جمہوریت یا ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلسل
ہم بھی کتنی بھلکڑ قوم ہیں کہ تاریخ ہندوپاک اور تاریخ انگلستان پڑھنے پڑھانے اور سننے سنانے کے با وجود بھول جاتے ہیں کہ ہم آج بھی اسی ایسٹ انڈیا کمپنی کی رعایا ہیں جوانٹارکٹیکا۔ شمالی جنوبی امریکہ۔ افریقہ۔ جنوب مشرقی ممالک یا آسٹریلیا سے نہیں بلکہ موجودہ حکمرانوں کے آقائوں کے ملک برطانیہ سے آئی ہے۔جسکا دارالحکومت آج بھی لندن ہے۔ہمارے حکمران آج بھی تاج برطانیہ کے وائسرائے اور نمائندے بن کر ہم رعایا سے اپنے لئے خراج وصول کرنے آتے ہیں۔ انکا اصل گھر تو آج بھی لندن ہے۔اور یہ خراج تو انکی ذاتی ملکیت ہے۔ جسے وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔وہ یس مال سے دبئی۔لندن یا دنیا کسی جگہ فلیٹ یا محل خریدیں ۔ پلازے تعمیر کریں آ ف شور کمپنیاں بنائیں۔ اس سارے لوٹ کے مال کے خود مالک ہیں یا انکے بچے۔ کسی دوسرے کو اس معاملے میں ان سن پوچھ گچھ کرنے کی سازش نہیں کرنے چاہیے۔
یہ ظلم اند جبر کا سسٹم انہوںنے 70سالوں سے ہم پر نافذ کر رکھا ہے جس میں فوجی عملداریوں کی وجہ سے تین چار بارتعطل بھی آیا جس کا ذکر کرتے ہوئے آج بھی ان کی آنکھو ںسے آنسوئوں کی بجائے خون ٹپکتا ہے۔اس سسٹم میں نام نہاد مذہبی اور سیاسی پارٹیاں بڑے خلوص اور یگانگت کے ساتھ شامل ہیںکیوں کہ ہر پارٹی کو اس کے مینڈیٹ کی نمائندگی کے حساب سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ملتا ہے۔اسلئے جب بھی اس سسٹم کے گرنے کا کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تمام پارٹیاں کندھے سے کندھا ملا کر اسے بچانے کے لئے یک جان ہو جاتی ہیں۔اس حوالے سے ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے’’میثاق جمہوریت‘‘ کے نام پردر اصل ’ ’میثاق حکومت‘‘ کر رکھا ہے۔جسے عام زبان میں ’’حکومتی وارہ بندی‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔اور پچھلی کئی دہائیوں سے یہ وارہ بندی نہایت خلوص اور دیانت داری سے نبھائی جا رہی ہے۔جب ایک پارٹی حزب اقتدار ہوتی تو دوسری پارٹی حزب اختلاف ہوتی ہے جو حزب اقتدار پارٹی کی لوٹ مار پر پُراسرار خاموشی اختیار کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے یا کسی پریس کانفرنس کے دوران کارکنوں کا لہو گرمانے کے لئے فرینڈلی فائرنگ کا مظاہرہ کرکے میثاق حکومت کو مضبوط سے مضبوط تر کرتی رہتی ہے۔ جسکے بعد پارلیمنٹ ہائوس کے کیفیٹیریا میںدونوں پارٹیوں کے مقتدرین اس پر قہقہے لگاتے ہیں۔
موجودہ حالات کسی زلزلے یا سونامی کی طرح دفعتًا نمودار نہیں ہوئے بلکہ پچھلی کئی دہائیوں سے ’’چانکیہ اور میکیاولی ڈاکٹرین‘‘ کی روشنی میں مختلف تھنک ٹینکس کی محنت شاقہ کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔جن سے موجودہ حکمران کما حقہ استفادہ کر رہے ہیں۔
اپنے دوست اور ملک دشمن ممالک کوفائدہ پہنچانے کے لئے انڈسٹریل انفرا سٹرکچر کوبھاری ٹیکسوں اور لوڈ شیڈنگ کے ذریعے تباہ کر دیا گیا ہے۔جسکے نتیجہ میں ملکی برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کے باعث تجارتی خسارہ آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔فرضی اعداد و شمار کے ذریعے’’ببل اکانومی‘‘ وجود میں لائی جارہی ہے۔اندرونی اور بیرونی قرضے تیز رفتاری سے لئے جارے ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے نئے قرضے لئے جارہے ہیں۔
تعلیمی نظام کو مکمل طور پر برباد کیا جا رہا ہے۔اساتذہ کو غیر تعلیمی سر گرمیوں میں ملوث کر دیا گیا ہے۔ سکولوں میں نئے داخلوں کے لئے اساتذہ کو دیہاتوں میں جا کر بچوں کی فراہمی کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۔ سکولوں میں کئے قسم کے مانیٹرنگ نظام رائج کر دیے گئے ہیںجن سے بچوں کا تعلیمی حرج ہو رہا ہے۔ تعلیم کو سیکولر بنانے کے لئے غیرملکی فنڈز وصول کئے جارہے ہیں۔ تا کہ آنے والی نسلوں کو اسلامی اور پاکستانی تاریخ سے بے بہرہ رکھا جا سکے۔اعلی تعلیم محنتی ترین طالبعلموں کے لیے ناممکن ہو گئی ہے۔نام نہاد انٹری ٹسٹ کے نام پرانوکھا ڈرامہ کیا جا رہا ہے۔ جن کے پیپر امتحان سے پہلے ہی لیک ہو جاتے ہیں۔
صحت کے شعبے ،میں بھی زبوں حالی کا راج ہے۔حکمرانوں کو چھینک بھی آ جائے تو انکا علاج یو رپ سے کرایا جاتا ہے۔ عام آدمی کوتو ہسپتالوں میںکوئی پوچھتا تک نہیں۔ ان کی زچگیاں تک رکشوں۔ سڑکوں۔ فٹ پاتھوں اور ہسپتالوں کے برآمدوں اور کھلے میدانوں میں ہوتی ہیں۔
بے روزگاری زوروں پر ہے۔نوکریوں کے ٹوکرے وزیروں۔مشیروں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران جیسے مفلوک الحال اور نادار لوگوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں جو انہیں منہ مانگی قیمت پر فروخت کر کے اپنی گذر اوقات کرتے ہیں۔ملازمتوں کے اشتہارات دیے جاتے ہیںاوردخواست گزاروں سے فرموں کے نام پر لاکھوں روپے وصول کئے جاتے ہیں ۔ٹسٹ اور انٹرویو بھی باقاعدگی سے ہوتے لیکن میرٹ اوپر سے آتا ہے اور ملازمت صف ان امیدواروں کو ملتی جو اس کی قیمت ادا کر چکے ہوتے ہیں۔باقی سب ڈگریاں ہاتھ میں تھامے سڑکوں پر جوتیاں چٹخارتے پھرتے ہوتے ہیں۔
قدیم ہندوستان میں بھی اعزازات۔ مالی۔ سیاسی۔ سماجی اور ثقافتی رتبے صرف ان لوگوں کوملتے تھے جو انگریز بہادر کی ’’گڈ بکس‘‘ میں ہوتے تھے۔ جمہوریت کے نام پر آج بھی اسی ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کا نظام نہیں چل رہا تو اور کیا ہے ؟