امریکی صدارتی انتخابات۔۔ووٹرز کا امتحان
جس وقت یہ سطور آپ پڑھ رہے ہونگے۔۔امریکا میں صدارتی مہم اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہوگی۔اب تک قانون کے مطابق کچھ ریاستوں میں 3 کروڑ سے زائد وٹرز نے پہلے ووٹنگ کے تحت اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔ ابتدائی سروے کے مطابق الیکشن سے قبل ووٹ دینے والوں میں زیادہ تر لوگوں کی تعداد ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ ظاہر ہے اس کی وجہ سے ہلیری کلنٹن کو برتری حاصل ہے۔ریپبلکن پارٹی کے ووٹرز تاریخی طور پر الیکشن کے دن ووٹ ڈالتے ہیںاس مرتبہ امریکی الیکشن میں جو نئی بات ہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ریپبلکن پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑنا ہے ،وہ اس لیئے کہ ان کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے ہی نہیں ،اسی لیئے ایری زونا کے سینیٹر جون میکین ،یا گزشتہ صدارتی الیکشن کے ریپبلکن امیدوار میٹ رومی نے کھلم کھلا ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ہماری صفوں میں گھس بیٹھیا ہے۔
کوئی کچھ بھی کہے ہلیری کلنٹن کے ای میلز پر ایف بی اآئی نے کانگریس کو جو خط لکھا ہے اس کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل، ہلیری کی برتری کم کر رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آخری دو ہفتوں میں ٹرمپ کا لہجہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح ڈھل گیا ہے ،جبکہ ابتدا میں امریکی عوام ڈونلڈ ٹرمپ کو غیر سنجیدہ شخص سمجھ رہے تھے۔ فوکس نیوز کے حالیہ سروے کے مطابق ،ہلیری کلنٹن اب صرف ڈونلڈ ٹرمپ سے صرف 2 پوائنٹس آگے ہے ،جبکہ ایک ماہ قبل ہلیری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر 10 پوائنٹس کی برتری حاصل تھی۔تاہم سی این این کے سروے کے مطابق ہلیری اب بھی ٹرمپ پر 5 فیصد کی برتری لیئے ہوئے ہیں۔50ریاستوں میں کچھ روایتی طور پر ریپبلکن یا ڈیموکریٹس کے حامی ہیں۔ ہر الیکشن کی طرح اس الیکشن میں بھی کچھ ریاستیں ایسی ہیں جو سوئنگ اسٹیٹس کہلاتی ہیں اور اصل نتیجہ انہی اسٹیٹس کے فیصلے پر ہوگا۔ اس وقت ان اسٹیٹس کی تعداد 13 ہے اور تجزیہ نگاروں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر بنے کیلیئے 4 سوئنگ اسٹیٹس میں کامیابی انتہائی ضروری ہے۔
ماضی کے مقابلے موجودہ الیکشن میں جہاں خاتون صدرارتی امیدوار کا الیکشن کی دوڑ میں حصہ لینا دلچسپی کا پہلو رکھتا ہے ،وہیں دنیا کے وہ ممالک جو اندرونی بیچینی ، بدامنی ، اور دہشت گردی کے خلاف مصروف عمل ہیں اس الیکشن کے نتائج پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ امریکی صدر بنے والا شخص دنیا کا طاقتور انسان ہوتا ہے ،جس کے فیصلے دنیا کے مختلف خطوں اور ملکوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس الیکشن مہم میں امریکی پالیسی سے جڑے ہوئے وہ معاملات جو امریکی عوام اور دنیا کے دوسرے ممالک کیلیئے خاص دلچسپی کا محور ہیں ،ان میں دونوں صدارتی امیدور کیا سوچ رکھتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیلیئے بھی اپنی واضح پالیسی کا اعلان کیا ہے ۔دوسری طرف ہلیری کلنٹن 10 ملین نئی جابز کے مواقع فراہم کرنے کی پالسی اپنائے ہوئے ہیں غیرقانونی تارکین وطن پر ڈونلڈ ٹرمپ نے سخت پالیسی کا اعلان کیا ہے
ہلیری ،باراک اوبامہ کی پالیسیوں کو ہی آگے بڑھانے پر یقین رکھتی ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کے حوالے سے سیاسی اصطلاحات کو بہتر بنانا چاہتی ہیں۔ اسقاط حمل کے قانون میں ہلیری نرمی کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ اس کے مخالف ہیں اس کے علاوہ امریکہ میں پائی جانے والی لاءاینڈ آرڈر کی بگڑتی صورت حال ،اسلحہ رکھنے کا قانون ، ہیلتھ کیر ،ایڈوائزر پر پابندی ، پر دونوں صدارتی امیدوار ایک دوسرے سے الگ سوچ رکھتے ہیں۔ امریکا کو اس وقت معاشی استحکام اور دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسیوں کو بہتر کرنا ہے۔ ایک عام امریکی کیلیئے یہ بہت اہم ہے کیونکہ معیشت میں بہتری ہی امریکی عوام کی زندگی میں مزید ترقی لا سکتی ہے۔ دہشت گردی اور اندرونی بدامنی پر قابو پانا بھی امریکا کے استحکام کیلیئے ضروری ہے۔امریکی عوام کے نذدیک دنیا کے کسی بھی خطے سے زیادہ اپنے ملک میں امن و امان کو بہترکرناان کی تر جیحات میں شامل ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ غیر روایتی صدارتی امیدوار ہونے کے باوجود امریکی عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب اس لیئے ہوئے کہ انہوں نے عراق اور افغانستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں امریکی جنگی عزائم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ان کی ترجیحات میں امریکا کو ایک عظیم ملک بنانا ، دہشت گردی کا خاتمہ ، امریکا میں پائے جانے والی اندرونی خامیوں جس میں تارکین وطن سے متعلق قانون ، بے روزگاری ، اور ٹیکس کے نظام میں بہتری لانا جیسے چیلنجز شامل ہیں۔ ہلیری ڈیموکریٹک امیدوار ہیں او بارک ابامہ کی بیشتر پالیسوں کو اگے بڑھاتے ہوئے بہتری لانا چاہتی ہیں ۔8 نومبر کے امریکی انتخابات کے بعد بنے والا امریکی صدر اپنی عوام اور دنیا کے توقعات پر کتنا پورا اترے گا یہ توآنے والا وقت ہی بہتر بتاسکے گا کیونکہ انے والے دنوں میں امریکا کو اندرونی اور بیرونی معاملات پر بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے۔