مفتی اعظم سعودی عرب کا فکر انگیز خطبہ حج
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ نے کہا ہے کہ مسلمانو! متحد ہوجاﺅ ورنہ دشمن غالب آجائیں گے۔ گزشتہ روز فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے دنیا بھر سے میدانِ عرفات میں جمع ہونےوالے 25 لاکھ سے زائد فرزندانِ اسلام کے سامنے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے مفتی اعظم سعودی عرب نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمان حکمرانوں کو اپنے لوگوں کیخلاف ہتھیار استعمال نہیں کرنے چاہئیں اور خون خرابے کے بجائے بات چیت کے ذریعے پرامن طور پر مسائل کا حل نکالیں۔ مسلمان حکمرانوں کو جرائم، ناانصافی اور غربت پر قابو پانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام دہشت گردی اور انتہاپسندی کا نہیں، امن و سلامتی کا دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ فساد پھیلانے والے اللہ کے دشمن ہیں جبکہ قیام امن ہر مسلمان کا فرض ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ مسلمان دشمنوں کی چالوں سے خبردار رہیں اور اپنے تمام اختلافات بھلا کر سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل قرآن مجید میں موجود نہ ہو۔ اسلامی معاشرے میں ظلم و زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام میں عدل و انصاف پر مبنی اقتصادی نظام فراہم کیا گیا ہے جو ظلم اور سود سے پاک ہے۔ انہوں نے کہا کہ شریعت کے نفاذ سے ہی تمام معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ مسلمان اپنا تشخص بحال کریں۔ اسلام دشمن عالمی میڈیا مسلمانوں کے عقائد اور اخلاق بگاڑنے میں مصروف ہے۔ مسلمان ممالک کے ٹی وی چینلز تعمیری کردار ادا کریں۔
مفتی اعظم سعودی عرب نے منتشر مسلم امہ سے جس دردمندی اور اسلام کی نشاة الثانیہ کے تحفظ کی نیک خواہش کے ساتھ اتحاد و یکجہتی ملت کی ضرورت پر زور دیا ہے وہ بلاشبہ وقت کا تقاضہ بھی ہے اور بطور ملت ہمارے لئے لمحہ فکریہ بھی کہ دنیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہو کر بھی مسلم امہ اسلام دشمن طاغوتی قوتوں کے زیرنگیں ہے اور مسلم ممالک کے بیشتر حکمران مسلم امہ کو تہس نہس کرنے کے عزائم رکھنے والی انہی طاغوتی صیہونی قوتوں کی انگلیوں پر ناچتے ہوئے مسلم امہ کے مزید انتشار کی صورت میں عالمِ کفر اور استعماری قوتوں کے غلبہ کے دوام و استحکام کی راہ ہموار کررہے ہیں جبکہ 57 مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اور عرب ریاستوں کی ترجمان عرب لیگ کے پلیٹ فارم پر مسلم امہ کے اتحاد کیلئے کبھی عملی پیشرفت نہیں کی گئی۔ استعماری طاقتوں کے سرپرست امریکہ کو عرب ریاستوں میں آمریتوں اور اقتصادی ناہمواریوں کیخلاف اٹھنے والی عوامی تحریک کو مسلم امہ کے انتشار اور مسلم حکمرانوں کی کمزوریوں کے باعث ہی اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے اور پھر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا موقع ملا او راب جہاں جہاں تیل کی دولت ہے امریکہ کی نظر ان ممالک پر ہے۔ مفتی اعظم سعودی عرب نے یقینا اسی تناظر میں مسلمانوں کو دشمنوں کی چالوں سے خبردار رہنے اور اپنے تمام اختلافات بھلا کر سیسہ پلائی دیوار بننے کا مشورہ دیا ہے جو عرب ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک ہی نہیں، ہمارے خطہ کے مسلم ممالک پر بھی صادق آتا ہے کہ اسلام دشمن شیطانی اتحادِ ثلاثہ امریکہ، بھارت، اسرائیل ہماری آزادی و سلامتی کے بھی اسی طرح درپے ہیں اور ہمارے حکمرانوں سے سودا بازی کرکے کشمیری عوام کا قربانیوں سے لبریز آزادی کا طویل سفر کھوٹا کرنا چاہتے ہیں جس طرح وہ فلسطینیوں اور چیچن باشندوں کی آزادی کو اپنی مٹھی میں بند رکھے ہوئے ہیں اور انہیں فلسطین کو یونیسکو کی مستقل رکنیت ملنا بھی گوارا نہیں ہواجس پر تیوڑیاں چڑھاتے ہوئے وہ یونیسکو کے فنڈز بھی منجمد کرادیتے ہیں۔
مفتی اعظم سعودی عرب کے خطبہ حج کی روشنی میں ہمیں سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے کہ اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کی جانب سے مسلم ممالک پر باری باری توڑی جانیوالی افتاد میں ان ممالک حکمرانوں کا اپنا کتنا قصور ہے اور کیا اب بھی ہم نے کوئی سبق سیکھا ہے یا نہیں۔ مفتی اعظم سعودی عرب نے مسلمانانِ عالم کے 25 لاکھ سے زیادہ کے عظیم اجتماع کے سامنے اپنے خطبہ حج میں اہل مغرب اور مسلمان حکمرانوں کیلئے جو سوالات اٹھائے ہیں‘ انکی روشنی میں اگر فلاحِ انسانیت کیلئے عملی اقدامات اٹھا لئے جائیں‘ اپنی اناﺅں ‘ خود غرضیوں‘ جھوٹے اصولوں اور بزور جبر و طاقت دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے کی سوچ اور روش کی قربانی دےکر اخوت‘ بھائی چارے‘ رواداری اور پرامن بقائے باہمی کے جذبے کے تحت بطور قوم اور بطور مملکت ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو اپنا شعار بنالیا جائے تو یہ دنیا عملاً جنتِ ارضی کا نمونہ بن جائے۔ اس حوالے سے مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ حج فلاح انسانیت کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے‘ جو بالخصوص مسلم امہ کیلئے مشعل راہ ہونا چاہیے‘ جس کی روشنی میں عالم اسلام اپنا اجتماعی لائحہ عمل طے کر سکتا ہے جس کیلئے بلاشبہ سعودی عرب اور پاکستان مسلم امہ کیلئے قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ اس چارٹر کی روشنی میں پاکستان‘ ایران‘ ترکی اور افغانستان پر مشتمل اسلامی بلاک بھی اس خطے کیلئے اتحاد و یکجہتی کی علامت بن سکتا ہے۔ استنبول کانفرنس میں بھی پاکستان اور افغانستان کےساتھ ساتھ ایران کانہیں سوچا گیا اگر ترکی پاکستان افغانستان اور ایران ایک مٹھی بن جائیں تو اسرائیل کا باپ بھی ایران پر حملے کا نہیں سوچ سکتا۔ اب بھی وقت ہے کہ ایران اس سلسلے از خود قدم اٹھائے
دنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں فرزندانِ توحید و اسلام فریضہ حج کی ادائیگی کے موقع پر بلاامتیاز ایک قوم کی حیثیت سے میدانِ عرفات میں اکٹھے ہو کر جس اخوت‘ محبت‘ بھائی چارے‘ صلہ رحمی اور ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں اور تمام کدورتوں‘ نفرتوں‘ تعصبات کو دلوں سے نکال کر بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوتے ہیں‘ اگر اس جذبے کو ہمہ وقت اپنا شعار بنا لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک امتِ واحدہ کی حیثیت سے ہم باطل قوتوں پر غالب نہ آسکیں۔ اسکے برعکس ہمارے مسلم حکمرانوں نے مصلحتوں‘ مجبوریوں اور مفادات کے تابع انہی باطل قوتوں کو مسلم امہ پر غالب ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے‘ ہمارے آج کے سارے مصائب اور مسائل مسلم حکمرانوں کی اسی مصلحت کیشی کا شاخسانہ ہیں۔ لہو و لعب میں ڈوبے ہوئے ہمارے حکمرانوں کو صرف اپنا اقتدار‘ اپنے اختیارات‘ اپنے مفادات اور بطور طبقہ اپنا تحفظ زیادہ عزیز ہے جس کی خاطر انہوں نے باطل قوتوں ہنود و یہود و نصاریٰ کے ساتھ قومی و ملی آزادی و استحکام کے تقاضوں کو تج کر مفاہمتیں اور غلامانہ طرز کے معاہدے کر رکھے ہیں ،نتیجتاً دین اسلام کے بارے میں باطل قوتوں کو یہ مذموم پروپیگنڈہ کرنے کا موقع فراہم کردیا گیا ہے کہ یہ دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے۔
اس حوالے سے مفتی اعظم سعودی عرب کے ارشادات اپنی جگہ اور اسلام بلاشبہ دہشت گردی کو حرام قرار دیتا ہے‘ مگر جب ہماری سرزمین پر ڈرون حملوں کے ذریعہ مسلمانوں کا خونِ ناحق بہایا جا رہا ہو اور یہ باور کرایا جا رہا ہو کہ حکومت کو پیشگی آگاہ کرکے ڈرون حملے کئے جا رہے ہیںتو اسکے ردعمل میں متاثرہ خاندانوں کے لوگ دوسروں کی خوشیاں چھیننے کیلئے خودکش حملوں کی راہ کیوں اختیار نہیں کرینگے؟ مسلمان حکمرانوں کو بھی تو سوچنا چاہیے کہ وہ مسلمانوں پر ظلم و جبر ہوتا دیکھ کر بھی مصلحتوں کا لبادہ کیوں اوڑھے ہوئے ہیں؟ امریکہ کی ڈرون حملوں کی شیطانیوں کے باوجود کیوں خاموش ہیں؟
بدقسمتی سے مسلم ممالک کے حکمران اور اشرافیہ طبقات بھی بلاسوچے سمجھے دہشت گردی کو اسلام اور دنیا کیلئے خطرہ قرار دینے میں مصروف ہیں اور امریکہ و یورپ سمیت عالمی برادری کو دہشت گردی کی جامع اور بلاامتیاز تعریف کرنے اور مسلم عوام کے ساتھ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی روک تھام پر زور نہیں دیتے‘ اسکے برعکس امریکہ‘ یورپ‘ بھارت‘ روس اور اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اپنے تعاون کا یقین دلاتے اور وسائل مختص کرتے نظر آتے ہیں جس سے ایمان کے اہم رکن جہاد میں مصروف مسلم عوام بالخصوص نوجوانوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ خودکش حملوں کی راہ اختیار کرتے ہیں۔
مفتی اعظم سعودی عرب نے تو واضح طور پر اس فلسفہ اسلام کی حقانیت کی تصدیق کر دی ہے کہ اسلام صرف اس عادلانہ اور منصفانہ حکومت کی اتباع کا حکم دیتا ہے جو انصاف پر قائم ہو، آج مسلم حکمرانوں بالخصوص پاکستان کے اہل اقتدار کی عاجلانہ پالیسیوں‘ کوتاہ اندیشیوں‘ مفاد پرستیوں‘ عیش کوشیوں اور صرف اپنے طبقہ اشرافیہ کے تحفظ و استحکام کی روش نے عوام الناس کی جو حالتِ زار بنا رکھی ہے اور ان پر عالمی مالیاتی اداروں کے احکام و ہدایات کے تابع جس بے رحمی کے ساتھ مہنگائی مسلط کی جا رہی ہے اور ان پر روٹی روزگار کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں‘ اسکی بنیاد پر تو رعایا کو اپنے عوام کش حکمرانوں کی اتباع سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے‘ جیسا کہ مفتی اعظم نے اپنے خطبہ میں فرمایا ہے!
اگر مسلم ممالک کے عوام کی یہ حالت زار برقرار رہی اور مسلم حکمرانوں نے ملک و قوم کے مفادات کی نگہداشت اور عوام الناس کے حقوق کی پاسداری نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب عرب ریاستوں کی طرح مصلحتوں کے لبادے اوڑھے دیگر مسلم حکمرانوں کیخلاف بھی عوام الناس کی جانب سے عَلم بغاوت بلند ہوجائیگا اور یہ صورتحال استعماری قوتوں کی مضبوطی و استحکام پر ہی منتج ہوگی کیونکہ منتشر قوم کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ تیونس، مصر اور لیبیا کی عوامی تحریکوں کا منطقی انجام اسکی بہترین مثال ہے۔
عید پر مستحقین اورصفائی کا خیال رکھیں
مسلمانوں کیلئے عیدالاضحی قابل احترام مقدس اور خوشی کا تہوار ہے‘ خوشی کیلئے اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معیار مقرر فرمایا ہے۔ اس موقع پر غریبوں‘ یتیموں‘ بیواﺅں اور کم وسائل والے لوگوں کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ اپنی خوشیوں میں شامل کرکے انکو بھی مسرور ہونے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ گوشت سے فریجیں اور ڈی فریزر بھر لیتے ہیں اور بہت کم حصہ مستحق افراد تک پہنچتا ہے۔ صاحب استطاعت تو پورا سال اچھے کھانے کھاتے ہیں‘ غریبوں کیلئے عید ہی ایسا دن ہے جب وہ پیٹ بھر کر گوشت کھاتے ہیں‘ اس لئے ان تک وہ حصہ ضرور پہنچنا چاہئے جس کا شرعی حکم ہے۔ ہر قربانی کرنے والے کا فرض ہے کہ اس کی دی ہوئی قربانی‘ کسی طور بھی ناگوار اور ناپسندیدہ اثرات مرتب نہ کرے۔ قربانی دیئے گئے جانور کی تمام باقیات اور فضلہ کو بڑی احتیاط اور صفائی سے ٹھکانے لگایا جائے بلکہ حکومت کی طرف سے رکھے گئے کسی قریبی ڈسٹ بن میں پھینک دیں ۔ اگر انتڑیاں‘ اوجھڑیاں اور خون آلود چھیچھڑے برسرعام سڑک پر پڑے رہیں گے تو ان سے نہ صرف ماحول کی آلودگی میں اضافہ ہو گا بلکہ ان پر مکھیوں‘ مچھروں کی بھی پرورش ہو گی جو کھانے پینے کی اشیاءکو آلودہ کرینگے اس لئے بہتر یہی ہے کہ ان اشیاءکو کارپوریشن یا بلدیہ کے مقرر کردہ پوائنٹس پر پھینکا جائے اور بلدیہ اور حکومت کے کارندے انہیں بروقت اٹھا لیں۔ عیدالاضحی تین روز تک جاری رہنے والا تہوار ہے‘ اللہ تعالیٰ کو صفائی اور حسن پسند ہے‘ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا نفاست اور صفائی پسند تھے‘ آپ نے صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا ہے اس لئے اس مقدس تہوار پر ہر مسلمان کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ معاشرتی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے گلی‘ محلے اور گھروں کے بیرونی حصوں کو کسی طور پر بھی آلودہ نہ ہونے دیں اور صفائی کا خصوصی خیال رکھیں۔ آجکل معاشرے کو ایک نئی وباءدہشت گردی کا بھی سامنا ہے‘ اس کیلئے سیکورٹی حکام کو چاہیے کہ عیدگاہوں اور مساجد پر سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کریں‘ مساجد انتظامیہ کو اپنے طور پر بھی اقدامات کرنا چاہئیں اور ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ مساجد انتظامیہ سے بھرپور تعاون کرے۔
پاک فوج بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے پرموقف واضح کرے
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ پاکستان ذمہ دار ملک ہے اور اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ ہمسایوں سے اچھے تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ ہے، بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے پر فوج سمیت سب کو اعتماد مےں لیا ہے۔ پاک فوج کو بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے پر کھل کر وضاحت کرنی چاہئے، عوام کو اندھیرے مےں نہیں رکھنا چاہئے۔ گذشتہ روز دفتر خارجہ مےں اجلاس کے دوران بعض ذرائع کے مطابق عسکری حکام نے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، آج وزیر خارجہ کہہ رہی ہےں کہ پاک فوج کو اعتماد مےں لیا ہے، اگر پاک فوج کی اس معاملہ میں رضا مندی شامل ہے تو پھر اس کے لامحدود بجٹ کی کیا ضرورت ہے،کیونکہ یہ بجٹ تو ازلی دشمن بھارت کو دنداں شکن جواب دینے کیلئے ہی مختص ہوتا ہے، اگر امریکہ بھی جنگ شروع کرےگا تو وہ براہ راست میدان مےں نہیں آئے گا بلکہ وہ بھی بھارت کو تھپکی دےکر خود پیچھے کھڑا رہے گا۔ اس لیے اگر فوج نے بھی اس مکار دشمن کو پسندیدہ قرار دینے کیلئے حکومت کی ہاں مےں ہاں ملا لی ہے، تو پھر ملک کی سلامتی کیلئے کس پر تکیہ کیاجائیگا۔ وزیراعظم گیلانی کہتے ہےں کہ کشمیر کاز پر اثر نہیں پڑے گا۔ کیا یہ کشمیر کو طشتری مےں رکھ کر دینے والی بات نہیں ہے؟ کشمیری رہنماﺅں کے دل افسردہ ہےں۔ انہوں نے 63سال کی جدوجہد سے ثابت کر دیا تھا کہ بھارت ایک غاصب اور ڈاکو ہے، لیکن بھٹو کے نام لیوا ﺅںنے آج بھٹو کی پارٹی پر دھبہ لگا کر یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے، پھر وزیر خارجہ کہتی ہےں کہ ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ ہے، ایسی ناکام خارجہ پالیسی کو عوام مسترد کرتے ہےں۔ مولانا فضل الرحمن جو بھارت کے بارے ہمیشہ نرم گوشہ رکھتے ہےں۔ وہ بھی تڑپ اٹھے ہےں کہ حکومت نے کشمیر کمیٹی کو اعتماد مےں نہیں لیا، یہ کشمیریوں کی قربانیوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، پارلیمنٹ موجود ہے یہ کوئی آمر کا دور نہیں ہر کام کو جمہوری سسٹم کے تحت مکمل کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ مےں اس پر بحث کرائی جاتی پھر پتہ چلتا کون غدار اور کون محب وطن ہے۔ حکومت اب بھی ہوش کے ناخن لے اور اس مسئلے کو فی الفور پارلیمنٹ مےں لائے۔ بھارت تو آج بھی کہہ رہا ہے کہ صبر سے کام لیں گے۔ پاکستان سے اچھی تجارت مےں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ حکومت پاکستان کو اب کسی خوش فہمی مےں نہیں رہنا چاہئے اور بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کافیصلہ فی الفور واپس لے لیناچاہئے۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ نے کہا ہے کہ مسلمانو! متحد ہوجاﺅ ورنہ دشمن غالب آجائیں گے۔ گزشتہ روز فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے دنیا بھر سے میدانِ عرفات میں جمع ہونےوالے 25 لاکھ سے زائد فرزندانِ اسلام کے سامنے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے مفتی اعظم سعودی عرب نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمان حکمرانوں کو اپنے لوگوں کیخلاف ہتھیار استعمال نہیں کرنے چاہئیں اور خون خرابے کے بجائے بات چیت کے ذریعے پرامن طور پر مسائل کا حل نکالیں۔ مسلمان حکمرانوں کو جرائم، ناانصافی اور غربت پر قابو پانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام دہشت گردی اور انتہاپسندی کا نہیں، امن و سلامتی کا دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ فساد پھیلانے والے اللہ کے دشمن ہیں جبکہ قیام امن ہر مسلمان کا فرض ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ مسلمان دشمنوں کی چالوں سے خبردار رہیں اور اپنے تمام اختلافات بھلا کر سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل قرآن مجید میں موجود نہ ہو۔ اسلامی معاشرے میں ظلم و زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام میں عدل و انصاف پر مبنی اقتصادی نظام فراہم کیا گیا ہے جو ظلم اور سود سے پاک ہے۔ انہوں نے کہا کہ شریعت کے نفاذ سے ہی تمام معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ مسلمان اپنا تشخص بحال کریں۔ اسلام دشمن عالمی میڈیا مسلمانوں کے عقائد اور اخلاق بگاڑنے میں مصروف ہے۔ مسلمان ممالک کے ٹی وی چینلز تعمیری کردار ادا کریں۔
مفتی اعظم سعودی عرب نے منتشر مسلم امہ سے جس دردمندی اور اسلام کی نشاة الثانیہ کے تحفظ کی نیک خواہش کے ساتھ اتحاد و یکجہتی ملت کی ضرورت پر زور دیا ہے وہ بلاشبہ وقت کا تقاضہ بھی ہے اور بطور ملت ہمارے لئے لمحہ فکریہ بھی کہ دنیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہو کر بھی مسلم امہ اسلام دشمن طاغوتی قوتوں کے زیرنگیں ہے اور مسلم ممالک کے بیشتر حکمران مسلم امہ کو تہس نہس کرنے کے عزائم رکھنے والی انہی طاغوتی صیہونی قوتوں کی انگلیوں پر ناچتے ہوئے مسلم امہ کے مزید انتشار کی صورت میں عالمِ کفر اور استعماری قوتوں کے غلبہ کے دوام و استحکام کی راہ ہموار کررہے ہیں جبکہ 57 مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اور عرب ریاستوں کی ترجمان عرب لیگ کے پلیٹ فارم پر مسلم امہ کے اتحاد کیلئے کبھی عملی پیشرفت نہیں کی گئی۔ استعماری طاقتوں کے سرپرست امریکہ کو عرب ریاستوں میں آمریتوں اور اقتصادی ناہمواریوں کیخلاف اٹھنے والی عوامی تحریک کو مسلم امہ کے انتشار اور مسلم حکمرانوں کی کمزوریوں کے باعث ہی اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے اور پھر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا موقع ملا او راب جہاں جہاں تیل کی دولت ہے امریکہ کی نظر ان ممالک پر ہے۔ مفتی اعظم سعودی عرب نے یقینا اسی تناظر میں مسلمانوں کو دشمنوں کی چالوں سے خبردار رہنے اور اپنے تمام اختلافات بھلا کر سیسہ پلائی دیوار بننے کا مشورہ دیا ہے جو عرب ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک ہی نہیں، ہمارے خطہ کے مسلم ممالک پر بھی صادق آتا ہے کہ اسلام دشمن شیطانی اتحادِ ثلاثہ امریکہ، بھارت، اسرائیل ہماری آزادی و سلامتی کے بھی اسی طرح درپے ہیں اور ہمارے حکمرانوں سے سودا بازی کرکے کشمیری عوام کا قربانیوں سے لبریز آزادی کا طویل سفر کھوٹا کرنا چاہتے ہیں جس طرح وہ فلسطینیوں اور چیچن باشندوں کی آزادی کو اپنی مٹھی میں بند رکھے ہوئے ہیں اور انہیں فلسطین کو یونیسکو کی مستقل رکنیت ملنا بھی گوارا نہیں ہواجس پر تیوڑیاں چڑھاتے ہوئے وہ یونیسکو کے فنڈز بھی منجمد کرادیتے ہیں۔
مفتی اعظم سعودی عرب کے خطبہ حج کی روشنی میں ہمیں سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے کہ اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کی جانب سے مسلم ممالک پر باری باری توڑی جانیوالی افتاد میں ان ممالک حکمرانوں کا اپنا کتنا قصور ہے اور کیا اب بھی ہم نے کوئی سبق سیکھا ہے یا نہیں۔ مفتی اعظم سعودی عرب نے مسلمانانِ عالم کے 25 لاکھ سے زیادہ کے عظیم اجتماع کے سامنے اپنے خطبہ حج میں اہل مغرب اور مسلمان حکمرانوں کیلئے جو سوالات اٹھائے ہیں‘ انکی روشنی میں اگر فلاحِ انسانیت کیلئے عملی اقدامات اٹھا لئے جائیں‘ اپنی اناﺅں ‘ خود غرضیوں‘ جھوٹے اصولوں اور بزور جبر و طاقت دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے کی سوچ اور روش کی قربانی دےکر اخوت‘ بھائی چارے‘ رواداری اور پرامن بقائے باہمی کے جذبے کے تحت بطور قوم اور بطور مملکت ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو اپنا شعار بنالیا جائے تو یہ دنیا عملاً جنتِ ارضی کا نمونہ بن جائے۔ اس حوالے سے مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ حج فلاح انسانیت کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے‘ جو بالخصوص مسلم امہ کیلئے مشعل راہ ہونا چاہیے‘ جس کی روشنی میں عالم اسلام اپنا اجتماعی لائحہ عمل طے کر سکتا ہے جس کیلئے بلاشبہ سعودی عرب اور پاکستان مسلم امہ کیلئے قائدانہ کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ اس چارٹر کی روشنی میں پاکستان‘ ایران‘ ترکی اور افغانستان پر مشتمل اسلامی بلاک بھی اس خطے کیلئے اتحاد و یکجہتی کی علامت بن سکتا ہے۔ استنبول کانفرنس میں بھی پاکستان اور افغانستان کےساتھ ساتھ ایران کانہیں سوچا گیا اگر ترکی پاکستان افغانستان اور ایران ایک مٹھی بن جائیں تو اسرائیل کا باپ بھی ایران پر حملے کا نہیں سوچ سکتا۔ اب بھی وقت ہے کہ ایران اس سلسلے از خود قدم اٹھائے
دنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں فرزندانِ توحید و اسلام فریضہ حج کی ادائیگی کے موقع پر بلاامتیاز ایک قوم کی حیثیت سے میدانِ عرفات میں اکٹھے ہو کر جس اخوت‘ محبت‘ بھائی چارے‘ صلہ رحمی اور ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں اور تمام کدورتوں‘ نفرتوں‘ تعصبات کو دلوں سے نکال کر بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوتے ہیں‘ اگر اس جذبے کو ہمہ وقت اپنا شعار بنا لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک امتِ واحدہ کی حیثیت سے ہم باطل قوتوں پر غالب نہ آسکیں۔ اسکے برعکس ہمارے مسلم حکمرانوں نے مصلحتوں‘ مجبوریوں اور مفادات کے تابع انہی باطل قوتوں کو مسلم امہ پر غالب ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے‘ ہمارے آج کے سارے مصائب اور مسائل مسلم حکمرانوں کی اسی مصلحت کیشی کا شاخسانہ ہیں۔ لہو و لعب میں ڈوبے ہوئے ہمارے حکمرانوں کو صرف اپنا اقتدار‘ اپنے اختیارات‘ اپنے مفادات اور بطور طبقہ اپنا تحفظ زیادہ عزیز ہے جس کی خاطر انہوں نے باطل قوتوں ہنود و یہود و نصاریٰ کے ساتھ قومی و ملی آزادی و استحکام کے تقاضوں کو تج کر مفاہمتیں اور غلامانہ طرز کے معاہدے کر رکھے ہیں ،نتیجتاً دین اسلام کے بارے میں باطل قوتوں کو یہ مذموم پروپیگنڈہ کرنے کا موقع فراہم کردیا گیا ہے کہ یہ دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے۔
اس حوالے سے مفتی اعظم سعودی عرب کے ارشادات اپنی جگہ اور اسلام بلاشبہ دہشت گردی کو حرام قرار دیتا ہے‘ مگر جب ہماری سرزمین پر ڈرون حملوں کے ذریعہ مسلمانوں کا خونِ ناحق بہایا جا رہا ہو اور یہ باور کرایا جا رہا ہو کہ حکومت کو پیشگی آگاہ کرکے ڈرون حملے کئے جا رہے ہیںتو اسکے ردعمل میں متاثرہ خاندانوں کے لوگ دوسروں کی خوشیاں چھیننے کیلئے خودکش حملوں کی راہ کیوں اختیار نہیں کرینگے؟ مسلمان حکمرانوں کو بھی تو سوچنا چاہیے کہ وہ مسلمانوں پر ظلم و جبر ہوتا دیکھ کر بھی مصلحتوں کا لبادہ کیوں اوڑھے ہوئے ہیں؟ امریکہ کی ڈرون حملوں کی شیطانیوں کے باوجود کیوں خاموش ہیں؟
بدقسمتی سے مسلم ممالک کے حکمران اور اشرافیہ طبقات بھی بلاسوچے سمجھے دہشت گردی کو اسلام اور دنیا کیلئے خطرہ قرار دینے میں مصروف ہیں اور امریکہ و یورپ سمیت عالمی برادری کو دہشت گردی کی جامع اور بلاامتیاز تعریف کرنے اور مسلم عوام کے ساتھ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی روک تھام پر زور نہیں دیتے‘ اسکے برعکس امریکہ‘ یورپ‘ بھارت‘ روس اور اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اپنے تعاون کا یقین دلاتے اور وسائل مختص کرتے نظر آتے ہیں جس سے ایمان کے اہم رکن جہاد میں مصروف مسلم عوام بالخصوص نوجوانوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ خودکش حملوں کی راہ اختیار کرتے ہیں۔
مفتی اعظم سعودی عرب نے تو واضح طور پر اس فلسفہ اسلام کی حقانیت کی تصدیق کر دی ہے کہ اسلام صرف اس عادلانہ اور منصفانہ حکومت کی اتباع کا حکم دیتا ہے جو انصاف پر قائم ہو، آج مسلم حکمرانوں بالخصوص پاکستان کے اہل اقتدار کی عاجلانہ پالیسیوں‘ کوتاہ اندیشیوں‘ مفاد پرستیوں‘ عیش کوشیوں اور صرف اپنے طبقہ اشرافیہ کے تحفظ و استحکام کی روش نے عوام الناس کی جو حالتِ زار بنا رکھی ہے اور ان پر عالمی مالیاتی اداروں کے احکام و ہدایات کے تابع جس بے رحمی کے ساتھ مہنگائی مسلط کی جا رہی ہے اور ان پر روٹی روزگار کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں‘ اسکی بنیاد پر تو رعایا کو اپنے عوام کش حکمرانوں کی اتباع سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے‘ جیسا کہ مفتی اعظم نے اپنے خطبہ میں فرمایا ہے!
اگر مسلم ممالک کے عوام کی یہ حالت زار برقرار رہی اور مسلم حکمرانوں نے ملک و قوم کے مفادات کی نگہداشت اور عوام الناس کے حقوق کی پاسداری نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب عرب ریاستوں کی طرح مصلحتوں کے لبادے اوڑھے دیگر مسلم حکمرانوں کیخلاف بھی عوام الناس کی جانب سے عَلم بغاوت بلند ہوجائیگا اور یہ صورتحال استعماری قوتوں کی مضبوطی و استحکام پر ہی منتج ہوگی کیونکہ منتشر قوم کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ تیونس، مصر اور لیبیا کی عوامی تحریکوں کا منطقی انجام اسکی بہترین مثال ہے۔
عید پر مستحقین اورصفائی کا خیال رکھیں
مسلمانوں کیلئے عیدالاضحی قابل احترام مقدس اور خوشی کا تہوار ہے‘ خوشی کیلئے اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معیار مقرر فرمایا ہے۔ اس موقع پر غریبوں‘ یتیموں‘ بیواﺅں اور کم وسائل والے لوگوں کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ اپنی خوشیوں میں شامل کرکے انکو بھی مسرور ہونے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ گوشت سے فریجیں اور ڈی فریزر بھر لیتے ہیں اور بہت کم حصہ مستحق افراد تک پہنچتا ہے۔ صاحب استطاعت تو پورا سال اچھے کھانے کھاتے ہیں‘ غریبوں کیلئے عید ہی ایسا دن ہے جب وہ پیٹ بھر کر گوشت کھاتے ہیں‘ اس لئے ان تک وہ حصہ ضرور پہنچنا چاہئے جس کا شرعی حکم ہے۔ ہر قربانی کرنے والے کا فرض ہے کہ اس کی دی ہوئی قربانی‘ کسی طور بھی ناگوار اور ناپسندیدہ اثرات مرتب نہ کرے۔ قربانی دیئے گئے جانور کی تمام باقیات اور فضلہ کو بڑی احتیاط اور صفائی سے ٹھکانے لگایا جائے بلکہ حکومت کی طرف سے رکھے گئے کسی قریبی ڈسٹ بن میں پھینک دیں ۔ اگر انتڑیاں‘ اوجھڑیاں اور خون آلود چھیچھڑے برسرعام سڑک پر پڑے رہیں گے تو ان سے نہ صرف ماحول کی آلودگی میں اضافہ ہو گا بلکہ ان پر مکھیوں‘ مچھروں کی بھی پرورش ہو گی جو کھانے پینے کی اشیاءکو آلودہ کرینگے اس لئے بہتر یہی ہے کہ ان اشیاءکو کارپوریشن یا بلدیہ کے مقرر کردہ پوائنٹس پر پھینکا جائے اور بلدیہ اور حکومت کے کارندے انہیں بروقت اٹھا لیں۔ عیدالاضحی تین روز تک جاری رہنے والا تہوار ہے‘ اللہ تعالیٰ کو صفائی اور حسن پسند ہے‘ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا نفاست اور صفائی پسند تھے‘ آپ نے صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا ہے اس لئے اس مقدس تہوار پر ہر مسلمان کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ معاشرتی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے گلی‘ محلے اور گھروں کے بیرونی حصوں کو کسی طور پر بھی آلودہ نہ ہونے دیں اور صفائی کا خصوصی خیال رکھیں۔ آجکل معاشرے کو ایک نئی وباءدہشت گردی کا بھی سامنا ہے‘ اس کیلئے سیکورٹی حکام کو چاہیے کہ عیدگاہوں اور مساجد پر سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کریں‘ مساجد انتظامیہ کو اپنے طور پر بھی اقدامات کرنا چاہئیں اور ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ مساجد انتظامیہ سے بھرپور تعاون کرے۔
پاک فوج بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے پرموقف واضح کرے
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ پاکستان ذمہ دار ملک ہے اور اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ ہمسایوں سے اچھے تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ ہے، بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے پر فوج سمیت سب کو اعتماد مےں لیا ہے۔ پاک فوج کو بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے پر کھل کر وضاحت کرنی چاہئے، عوام کو اندھیرے مےں نہیں رکھنا چاہئے۔ گذشتہ روز دفتر خارجہ مےں اجلاس کے دوران بعض ذرائع کے مطابق عسکری حکام نے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، آج وزیر خارجہ کہہ رہی ہےں کہ پاک فوج کو اعتماد مےں لیا ہے، اگر پاک فوج کی اس معاملہ میں رضا مندی شامل ہے تو پھر اس کے لامحدود بجٹ کی کیا ضرورت ہے،کیونکہ یہ بجٹ تو ازلی دشمن بھارت کو دنداں شکن جواب دینے کیلئے ہی مختص ہوتا ہے، اگر امریکہ بھی جنگ شروع کرےگا تو وہ براہ راست میدان مےں نہیں آئے گا بلکہ وہ بھی بھارت کو تھپکی دےکر خود پیچھے کھڑا رہے گا۔ اس لیے اگر فوج نے بھی اس مکار دشمن کو پسندیدہ قرار دینے کیلئے حکومت کی ہاں مےں ہاں ملا لی ہے، تو پھر ملک کی سلامتی کیلئے کس پر تکیہ کیاجائیگا۔ وزیراعظم گیلانی کہتے ہےں کہ کشمیر کاز پر اثر نہیں پڑے گا۔ کیا یہ کشمیر کو طشتری مےں رکھ کر دینے والی بات نہیں ہے؟ کشمیری رہنماﺅں کے دل افسردہ ہےں۔ انہوں نے 63سال کی جدوجہد سے ثابت کر دیا تھا کہ بھارت ایک غاصب اور ڈاکو ہے، لیکن بھٹو کے نام لیوا ﺅںنے آج بھٹو کی پارٹی پر دھبہ لگا کر یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے، پھر وزیر خارجہ کہتی ہےں کہ ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ ہے، ایسی ناکام خارجہ پالیسی کو عوام مسترد کرتے ہےں۔ مولانا فضل الرحمن جو بھارت کے بارے ہمیشہ نرم گوشہ رکھتے ہےں۔ وہ بھی تڑپ اٹھے ہےں کہ حکومت نے کشمیر کمیٹی کو اعتماد مےں نہیں لیا، یہ کشمیریوں کی قربانیوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے، پارلیمنٹ موجود ہے یہ کوئی آمر کا دور نہیں ہر کام کو جمہوری سسٹم کے تحت مکمل کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ مےں اس پر بحث کرائی جاتی پھر پتہ چلتا کون غدار اور کون محب وطن ہے۔ حکومت اب بھی ہوش کے ناخن لے اور اس مسئلے کو فی الفور پارلیمنٹ مےں لائے۔ بھارت تو آج بھی کہہ رہا ہے کہ صبر سے کام لیں گے۔ پاکستان سے اچھی تجارت مےں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ حکومت پاکستان کو اب کسی خوش فہمی مےں نہیں رہنا چاہئے اور بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کافیصلہ فی الفور واپس لے لیناچاہئے۔