لانس آرم سٹرانگ کا نام ہم پاکستانیوں کو تو شاید معلوم نہ ہو مگر امریکہ اور یورپ میں وہ ہر گھر میں مانا اور جانا جاتا ہے۔ یہ وہ امریکی ہے جسے کھیلوں کا دیوتا سمجھا جاتا ہے اور سائیکلنگ کا بے تاج بادشاہ، وہ واحد شخص ہے جس نے سات بور ٹور ڈی فرانس کا ٹائٹل اپنے نام کیا اور یوں اس نے نہ صرف تاریخ بلکہ اپنے مداحوں کے دلوں میں بھی مقام پیدا کر لیا۔ چند سال پہلے جب اس کے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کی خبریں آئیں تو سپورٹس کی ساری دنیا سکتے میں آ گئی مگر اس نے نہایت دلیرانہ انداز سے اس بیماری کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ بیماری کے باوجود اس نے سائیکلنگ کے میدان میں دوبارہ آنے کا اعلان کیا اور مختلف مقابلوں میں حصہ لیتا رہا۔ اسی دوران اس نے کینسر کے مرض کے شعور کے لئے آرم سٹرانگ فاﺅنڈیشن بھی بنائی اور اس کے لئے نصف ارب ڈالرز سے زائد کی رقم اکٹھی کی۔ وہ دیگر فلاحی کاموں میں بھی حصہ لیتا رہا اور یوں اپنے مداحوں کے دلوں میں گھر کرتا رہا۔ اسی دوران خبر آئی کہ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی نے رپورٹ دی ہے کہ آرم سٹرانگ گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل اور انتہائی منظم انداز سے ایسے سپلیمنٹ استعمال کرتا رہا ہے جو انسان کی پرفارمنس کو بڑھانے میں تعاون پیش کرتے ہیں اور جو غیر قانونی عمل ہے۔ اس خبر نے گویا ساری دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور ہر طرف آرم سٹرانگ کی اچھائیوں اور اس کی عظمت کے چرچے ہونے لگے۔ امریکی سپورٹس کے دیوتا ہونے کے ناطے اسے untouchable سمجھا جاتا تھا اس لئے سپورٹس کے منتظم اداروں پر کڑی تنقید بھی ہونے لگی۔ یہ وقت ان اداروں کے لئے بھی کڑا تھا اور خود سپورٹس کے مستقبل کے لئے بھی۔ چند دن گزرے اور سائیکلنگ کی انٹرنیشنل فیڈریشن نے لانس آرم سٹرانگ سے ساتوں ورلڈ ٹائٹل واپس لینے کا ہی اعلان نہ کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ جو رقم اس سلسلے میں اسے ملی تھی وہ بھی واپس کی جائے اور یہ بھی کہ آرم سٹرانگ کا سائیکلنگ کی تاریخ میں آج کے بعد کوئی مقام نہیں۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ آرم سٹرانگ جتنا بھی بڑا کھلاڑی کیوں نہ ہو گیم اس سے بھی بڑی ہے جس کا مستقبل بچانا ان کی اولین ذمہ داری ہے۔
اس صورتحال پر میں کافی دن سوچتا رہا کہ اگر آرم سٹرانگ پاکستانی ہوتا تو ضرور بچ جاتا کیونکہ ہم ہمیشہ کمپرومائز کرتے ہیں۔ بڑے فائدے کی نسبت فوری اور چھوٹے فائدے کو ترجیح دیتے ہیں بڑا نقصان برداشت کر لیتے ہیں مگر چھوٹا نقصان برداشت نہیں کرتے۔ کھلاڑی کو بڑا سمجھتے ہیں کھیل کو نہیں۔ ہمارے ہاں سپورٹس سمیت ہر شعبہ زندگی کا بیڑا غرق اس وجہ سے ہوا کہ ہم نے ہمیشہ اصولوں پر سمجھوتہ کیا اور اپنے اندر کینسر کو پنپنے کی اجازت دی۔ خاص طور پر سیاست میں بھی ہم یہی کرتے رہے۔ مولوی تمیزالدین کیس آج ہماری سیاسی زندگی میں نہ ہوتا تو پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات یکسر مختلف ہوتے۔ ایوب، یحیٰی، ضیاءالحق اور مشرف جیسے نام ہماری تاریخ میں شامل ہی نہ ہوتے۔ تصور کیجئے کہ اگر یہ نام ہماری سیاسی Lexicon میں نہ ہوتے تو پاکستان کا اقوام عالم میں کیا مقام ہوتا۔ ہم مختلف حادثات پر کمشن بناتے رہے اور یہ بھی سمجھتے کہ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اس حقیقت کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ وطن عزیز مختلف مافیا کے چنگل میں آ گیا اور یوں سیاست جرائم کی آماجگاہ بن گئی۔ اگر کسی فوجی طالع آزما ہو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرکے آئین توڑنے کی پاداش میں آرٹیکل چھ کے تحت سزا کا مستحق ٹھہرایا جاتا تو آج ملک کے حالات یقیناً مختلف ہوتے اور ادارتی توازن قائم ہوتا۔ جمہوریت کے نام پر ہی جمہور کا قتل، خواہ وہ سیاسی ہو یا معاشی، کرنے والے سزا بھگت چکے ہوتے تو ہماری گورننس ایک عرصے سے مثالی نہ سہی کافی حد تک بہتر ہو چکی ہوتی۔ ہم نے لوگوں کو کرپٹ کہا مگر سزا نہ دی۔ غدار کہا مگر قانون سے اسے ثابت نہ کروایا، ہم نے کسی کو نااہل جانا مگر اسی کو اپنا رہنما بنا لیا کسی کو آمر تو کہہ دیا مگر اس سے اس کے جرم کا حساب نہ لیا۔ ہر کڑے امتحان میں ہم بحیثیت قوم ناکام رہے اور یوں ہر طرح کے کینسر ہماری ملکی زندگی میں پھیلتے چلے گئے جن کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔واحد فرق اگر ہم میں اور مغربی اقوام میں ہے تو وہ یہ کہ ہمارے برعکس انہوں نے جرم کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا اور انہیں ایسی سزائیں دیں کہ لوگ توبہ توبہ کر اٹھیں۔ سزا ہمیشہ عبرت یا Deterrance کے لئے دی جاتی ہے۔ وہاں سزا جرم کے مطابق نہیں جرم سے بڑی دی جاتی ہے تاکہ لوگ عبرت پکڑیں۔ امریکہ میں اگر کوئی شخص چند ہزار ڈالر کا ٹیکس چھپا لے یا چوری کر لے تو اس کو سزا ایسی کڑی دی جاتی ہے کہ اس کی نسلیں بھی یاد کرتی ہیں۔ آرم سٹرانگ کے معاملے کو ہی لیجئے اس پر یہ بھی سوچا جا سکتا تھا کہ اب تو اس کا کیرئر ختم ہو ہی چکا ہے معاملہ رفع دفع کروا دیا جائے۔ ملک کی بدنامی ہو گی مگر ایسا نہیں ہوا۔سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں ایک تاریخی فیصلہ سنا کر ہمیں ایک اور موقع دیا ہے کہ ہم آج بھی اپنی ترجیحات درست کر لیں۔ جن لوگوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے انہیں ایک دفعہ قرار واقعی سزا دے دیں اور جن لوگوں نے اس مقدس ارض پاک کو کسی بھی طرح سے نقصان پہنچایا ہے انہیں نشان عبرت بنا دیں اور آئندہ سے ایک اصول کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں کہ افراد نہیں ملک بڑا ہے اور کھلاڑی نہیں گیم بڑی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024