امریکی وزیر خارجہ Rex Tillerson گزشتہ دنوں تقریباً ساڑھے 4 گھنٹے کے انتہائی مختصر دورہ پر اسلام آباد آئے جو کسی امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کا پاکستان کے لئے اتنی مختصر مدت کا یہ پہلا ایسا دورہ تھا جس میں چکلالہ بیس پر انکا استقبال وزارت خارجہ کے ایک درمیانے درجے کے افسر اور امریکی ڈیسک کے ڈی جی سجاد بلال نے کیا استقبال میں گرمجوشی گو شامل تھی مگر وہ Grand Protocol دیکھنے کو نہ ملا جو ماضی میں امریکہ سے آئے چھوٹے بڑے وزیر یا امریکی مشیروں کو دیا جاتا رہا ہے؟؟؟ پاکستانی حکام کی جانب سے پوری طرح گرمجوشی نہ دکھائے جانے کی بنیادی وجہ امریکہ کا پاکستان پر طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا وہ الزام ہے جس کی حکومت پاکستان شدت سے تردید کرتی چلی آ رہی ہے تاہم اس بار ٹلرسن نے پاکستان کی خطہ میں اہمیت کا اقرار تو کیا مگر ساتھ ہی صدر ٹرمپ کا وہ پیغام بھی دے دیا جس میں پاکستان کو Do More کرنے پر بدستور زور دیا جا رہا ہے۔
سادہ ترین الفاظ میں امریکی وزیر خارجہ کے اس مختصر دورے کا مفہوم کچھ اس طرح تھا کہ بھارت کے دورہ سے قبل حکومت پاکستان کو وہ یہ پیغام دیتے ہوئے روانہ ہونا چاہتے تھے کہ جب تک پاکستان اپنے علاقہ میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں، دہشتگردوں کے خاتمہ اور جنگجو ذہنیت رکھنے والوں کا مکمل خاتمہ نہیں کر دیتا اس وقت تک امریکہ ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتا رہے گا۔ دہشت گردوںکے خاتمہ کے لئے پاکستان امریکہ اور دیگر ممالک کے ہمراہ مل کر اپنا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ریکس ٹلرسن یہ بھی کہہ گئے کہ افغانستان میں قیام امن، خطہ کی سلامتی اور داعش کو شکست دینے اور انکے خاتمہ کے لئے کوششیںپاکستان اور امریکہ کے مشترکہ مقاصد میں جنہیں پورا کرنے کے لئے ہمیں مل کر مزید منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ بھارت روانگی سے قبل امریکیوزیر خارجہ نے کینیڈین اور امریکی شہری کی بازیابی پر افواج پاکستان کے تعاون اور انکی حکمت عملی پر شکریہ بھی ادا کیا۔ وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے وزیراعظم خاقان عباسی، وزیر خارجہ خواجہ آصف، وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر دفاع، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سے بھی ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم خاقان عباسی نے امریکی وفد کو پاکستانی قوم، افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دہشت گردی کے خلاف دی گئی لازوال قربانیوں سے بھی آگاہ کیا۔ مگر امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے یہ کہتے ہوئے کہ پاکستان خطے میں ایک نہایت اہم ملک ہے۔ اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مذاکرات کا فوکس ڈومور پر ہی رکھا۔ اور بھارت روانگی سے قبل حکومت پاکستان کو 75 افراد پر مشتمل دہشت گردی میں ملوث مطلوبہ افراد کی ایک فہرست بھی دے گئے۔
70 سالہ پاک امریکی تعلقات کا لحاظ رکھتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کو چاہئے تو یہ تھا کہ برابری اور وقار پے مبنی ان تعلقات کا کھلے دل سے وہ اقرار کرتے مگر بھارت پہنچتے ہی انکے مذاکراتی انداز نے گرگٹ کا روپ دھار لیا۔
بھارتی ہم منصب سشما سوراج اور وزیراعظم نریندر مودی سے کئے مذاکرات میں انہیں یہ خوشخبری دے ڈالی کہ بھارت سے امریکہ کا فطری اتحاد ہے اور امریکہ کی اب یہ خواہش ہے کہ بھارت افغانستان میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ اس سلسلہ میں بھارت کی عسکری قوت کو مزید مضبوط بنانے کے لئے امریکہ بھارت کو جدید ٹیکنالوجی بھی فراہم کرے گا۔ حیران کن صورتحال یہ تھی کہ ان مذاکرات میں افغانستان کے صدر اشرف غنی بھی موجود تھے۔ جنکی موجودگی میں بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان کے بارے میں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے بے بنیاد الزامات دہراتے ہوئے ٹلرسن کی مزید ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی۔
امریکی وزیر خارجہ کی یہ اخلاقی ذمہ داری تھی کہ افغانستان کے امور پر بات چیت کرنے سے قبل وہ پاکستان کے LOC پر بھارت کی جانب سے کی جانے والی سلسلہ وار خلاف ورزیوں، بے گناہ شہریوں کو شہید کرنے اور کشمیریوں پر گزشتہ 70 برس سے جاری بھارتی ظلم و بربریت کے خلاف مودی سے بات چیت کرتے۔ مگر افسوس ! ان مذاکرات میں پاکستان پر زیادہ سے زیادہ دبائو ڈالنے اور بھارت کو نئی امریکی پالیسی کے تحت افغانستان میں قائدانہ کردار ادا کرنے پر بھی زور دیا گیا۔
امریکہ کے اس دوغلا پن کا اندازہ تو اس روز ہی ہو گیا تھا جس دن وزیراعظم خاقان عباسی اپنے وفد کے ہمراہ اقوام متحدہ کی اسمبلی میں شرکت کے لئے گئے مگر امریکی صدر ٹرمپ نے ان سے ملاقات تک نہ کی۔ جس سے پاکستانی قوم کے وقار کو دھچکا لگا۔۔۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ اس واقعہ کا شاخسانہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کا Red Carpet اور پاکستانی بینڈز کی دھنوں کے بغیر اس بار استقبال کیا گیا۔
مستقبل قریب میں پاک امریکہ تعلقات کیا رخ اختیار کرنے جا رہے ہیں اب ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ ٹرمپ، ٹلرسن کے علاوہ امریکی سینٹ کی آرٹھ سروس کمیٹی کے گزشتہ ماہ ہونے والے اجلاس میں چیئر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف General Joseph پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی ISI کے دہشت گرد گروپوں سے بدستور رابطے جاری ہیں۔ جبکہ ٹرمپ کی جانب سے Threat کے بعد کہ پاکستان اگر مسلسل دہشتگردوں کا ساتھ دیتا رہا تو اسکے لئے شدید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں پاکستان اور امریکہ کی دوستی کا باب تقریباً بند ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
دسمبر میں امریکی وزیر دفاع بھی پاکستان کے دورہ پر آ رہے ہیں۔ عسکری تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکی وزیر دفاع کے اس دورہ پر بنیادی مقصد بھی پاکستان پر امریکی اور بھارتی دبائو بڑھانا ہوگا۔ یاد رہے کہ امریکہ نے انسداد گردی آپریشنز کے لئے پاکستان کو دیئے ہیلی کاپٹرز بھی واپس لے لئے گئے ہیں۔ جنرل مشرف دور میں مذکورہ ہیلی کاپٹرز Lease پر دیئے گئے تھے۔ F/16 طیاروں کا وہ معاملہ جو مکمل نہ ہو سکا آج بھی لٹکا ہوا ہے۔ امریکی کانگرس ان طیاروں کو خریدنے کے لئے جزوی مالی امداد روکنے کا پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے۔ جبکہ یہ طیارے خریدنے کے لئے پاکستان کو اب 70 کروڑ ڈالر کی رقم اب خود ادا کرنا ہوگی۔ دہشت گردی کے حوالہ سے پاکستان کو دبائو میں لانے کے لئے مزید بہت کچھ کیا جانے والا ہے۔ جو اب ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ ملکی، قومی اور دفاعی استحکام کے لئے سیاسی منافقت اور احساس کمتری کو ہمیشہ کے لئے دفن کرتے ہوئے ہمیں قیام پاکستان کے مقاصد کی جانب لوٹنا ہوگا۔