شرط جیت بھی لیتا۔
٭٭٭٭