آزادی مارچ کے ممکنہ اثرات
پاکستان میں احتجاجی سیاست لانگ مارچوں اور دھرنوں کی طویل تاریخ ہے- ترقی یافتہ ممالک امریکہ اور برطانیہ میں بھی ایسی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاتی جن سے کاروبار مملکت اور عوام کی روزمرہ زندگی متاثر ہو سکتی ہو-پاکستان اس سلسلے میں "خوش قسمت" ملک ہے جس میں ہر طرح کی جمہوری آزادیوں اور سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہے-2014 میں ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کا 126 روزہ دھرنا تاریخ کا منفرد باب ہے- تاریخ کا یہ طویل ترین دھرنا اپنے اعلانیہ مقاصد" سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کا قصاص " اور" انتخابات میں دھاندلی کے الزام میں وزیر اعظم کا استعفیٰ" حاصل نہ کر سکا - تحریک لبیک پاکستان کا احتجاج بھی مہم جویانہ ثابت ہوا جس نے ایک ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت کا سیاسی مستقبل ہی برباد کردیا - ان احتجاجوں اور دھرنوں کے بعد سیاسی لیڈروں کا قومی فریضہ تھا کہ وہ آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کیلئے قانون سازی کرتے مگر ہم نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ ہم تاریخ سے کبھی سبق نہیں سیکھیں گے اور اپنے سیاسی و جمہوری نظام میں مثبت تبدیلیاں نہیں لائیں گے - اس تناظر میں مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے ممکنہ اثرات کا تجزیہ دلچسپ موضوع ہے- مولانا پاکستان کے تجربہ کار زیرک اور معتدل سیاستدان ہیں۔ انتہا پسندی کے بجائے آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے سیاست کرتے ہیں- 2018 کے انتخابات میں غیر متوقع شکست کی وجہ سے جمعیت علماء اسلام کو پہلی بار بڑا سیٹ بیک ہوا۔ مولانا نے اپنی جماعت کے حامیوں کو مایوسی سے باہر نکالنے کیلئے سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور پاکستان کے اہم شہروں میں ملین مارچ کیے کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ ملین مارچ آزادی مارچ کو کامیاب بنانے کیلئے ریہرسل کے طور پر کئے جارہے ہیں-
مولانا نے جب اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا تو حکومت نے انکے اعلان کو کوئی اہمیت نہ دی- حکومت کا خیال تھا کہ مولانا چند ہزار افراد اسلام آباد لاسکیں گے جنہیں کنٹرول کرنا حکومت کے لیے مشکل نہیں ہوگا - مولانا نے آزادی مارچ سے پہلے پاک فوج کے سپہ سالار سے ملاقات کی ان کو اندازہ ہوگیا کہ پاک فوج کسی ایسے دھرنے کی حمایت نہیں کریگی جس سے انتشار اور فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہو چنانچہ مولانا نے ملاقات کے بعد اسلام آباد میں صرف سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اسلام آباد انتظامیہ سے آئین اور قانون کے اندر رہنے اور ایچ نائن پلے گراؤنڈ تک محدود رہنے کا تحریری معاہدہ کر لیا - ریاست کے پاس بڑے احتجاج کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ جماعت کے مرکزی لیڈروں اور سرگرم کارکنوں کو گھروں سے گرفتار کر لیا جاتا ہے - وزیراعظم چونکہ خود اسلام آباد میں دھرنا دے چکے تھے اس لیے انھوں نے جمعیت علماء اسلام کو کسی رکاوٹ کے بغیر اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت دے دی‘ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی ان کیلئے سیاسی بلنڈر ثابت ہوئی بقول فراز احمد فراز -:
فراز ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی
کہ رات تھی اندھیری چراغ بھی نہ لیا
مولانا کے آزادی مارچ سے مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہوئے ہیں - پاکستان کے عوام نے جس جماعت کو انتخابی میدان میں شکست دی تھی حکومت نے اسے ناکام سیاسی حکمت عملی سے سیاسی طور پر دوبارہ زندہ کر دیا- مولانا نے امن اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرکے وہ مقاصد حاصل کر لیے ہیں جو وہ طاقت استعمال کرکے حاصل نہیں کر سکتے تھے - وہ ایک بار پھر بڑے اسٹیک ہولڈر بن گئے ہیں اور اپوزیشن کے مرکزی لیڈر بن کر ابھرے ہیں- مولانا کے دھرنے سے وزیراعظم مستعفی نہیں ہوئے مگر ان کی آئینی رٹ کمزور پڑ گئی ہے - اب ان کا مدارس میں اصلاحات کا ایجنڈا مزید تاخیر کا شکار ہو اور اپوزیشن کے احتساب کے سلسلے میں ان کی گرفت کمزور پڑ سکتی ہے۔ مولانا کے آزادی مارچ کے دباؤ سے میاں نواز شریف آصف علی زرداری مریم نواز شریف اور پاکستان کے تاجر پہلے ہی ریلیف حاصل کرچکے ہیں- کرپشن کے مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا ممکن نہیں رہے گا- حکومت کی ناکام سیاسی اور انتظامی پالیسیوں نے پاکستان کا سیاسی منظر نامہ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے- مذہبی جماعتیں دباؤ سے باہر نکل آئی ہیں اور متحدہو کر اسلامی انقلاب کی جانب بھی بڑھ سکتی ہیں- آزادی مارچ کے دھرنے اور انتظامی امور پر غریب اور مقروض قوم کے اربوں روپے خرچ ہوگئے ہیں- پاکستان اس قسم کی سیاسی سرگرمیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا -آزادی مارچ سے مذہبی جماعتوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جبکہ سیاسی جماعتیں نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوئی ہیں- مذہبی جماعتیں متحد ہو جائیں تو اگلے انتخابات میں ان کی پارلیمانی قوت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے- مولانا نے اگر حکومت پر دباؤ جاری رکھا تو ان ہاؤس تبدیلی اور نئے انتخابات کے امکانات پیدا ہو جائینگے- پاک فوج کو محتاط رویہ اختیار کرنا پڑیگا اور اگلے انتخابات میں فوج کی مداخلت ختم ہو جائیگی- ووٹ کو اہمیت دینی پڑیگی اور انتخابات صاف اور شفاف کرانے پڑینگے۔ آزادی مارچ سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچا ہے۔ مولانا فضل الرحمن طویل عرصہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں، وہ آزادی مارچ کے دوران اپنے خطبوں میں گرم جوشی کے ساتھ مظلوم اور قید کشمیریوں کی وکالت نہیں کرسکے- آزادی مارچ کے بعد عالمی سرمایہ کار اس خوف کی وجہ سے سرمایہ کاری سے گریز کرینگے کہ مولانا کی سیاسی سرگرمیوں سے پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے-
سیاسی جماعتیں مولانا کے آزادی مارچ سے سبق سیکھ کر اپنی جماعتوں کو اور سیاسی سرگرمیوں کو پرامن اور منظم بنا سکتی ہیں -اسلام میں فرقہ واریت کی بنا پر اسلام مسلمانوں اور مسلم ریاستوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ قانون سازی کر کے فرقہ کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی تشکیل پر پابندی لگائی جاسکتی ہے - پاکستان نے اگر معاشی استحکام کی منزل حاصل کرنی ہے تو ریاست کو ایسی سیاسی جمہوری سرگرمیوں پر پابندی لگانا پڑیگی جن سے نقص امن کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہو اور عوام کی روز مرہ کی زندگی متاثر ہو سکتی ہو- مولانا نے اپنے خطاب میں عوام کے بنیادی مسائل پر زور دینے کی بجائے مذہبی کارڈ زیادہ استعمال کیا ان کا وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا بیان اشتعال انگیز تھا عوامی جلسوں میں پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنانا قومی سلامتی کے تقاضوں کے منافی ہے۔ سلامتی اور دفاع کے ادارے کے بارے میں عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے- پاک فوج نے کور کمانڈر کانفرنس کے بعد جو بیان جاری کیا وہ واضح اور دو ٹوک ہے اگر سیاست دانوں نے سیاسی فساد پیدا کرنے کی کوشش کی تو گیم مکمل طور پر انکے ہاتھ سے نکل سکتی ہے- مولانا کی تجویز مناسب ہے کہ چیف جسٹس پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ کے بیان کے مطابق ریاستی اداروں کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ ہونا چاہیے - مارچ کے بعد حکومت کو اپنی حکومتی اور سیاسی سٹریٹیجی تبدیل کرنا پڑیگی - عوام کو ریلیف دے کر ہی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر سکتی ہے اور حکومتی جماعت کو فعال اور متحرک بناکر ہی اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مارچ کے دوران جمعیت کے غریب کارکنوں نے قابل ستائش نظم و ضبط اور رویے کا مظاہرہ کیا جو سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں نظر نہیں آتا- پاکستان کے غریب سیاسی کارکن ہمارے خراج تحسین کے مستحق ہیں- افسوس انکی قربانیوں سے ان کا مقدر تو نھیں بدلے گا البتہ اشرافیہ کو مراعات حاصل ہو جائیں گی- کاش غریب عوام کبھی اپنے بنیادی حقوق کیلئے عوامی انقلاب لانے کیلئے آمادہ ہو جائیں -بقول شاعر -:
غربت نے میرے بچوں کو تہذیب سکھا دی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
٭…٭…٭