طاقتور انسان قسط نمبر :1
وعدے عہدو پیمان اور ایسا جھوٹ جو سچ کو بھی جھوٹ بنا دے‘ اپنے آپ کو دنیا کا بڑا حاکم بنا دینا لیکن عمل صفر‘ بڑھتے دور میں یہ سب بڑھ رہا ہے‘ کمی کی امید نظرنہیں آتی‘ یہ ضرور ہے اگر کوئی طاقتور انسان کھڑا ہوجائے تو ہاتھ جوڑ کر معافی تلافی میں شروع، جو کچھ غلط ہوا دوسرے کے کہنے پرہوا میں توویسے بہت نیک شریف النفس ہوں‘ کیا کروں نوکری کامسئلہ ہے جو کچھ کیا نوکری قائم رکھنے کی بڑی مجبوری‘ میں نے ہزارکمائے تو انہوں نے دس ہزار کمائے ہوںگے۔ میں نے دیکھا یہ کمارہے ہیں ا ورمجھ سے کہتے ہیں فلاں شخص سے رقم لے آﺅ‘ جا کررقم لی اور اسی طرح دے دی ذرا بھی نہیں سوچا اتنی بڑی رقم یہ بندہ لایا کل کوئی بات ہوگی تو اس کا نام آئے گا اس کو بھی کچھ دے ڈالیں‘ ایک روپیہ نہیں دیا سوائے شاباش اورکہا تیرا ا سکول کا کام ہو بتا دیا کر ہوجائے گا تو بھی چار پیسے کما لیا کر لیکن اس میں میرا حصہ ہوگا‘اپنی رقم میں کوئی حصہ نہیں اور میری چارپیسے کی رقم میں نصف سے زیادہ حصہ انکا، اسکو بھی مجبوری سمجھا بال بچے خوشحال ہیں‘ کھانے کواچھا‘ رہنے کواچھا‘ لوگوں میں بھی رعب دب دبہ ہے ‘ کل کیا ہوگا‘ کس کو معلوم ،جو ہوگا دیکھا جائے گا۔یہ کام کرتے ہوئے اب دل اتنامضبوط ہوگیا ہے پہلے چھپ چھپا کے لیتے تھے‘ اب تو سر راہ پکڑ کر جیب میں ڈال لیتے ہیں‘ کس کا ڈر سب یہی کررہے ہیں۔ میرے نہ لینے سے کیا ہوگا‘ دوسرا لے گا۔ میں اس جگہ نیا تعینات ہوا تھا ایک ٹیڑھا کام آیا میںنے صاف جواب دیا یہ کام غلط ہے‘ بالکل ٹیڑھا ہے‘ میرے بس کا نہیں‘ میں نہیں کرسکتا۔ اس نے مجھ سے بہت عاجزی گزارش کی لیکن میں نے اسکا کام نہیں کیا۔
چھ ماہ بعدوہ شخص ملا سلام دعاہوئی کہنے لگا میں آپ کی ایمانداری کا قائل ہوں‘ آپ قابل ستائش ہیں‘ لیکن ایک بات آپ سے کہوں گا وہی ٹیڑھا کام جورقم آپ کو دے رہا تھا اس سے کم میں ایک دلال نے کردیا۔ ویسے مجھے افسوس بھی ہوا اگر وہ کام آپ کرلیتے تو فائدہ آپ کو ملتا لیکن ایمانداری دیانتداری آپ کی اپنی جگہ‘اب ماحول ایسا بن گیا ہے کہ بغیررقم خرچ کئے کام نہیں ہوتا۔ آپ نئے ہیں دو تین سال گزر جائیں گے تو سمجھ لیں گے یہ کہہ کروہ چلا گیا۔ میں اس کی باتیں سوچتارہا اور دفتر کے ماحول کو دیکھتا رہا اس شخص نے جو کہا وہ سچ تھا‘ دفتر کا ایک چپڑاسی بھی کسی کوخالی نہیں چھوڑتا‘ حتیٰ کہ ڈسپیجرجو درخواست جمع کرتاہے اس کو چائے پانی نہ دیںوہ ٹال مٹول کرے گا‘ اس میں یہ لکھیں اتنا چھوٹا کاغذ ہے‘ آفیسر کے ریمارکس کی جگہ نہیں ہے‘ بار باربہانے بازی اگر کچھ دے دیا تو کچھ بھی نہیں‘ دوسری کوئی بات نہیں اس ہاتھ لی اس ہاتھ وصولی کی مہر لگا کر پرچی دی‘ اس شخص کی باتیں سوچتا اوردفتر کا ماحول دیکھتا‘ یہ بھی احساس ہوا کہ کوئی بڑا افسر اپنے پاس نہیں رکھتا‘ مجھ کو صرف فائلوں کی انٹری پررکھا گیا ہے‘ جب ساراکام نمٹ جاتا ہے اور فائل کو انٹر کرکے ریکارڈ روم میںبھیجتے ہیںیہ کام میرے ذمہ لگا رہا‘ میرے ساتھ چپڑاسیوں کے بھی نخرے تھے کوئی فائل بجائے لے جانے کے صاف جواب دیتے صاحب آپ سے کیا فیض آپ خود فائل لے جائیں اورریکارڈروم میں جمع کرادیں۔ ایک مولانا نمازی نیک چپڑاسی تھے‘ میرے دل میںخیال آیا ان سے بات کریں۔ یہ سب اس قدرگند ہے ختم نہیں ہوسکتا‘ ایماندار نمازی آدمی ہے‘ داڑھی بھی رکھی ہے‘ یہ دوسرے سیکشن میں کام کرتے تھے۔ ایک دن لنچ کے وقت دوپہر کو میں نے ان کو پکڑا جانتے بہت اچھی طرح تھے‘ میں نے کہا آپ سے میں نے آج کچھ باتیں کرنی ہیں‘ بولے صاحب جی....!! ”آپ افسر میں ایک چپڑاسی یہ کیا کہہ رہے ہیں“۔ میں نے کہا ”میں صحیح کہہ رہا ہوں‘ ہم دونوں کہیں بیٹھ کربات کرلیتے ہیں‘ باﺅنڈری کے باہرایک بنچ پڑی تھی‘ ہم دونوں وہاں بیٹھ گئے۔ لنچ کا وقت ایک گھنٹہ ہوتا ہے اس میں مولاناصاحب کو نمازبھی پڑھنا ہوتی ہے اس لئے جلد بات مکمل کرنالازمی تھی۔ میں نے جیسے بات شروع کی مولانابولے میاں صاحب جی....! میں سمجھ گیا بڑی لمبی بات ہوگی‘ دفترکی چھٹی کے بعد آپ کے ساتھ کہیں بھی بیٹھ کربات کرلیں گے‘ آپ فکر نہ کریں‘ ابھی مجھے نمازبھی پڑھنی ہے اور لنچ بھی کرناہے۔ میںنے کہا بہتر آج شام کوساتھ ہولیں گے۔ آپ موٹر سائیکل پارکنگ پر آجائیں گے وہاں سے نکل لیں گے۔ (جاری ہے )