ایف بی آر
احمد جمال نظامی
فیصل آباد میں ہفتہ رفتہ کے دوران انجمن تاجران سٹی کے زیر اہتمام ریگو لیٹری ڈیوٹی اور ودہولڈنگ ٹیکس کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں وزیر خزانہ اسحق ڈار کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ اس احتجاج کے دوران حکومت کو باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ پالیسی ساز ارباب اختیارحکومت کے ساتھ مخلص نہیںان حالات میں جبکہ عام انتخابات میںچند ماہ باقی ہیں اور ملکی سیاسی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہر طبقہ میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے ۔ ان پالیسی سازوں نے زمینی حقائق کے برعکس 25 ارب روپے کے ریونیو کے حصول کےلئےمنی بجٹ پیش میں راتوں رات ریگو لٹری ڈیوٹی کا نفاذکرکے عو ام اور حکومت کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کر دی ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ خسارہ کم کرنے کےلئے ٹیکسوں میں اضافہ کی بجائے وزراءمشیروں اور سرکاری خرچ میںکمی لانی چاہیئے تھی۔ جبکہ دوسری طرف ملک بھر کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی قومی معیشت کو درپیش مسائل کے حوالے سے کانفرنس فیصل آباد میں منعقد ہونے جا رہی ہے۔ اس کی نوید فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شبیر حسین چاولہ نے سناتے ہوئے کہا کہ اکنامک ایمرجنسی کے حوالے سے آئندہ ماہ فیصل آباد میں ملک بھر کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدور کی مشترکہ کانفرنس میں قومی معیشت کو درپیش مسائل کے حل کے لئے جامع حکمت عملی طے کی جائے گی۔ اس وقت شعبہ ٹیکسٹائل جو مسلسل بحران کی زد میں چلا آ رہا تھا۔ سیلزٹیکس ریفنڈ کلیمز کی ادائیگی اور برآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کی صورت میں کسی حد تک بہتری سامنے آئی ہے لیکن بحیثیت مجموعی شعبہ ٹیکسٹائل فی الوقت بحران کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ صرف تجارتی خسارہ اور زرمبادلہ کے ذخائر کی گزشتہ ہفتوں تک گرتی ہوئی شرح نہیں ہے بلکہ توانائی ذرائع کی قیمتیں بھی جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر رہی ہیں جس کے باعث مسائل بڑھ رہے ہیں۔ جب بھی کسی شعبے کی صنعت متاثر ہو اور بحران کی زد میں آئے تو تاجروں کی طرف سے تشویش کا شکار ہو کر احتجاج ضرور سامنے آیا کرتا ہے۔ فیصل آباد ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حوالے سے پاکستان کا مانچسٹر ہے اور ان دنوں کیونکہ شعبہ ٹیکسٹائل بحران کی زد میں ہے لہٰذا ٹیکس کولیکشن اور ٹیکس نیٹ ورک میں زیادہ سے زیادہ کاروباری حضرات کو شامل کرنے کیلئے ایف بی آر کے اقدامات کی مخالفت جاری ہے۔ ایف بی آر کی مختلف ٹیمیں اس مقصد کے تحت ایسی دکانوں کا بھی رخ کر رہی ہیں جو شہر کے اہم تجارتی مراکز میں شمار ہوتی ہیں ۔
اس وقت جب ہمارے غیرملکی قرضہ جات میں مزید کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر پاکستانی سوا لاکھ روپے بیرونی قرضے کا مقروض ہے۔ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ ٹیکس نیٹ ورک میں ہر حال میں اضافہ سامنے لایا جائے۔مگر ہماری تاجر تنظیموں کا یہ المیہ ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ ورک میں کبھی بھی شامل ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتیں۔ مارکیٹوں میں ہول سیل اور ریٹیل کے لاکھوں روپے کے روزانہ کاروبار کے باوجود تاجر حضرات ٹیکس دینے کے لئے تیار نہیں اور جب بھی ایف بی آر اس ضمن میں کوئی اقدام اٹھاتا ہے تو نوبت ہڑتال پر آ جاتی ہے۔ جیساکہ اس مرتبہ بھی یہی ہوا مگر حکومتی حمایت اور مخالفت میں بہت سارے تاجر ایک دوسرے کے مخالف بھی ہوئے اور انجمن تاجران فیصل آباد کی طرف سے احتجاج کے طور پر ریلوے ٹریک کو روکتے ہوئے اس انداز میں احتجاج کی دھمکی دی گئی تھی وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ بہرحال یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ وطن عزیز میں کسی بھی قدرتی آفت یا مشکل کی گھڑی میں یہی تاجر حضرات بڑھ چڑھ کر خیراتی کاموں میں حصہ لیتے ہیں اور حکومت کے دست و بازو کا کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تاجر طبقہ اپنے وزیروں مشیروں سے شاہانہ زندگی پر قابو پانے اور حکومتی اخراجات کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اس کا سارا بوجھ عوام تک منتقل نہ ہو۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہر پاکستانی شہری چاہے وہ ایک دیہاڑی دار مزدور ہے یا کسی بڑی دکان کا ایسا تاجر ہے جو ٹیکس نیٹ ورک میں شامل نہیں،وہ گھریلو اشیاءخوردونوش سے لے کر ہر چیز کی خریداری پر حکومت کو بالواسطہ طور پر بھاری بھر کم ٹیکسز ادا کر رہا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کا اسے کچھ متبادل فراہم نہیں کیا جا رہا۔ بین الاقوامی سطح پر ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس کولیکشن کی سالانہ ساری رپورٹ حکومت ایک بیلنس شیٹ کی صورت میں ٹیکس صارفین کو ارسال کرتی ہے مگر ہمارے ہاں ایسا کوئی کلچر نہیں البتہ ٹیکس کے دونوں اداروں میں اس حد تک کرپشن سرائیت کر چکی ہے کہ کوئی بھی کاروباری شخص بغیر کسی مجبوری کے ٹیکس نیٹ ورک میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ ایک طرف حکومت نے سیلزٹیکس کو فلیٹ شرح کے تحت مقرر کر رکھا ہے اور یہ سیلزٹیکس وطن عزیز میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے اپنی 90ءکی دہائی کی حکومت کے دوران عائد کیا تھا۔ لیکن دوسری طرف انکم ٹیکس کا ایک ایسا بے ڈھنگا نظام موجود ہے جس کے تحت جسے مرضی اور جیسے مرضی شکنجے میں لے کر رشوت کا بازار سرگرم کیا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں تاجر تنظیموں کی طرف سے ودہولڈنگ ٹیکس پر احتجاج ان کی اپنی خامی کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ماضی قریب میں بینک اکا¶نٹس کو آن لائن کرنے کے ساتھ ایف بی آر کو اس کا سارا ڈیٹا فراہم کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ ایف بی آر کسی بھی شخص کے بینک اکا¶نٹ کو چیک کر سکتا ہے۔ گویا ا س ساری صورت حال کے باوجود 0.2فیصد ودہولڈنگ ٹیکس جس کی ابتداءپرویزمشرف کے دور میں امپورٹڈ وزیراعظم شوکت عزیز نے کی تھی اس کو موجودہ حکومت کے دور میں 0.1 سے بڑھا کر 0.2 کر دیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف پٹرولیم مصنوعات سے لے کر بجلی، گیس کے بلوں تک میں ٹیکس کے نام پر بھاری سرچارج عائد کئے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں نیپرا کی منظوری کے بعد این ٹی ڈی سی کی غفلت اور عدم توجہی پر پردہ ڈالتے ہوئے کئی ارب کا بوجھ مختلف بجلی صارفین پر ڈالنے کی منظوری دی گئی ہے۔ لہٰذا ان حالات میں جبکہ شعبہ ٹیکسٹائل بحران میں ہے اور تاجر احتجاج کر رہے ہیں، حکومت اگر اکنامک ایمرجنسی کا لفظ پسند نہیں بھی کرتی تو بھی اس قسم کے اقدامات اٹھانا وقت کا تقاضا بن چکا ہے۔حکومت اگر ٹیکس کولیکشن نیٹ ورک کو بڑھانا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہو گا کہ حکومتی پالیسیز ایسی ہوں کہ عوام کو محسوس ہو، ان کے ٹیکس کا پیسہ ان پر لگ رہا ہے اور سب سے بڑھ کر ٹیکس ریفارمز کو چند خاندانوں کے مفادات کی بجائے عملی طور پر کثیر آبادی کیلئے تیار کیا جائے۔ اسی طرح ایف بی آر میں کرپشن کو ختم کر کے ایسی سکیمز کا اجراءکیا جائے جس کے تحت ٹیکس کولیکشن میں بھی اضافہ ہو اور ٹیکس نیٹ بھی بڑھ جائے۔