ہم سی پیک کے خلاف نہیں، اقتصادی راہداری افغانستان کے بھی مفاد میں ہے، عمردرازخیل وال
اسلام آباد (این این آئی)افغان سفیر عمر زاخیل وال نے کہاہے کہ صدر اشرف غنی چین پاکستان راہداری منصوبے (سی پیک)کے مخالف نہیں ہیں اور بھارت میں انہوںنے سی پیک کے حوالے سے جو کہا تھا کہ وہ ایک سوال کے جواب میں تھا ۔صدر اشرف غنی سی پیک کی حمایت کرتے ہیں ٗ پاکستان کے ساتھ راہداری اور تجارت افغانستان کے فائدے میں ہے ۔ان خیالات کا اظہار افغان سفیر نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوںنے کہاکہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو اس لئے شکایت ہے کہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے راہداری اور تجارت کے معاہدے موجود ہیں اس پر مکمل عمل نہیں ہورہاہے ۔افغانستان میں یہ سوچ پیدا ہورہی ہے کہ اگر پہلے سے باضابطہ تحریری معاہدے موجود ہوں اور اس پر عمل نہیں ہورہا ہے تو سی پیک میں افغانستان کو کیا فائدہ ہوگا ؟تاہم انہوںنے کہا کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھاناچاہتا ہے اور افغانستان کے سرحدی اور تجارتی شہر جلال آباد ٗ راہداری تجارت کیلئے خوست اور اسی طرح قندھار میں تجارت کیلئے پاکستان اہم ہے نہ کہ بھارت ۔انہوںنے کہاکہ یکم اکتوبر سے افغانستان کے پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورے کے بعد پیشرفت ہورہی ہے تاہم اس وقت تک کوئی بہت بڑ ی تبدیلی سامنے نہیں آئی ایک ملاقات میں سالوں کی بد اعتمادی ختم نہیں ہوسکتی لیکن ہمیں امید ہے کہ آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں کئی اہم اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ پاکستان میں یہ سوچ پیدا ہوناکہ ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں یہ بھی ایک بڑی تبدیلی ہے ۔پاکستانی فوجی رہنمائوں کیساتھ ان کی ملاقاتوں سے متعلق سوال پر افغان سفیر نے کہاکہ دونوں کے درمیان کھلے انداز میں گفتگو ہوتی ہے اور ایک دوسرے کیساتھ خدشات کا تبادلہ ہوتا ہے ۔پاکستان کو بھی افغانستان سے متعلق بہت سے شکوک ہیں اور ہمیں بھی بہت گلے ہیں لیکن یہ اچھی بات ہے کہ دونوں ممالک ان معاملات پر بات چیت کررہے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ افغانستان چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثرررسوخ ٗ امن مذاکرات اور مثبت چیزوں کیلئے استعمال کرے ۔انہوںنے کہاکہ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان بد اعتمادی اور شکوک کی فضا موجود ہے لیکن دونوں ممالک کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ بد اعتمادی کو ختم کیاجائے ۔افغان سفیر نے کہاکہ افغانستان میں چند مہینوں میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے بعد پاکستان پر ماضی کی طرح الزامات نہیں لگائے گئے جو کہ ایک مثبت پیشرفت ہے ۔اگر پاکستان افغانستان میں جنگ کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھائے تو اعتماد کی فضا مزید بہتر ہوسکتی ہے ۔عمرزاخیل وال نے کہاکہ جنرل قمر باجوہ کے افغانستان کے دورے کے بعد مختلف سطح پر ملاقاتیں اوررابطے ہوئے ہیں اور یہ جاری رہیں گے ۔انہوںنے کہاکہ تقریباً دو ہفتے پہلے جب انہوںنے جنرل باجوہ سے ملاقات کی تھی تو اس دور ان صدر اشرف غنی اور جنرل باجوہ کی تقریباً بیس ٗ پچیس منٹ تک ٹیلیفون پر بات ہوئی تھی ۔اس سوال پر کہ صدر اشرف غنی نے پاکستانی ٹرکوں کی افغانستان میںداخلے پر پابندی کااعلان کیا تھا تو افغان سفیر نے کہا کہ اس وقت بھی پاکستان کے ٹرک افغانستان میں داخل ہورہے ہیں اگر پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تجارت کرنی ہے اورافغانستان کو مرکزی ایشیاء کیلئے تجارت کر نے کیلئے استعمال کر نا ہے تو پاکستان کو بھی افغانستان کو بھارت کے ساتھ تجارت کیلئے راستہ دینا پڑیگا ۔جب افغان سفیر سے پاکستانی مذہبی رہنمائوں سے ان کی ملاقاتوں کے مقاصد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوںنے کہاکہ پاکستانی علماء کا افغانستان کے امن میں رول اہم ہے اوراسی لئے وہ مذہبی رہنمائوں اس سلسلے میں ان کا کر دارادا کر نے کی درخواست کررہے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ مولاناسمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن اور مولانا فضل الرحمن خلیل سے ملاقاتوں میں انہیں محسوس ہوا کہ ان کی سوچ مثبت ہے اور وہ افغانستان میں بھائی کے ہاتھوں بھائی کے خون بہنے کو درست نہیں سمجھتے ۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان باڑ لگانے کے سوال پر عمر زاخیل وال نے کہا کہ افغان حکومت باڑ لگانے کی حامی نہیں ہے کیونکہ ہماری نظر میں اس سے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ دہشتگردی پاکستان کی پالیسیوں میں تبدیلی سے ختم ہوگی ۔انہوںنے کہاکہ پشاور میں فوجی سکول پر حملے کے بعد افغان حکومت نے واقعہ میں کردارادا کر نے والے کئی افراد کو گرفتار کر کے انہیں پاکستان کے والے کیا تھا جس میں کئی کو پھانسی کی سزا بھی دی جا چکی ہے افغان فورسز نے سکول حملے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوئوں کے خلاف ایکشن بھی لیا تھا ۔افغانستان ٹی ٹی پی کی وہاں موجودگی سے متعلق پاکستان کی تشویش پر اتفاق ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان کی پاکستان کی افغان طالبان اور دیگر گروپوں کی موجودگی اور پاکستان کی تشویش پر مذاکرات کئے جائیں تاکہ اس مسئلے کا حل نکالا جاسکے ۔انہوںنے الزام لگایا کہ افغان طالبان کے لوگ پاکستان میں موجود ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ پاکستان اپنی سر زمین ان کو استعمال نہ ہونے دے ۔