صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں رواں ہفتے منگل سے شروع ہونے والا "اسموگ" یا "آلودہ دھند" کا سلسلہ مسلسل جاری ہے جس کے باعث مختلف حادثات میں درجنوں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔گزشتہ پانچ روز سے جاری شدید دھند کے باعث جہاں لاہور سمیت صوبے کے بیشتر علاقوں میں نظامِ زندگی بْری طرح سے متاثر ہوا، وہیں شہریوں کو بھی سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بہت سے لوگ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔محکمہ موسمیات نے پنجاب کے میدانی علاقوں میں چھائی دھند کی وجہ ہوا کے دباؤ میں کمی اور فضائی آدلودگی کو قرار دیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ چند روز تک اسی طرح جاری رہے گا۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اس وقت لاہور اور پنجاب میں ایسا کوئی ایئر ٹیسٹنگ سسٹم موجود نہیں جس سے پتہ لگایا جاسکے کہ موسم میں ہونے والی اس غیر معمولی تبدیلی کی وجہ کیا ہے لیکن کچھ ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں جن کے مطابق اس موسمیاتی کیفیت کی وجہ لاہور میں ہونے والے تعمیراتی کام اور صنعتوں سے نکلنے والا دھواں ہے جس کے باعث یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔نیویارک ٹائمز میں شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں کسانوں کی جانب سے چاولوں کی کٹائی کے بعد کھیت میں بچنے والے تنکوں کو جلانا بھی پاکستانی صوبے پنجاب میں اسموگ کی ایک بڑی وجہ ہو سکتا ہے۔بھارت میں ایک اندازے کے مطابق32ملین ٹن تنکوں کو نذر آتش کیا جاتا ہے جو کہ لاہور میں اسموگ کی ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔اس سوال پر کہ فصلوں کو جلانے کا عمل تو ہر سال ہی ہوتا ہے تو پھر اس مرتبہ یہ غیر معمولی صورتحال کیوں پیدا ہوئی؟ اگر یہ آلودگی بھارت سے پھیل رہی ہے تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے دوسرے شہروں میں پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے اور ماضی میں بھی ایسی رپورٹس منظرِعام پر آئی ہیں جن میں اس جانب توجہ مرکوز کروائی گئی تھی۔ اس قسم کی فضائی آلودگی ایشیا کے بعض علاقوں جیسا کہ نئی دہلی اور شنگھائی وغیرہ میں عموماً ہوتی ہے لیکن نومبر کے مہینے میں یہاں یہ پہلی بار دیکھی گئی ہے۔اس کی بڑی وجہ ہوا کا کم دباؤ اور مسلسل خشک موسم ہے۔ جب درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوتو فضا میں آلودہ ذرات کی موجودگی کے باعث کیمیائی عمل ہوتا ہے جس کے باعث فضائی آلودگی کی یہ شکل سامنے آتی ہے جسے "لوئر اوزون" بھی کہا جاتا ہے۔لاہور کے کئی باسیوں نے بتایا کہ دھوئیں کے بادل اس قدر شدید ہیں کہ گھروں کے اندر تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گردوغبار کی وجہ سے متلی اور آنکھوں میں جلن محسوس ہورہی ہے۔ترجمان موٹروے پولیس نے کہا ہے کہ لاہورکے شہر ی غیر ضروری سفر سے گریز کریں، دھند کے باعث موٹروے کے کئی سیکشن بند کردیے گئے ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ شہری سفر کرتے وقت احتیاط کریں،ڈرائیور گاڑی چلاتے وقت فوگ لائٹس کااستعمال کریں۔بھارت اور چین کے کئی علاقے بھی اس آلودہ دھند کی لپیٹ میں ہیں۔چین کے دارالحکومت بیجنگ میں حکام نے ایک بار پھر سے فضائی آلودگی بڑھ جانے کے سبب ریڈ الرٹ جاری کیا ہے جس کے تحت گاڑیوں کی آمد و رفت اور تعمیراتی کام روک دیئے جاتے ہیں۔حکومت نے تقریباً ایک ہفتے پہلے بھی فضا میں زبردست دھند چھانے کے بعد پہلی بار اس طرح کا حکم جاری کیا تھا۔ جیگوار گاڑی بنانے والی کمپنی کے سی ای او نے بھارت کے حوالے سے کہا ہے کہ ان کی گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں دارالحکومت کی ہوا سے صاف ہوتا ہے۔آلودگی پر نگاہ رکھنے والے ادارے سی ایس ای کے مطابق نئی دہلی میں ہر سال زہریلی ہوا سے 10 سے 30 ہزار کے درمیان اموات ہوتی ہیں جبکہ شہر کے 44 لاکھ بچوں میں سے تقریباً نصف کے پھیپھڑے ہمیشہ کے لیے متاثر ہو چکے ہیں۔حالیہ دنوں میں نئی دہلی میں فضائی آلودگی بلند ترین سطح پر ہے جس کے باعث بچوں کے اسکولوں میں بھی تعطیلات کر دی گئی ہیں۔ دنیا بھر میں موسمی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پاکستان کے موسم اور ماحول میں بھی ریکارڈ تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان دنیا کے ان بارہ ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ موسمی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ یہ صورت حال ہر اعتبار سے قابل تشویش ہے۔ موسمیاتی تبدیلی خشک سالی اورسیلاب کے ساتھ ساتھ غذائی پیداوار میں کمی کا سبب بھی بنتی ہے۔موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے، قحط کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ گرمی اور سردی کے موسم کے مہینوں میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ دو دہائیوں میں (2010سے 2030) کے دوران موسم میں حیران کن اور ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح 1950سے 1990کے دوران چار مرتبہ دنیا کے مختلف خطوں کو شدید ترین گرمی کا شکار ہونا پڑاتھا اسی طرح ان دو دہائیوں میں پھر دنیا کے مختلف علاقوں میں شدید ترین گرمی پڑنے کا امکان ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کے مطابق2050عیسوی تک جنوبی ایشیامیںلاکھوں انسان ایسے مقامات پر زندگی بسر کر رہے ہوں گے جو منفی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے نہایت خطرناک ہوں گے۔پاکستانی ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ حالیہ سالوں میں پاکستان کے ساحلی علاقوں کو ترک کر کے دیگر مقامات کی طرف نقل مکانی کرنے والے باشندوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کی وجہ سمندری پانی کی سطح میں اضافہ اور نمکین و آلودہ پانی ہے ۔ ماہرین اس نقل مکانی کی مہم کو ابھی محض آغاز قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین اور تحفظِ ماحولیات کے لیے سرگرم عناصر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس صورتحال کا سختی سے نوٹس لے۔موسم اور ماحول میں تبدیلی کو روکنا تو غالباً انسانی بساط سے باہر ہے لیکن اس تبدیلی کے مطابق انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنا ہر زی شعور قیادت کا فرض ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بدلتے ہوئے موسمی حالات کے پیش نظر قلیل اور طویل المدت منصوبہ بندی کریں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور اسی لیے دیا ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق زندگی کے معمولات کو ڈھالے۔ دنیا میں وہ قوم تا دیر قائم اور سرخرو ہوتی ہے جو ان تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024