کراچی سمیت سندھ بھر مےں کمشنری نظام پھر بحال ہوگیا ہے۔ گذشتہ جون مےں ایک بار پھر متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی اور گورنر کی طرف سے استعفیٰ پیش کر کے ملک سے باہر جانے پر موقع غنیمت جان کے فوری طور پر کمشنری نظام نافذ کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا۔ ذرا دیر کو بھی یہ نہ سوچا کہ متحدہ حسب روایت پھر حکومت مےں واپس آ جائے گی تو کیا ہوگا۔ متحدہ نے بلدیاتی نظام سے بہت سے فوائد حاصل کئے تھے اور وہ آئندہ بھی الیکشن سے قبل ہر صورت بلدیاتی نظام بحال کرانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
سندھ مےں بلدیاتی نظام سے عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا البتہ ناظمین اور ان کے ساتھ کام کرنے والے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیں گے۔ کوئی بھی ڈکٹیٹر جو نظام تشکیل دیتا ہے اس مےں ایسے کل پرزے فٹ کرتا ہے جو بھلے ملک کو لوٹ کر کھا جائیں لیکن اسے طاقت فراہم کریں۔ مشرف نے بھی لوکل گورنمنٹ سسٹم اس لئے تشکیل دیا تھا کہ اس کے احسانوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگ ملک کے مفادات سے زیادہ اس کے مفادات کو اہمیت دیں اور ہم نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ ضلعی حکومت نظام کی چھتری تلے نہ صرف یہ کہ بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی بلکہ اس چھتری تلے بیٹھے لوگوں نے ہر سطح پر مشرف کے آمرانہ اقدامات کا دفاع بھی کیا۔ اگر پورے بلدیاتی نظام کے فلسفے کو دو جملوں مےں بیان کیا جائے تو وہ کچھ اس طرح ہوگا کہ سسٹم کے خالق کو خوش رکھو اور ملکی خزانے کو شیرمادر سمجھ کر ہضم کر جاﺅ۔ اگر ہمارے قارئین کو یاد ہو تو اس نظام سے پہلے ملک مےں بہت معمولی درجے کے چھوٹے چھوٹے مافیاز ہوا کرتے تھے بہت اچھا نہ سہی لیکن کسی قدر چیک اینڈ بیلنس تھا لیکن جونہی یہ نظام سامنے آیا تو پورے ملک کا نقشہ ہی بدل گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک مےں اتنے مافیاز وجود مےں آگئے کہ شائد ہی دنیا کے کسی اور ملک مےں ہوں۔ ان مافیاز نے کبھی چینی کا مصنوعی بحران پیدا کیا تو کبھی آٹے کےلئے عوام کو سڑکوں پر رسوا کیا۔ ایک چھابڑی فروش سے لے کر دکاندار تک سبھی کنٹرول سے باہر ہوگئے کیونکہ انہیں مقامی ناظمین اور کونسلروں وغیرہ کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ قوانین کی دھجیاں اڑائی جانے لگیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پرویز مشرف کے دور مےں پنجاب مےں تحصیل ٹاﺅن ناظمین اور ان کے ساتھ کام کرنے والے سرکاری افسروں اور اہلکاروں نے قومی خزانے کے 5کھرب روپے لوٹ لئے اور پرویز مشرف نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی حکومت کو ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے اور انہوں نے جو قومی دولت لوٹی ہے۔ وہ ان سے واپس لینی چاہئے اگر اس رقم کا صرف 10فیصد بھی حکومت وصول کرنے مےں کامیاب ہو جائے تو پاکستان کا تمام قرضہ اتر جائے گا۔ اس بلدیاتی نظام نے قومی خزانے پر بھی ڈاکہ ڈالا اور عوام کو بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ آٹھ برسوں تک عوام کو اس نے بے دردی کے ساتھ لوٹا گیا کہ وہ پائی پائی کے محتاج ہو کر رہ گئے۔ جب لوگ بھوکوں مرنے لگے تو کوئی اپنے بچے فروخت کرنے لگا، کسی نے خودکشی کا راستہ اختیار کیا اور کئی غریب لوگ بھک مانگنے پر مجبور ہوگئے جن لوگوں نے مشرف کے دور مےں اس بلدیاتی نظام کی بدولت اپنی تجوریاں بھری تھیں وہ اب دوبارہ اس کی بحالی پر زور دے رہے ہےں۔ ہمارے کرپٹ معاشرے مےں یہ نظام کسی صورت بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہم سمجھتے ہےں کہ صرف پنجاب کو ہی نہیں دوسرے صوبوں کی ضلعی حکومتوں کو دیئے گئے فنڈز کا آڈٹ ہونا چاہئے اور جو لوگ مجرم ثابت ہو جائیں انہیں گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ انصاف کرنے کی جرات اور توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین)
سندھ مےں بلدیاتی نظام سے عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا البتہ ناظمین اور ان کے ساتھ کام کرنے والے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیں گے۔ کوئی بھی ڈکٹیٹر جو نظام تشکیل دیتا ہے اس مےں ایسے کل پرزے فٹ کرتا ہے جو بھلے ملک کو لوٹ کر کھا جائیں لیکن اسے طاقت فراہم کریں۔ مشرف نے بھی لوکل گورنمنٹ سسٹم اس لئے تشکیل دیا تھا کہ اس کے احسانوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگ ملک کے مفادات سے زیادہ اس کے مفادات کو اہمیت دیں اور ہم نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ ضلعی حکومت نظام کی چھتری تلے نہ صرف یہ کہ بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی بلکہ اس چھتری تلے بیٹھے لوگوں نے ہر سطح پر مشرف کے آمرانہ اقدامات کا دفاع بھی کیا۔ اگر پورے بلدیاتی نظام کے فلسفے کو دو جملوں مےں بیان کیا جائے تو وہ کچھ اس طرح ہوگا کہ سسٹم کے خالق کو خوش رکھو اور ملکی خزانے کو شیرمادر سمجھ کر ہضم کر جاﺅ۔ اگر ہمارے قارئین کو یاد ہو تو اس نظام سے پہلے ملک مےں بہت معمولی درجے کے چھوٹے چھوٹے مافیاز ہوا کرتے تھے بہت اچھا نہ سہی لیکن کسی قدر چیک اینڈ بیلنس تھا لیکن جونہی یہ نظام سامنے آیا تو پورے ملک کا نقشہ ہی بدل گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک مےں اتنے مافیاز وجود مےں آگئے کہ شائد ہی دنیا کے کسی اور ملک مےں ہوں۔ ان مافیاز نے کبھی چینی کا مصنوعی بحران پیدا کیا تو کبھی آٹے کےلئے عوام کو سڑکوں پر رسوا کیا۔ ایک چھابڑی فروش سے لے کر دکاندار تک سبھی کنٹرول سے باہر ہوگئے کیونکہ انہیں مقامی ناظمین اور کونسلروں وغیرہ کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ قوانین کی دھجیاں اڑائی جانے لگیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پرویز مشرف کے دور مےں پنجاب مےں تحصیل ٹاﺅن ناظمین اور ان کے ساتھ کام کرنے والے سرکاری افسروں اور اہلکاروں نے قومی خزانے کے 5کھرب روپے لوٹ لئے اور پرویز مشرف نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی حکومت کو ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے اور انہوں نے جو قومی دولت لوٹی ہے۔ وہ ان سے واپس لینی چاہئے اگر اس رقم کا صرف 10فیصد بھی حکومت وصول کرنے مےں کامیاب ہو جائے تو پاکستان کا تمام قرضہ اتر جائے گا۔ اس بلدیاتی نظام نے قومی خزانے پر بھی ڈاکہ ڈالا اور عوام کو بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ آٹھ برسوں تک عوام کو اس نے بے دردی کے ساتھ لوٹا گیا کہ وہ پائی پائی کے محتاج ہو کر رہ گئے۔ جب لوگ بھوکوں مرنے لگے تو کوئی اپنے بچے فروخت کرنے لگا، کسی نے خودکشی کا راستہ اختیار کیا اور کئی غریب لوگ بھک مانگنے پر مجبور ہوگئے جن لوگوں نے مشرف کے دور مےں اس بلدیاتی نظام کی بدولت اپنی تجوریاں بھری تھیں وہ اب دوبارہ اس کی بحالی پر زور دے رہے ہےں۔ ہمارے کرپٹ معاشرے مےں یہ نظام کسی صورت بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہم سمجھتے ہےں کہ صرف پنجاب کو ہی نہیں دوسرے صوبوں کی ضلعی حکومتوں کو دیئے گئے فنڈز کا آڈٹ ہونا چاہئے اور جو لوگ مجرم ثابت ہو جائیں انہیں گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ انصاف کرنے کی جرات اور توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین)