میں نے اپنے پچھلے کالم میں قارئین کوممتاز دانشور اورکاروباری شخصیت جناب افتخار احمد سندھو کی پاک بھارت ممکنہ جنگ کے حوالے سے پیش گوئی بارے بتایا تھاا وروعدہ کیا تھا کہ اس کو اپنے اگلے کالم میں آپ کے ساتھ شیئر کروںگا۔شمشاد احمد خان کی پاک بھارت گفتگو کے حوالے سے میرے پچھلے کالم میں سویڈن سے تشریف لائے آئی ٹی انجینئر اور ایک بڑی کمپنی کے نوجوان ایڈمنسٹریٹر خرم کانام شامل ہونے سے رہ گیا تھا۔ آئی ٹی انجینئر خرم نے شمشاد احمد خان سے بہت چبھتے ہوئے سوال کیے۔ محفل کے شرکا اس نوجوان کی مدلل گفتگو سے بہت متاثر ہو ئے اور افتخار سندھو صاحب بھی اس ذہین و فطین نوجوان کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
افتخار احمد سندھو نے تقریباً ڈیڑھ سال قبل سوشل میڈیا پراپنے پوڈ کاسٹ میںپاکستان اوربھارت کے درمیان موجودہ کشیدہ صورتحال کے حوالے سے پیش گوئی کردی تھی اور کہا تھا کہ 2025ء میں بھارتی انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کو قائم ہوئے سوسال مکمل ہو رہے ہیں۔ اس لیے وہ حکومت سے کوئی ایڈونچر کروا کر اپنی گولڈن جوبلی منائیں گے۔ اس لیے 2025ء میںپاکستان اور بھارت پر جنگ کے گہرے بادل منڈلائیں گے اور قوی امکان ہے کہ بغیر برسے ہی چھٹ جائیں گے۔البتہ دونوں ممالک کی فیس سیونگ کے لیے ہلکی بوندا باندی ہو سکتی ہے۔ان کا یہ پوڈ آج بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ افتخار سندھو بطوردانشوروہ بڑی کیلکو لیٹڈ بات کرتے ہیں،اس لیے میںافتخارسندھو کی بات کو سند کا درجہ دیتا ہوں۔جب وہ بولتے ہیںتودیکھنے اور سننے والادم بخود ہوکر رہ جاتا ہے کیونکہ وہ دلیل کے فائل اور قائل ہیں، اس لیے دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں۔
افتخار احمد سندھوکا اپنے پوڈ کاسٹ کی ابتدا میںتین بار یہ کہنا تھا کہ اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے پاک بھارت جنگ ہو،کیونکہ جنگ میری کبھی خواہش اور دعا نہیں رہی۔ میری دعا ہے کہ اللہ کرے جنگ کبھی نہ ہوکیونکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی بلکہ جنگ مسئلے پیدا کرتی ہے۔ سب سے دردناک بات یہ ہوتی ہے کہ ماں باپ کو اپنے بچوں کے جنازے اٹھانا پڑتے ہیں۔جنگوں کے غلیظ قصے بہت اچھے لگتے ہیں لیکن ان سے پوچھیں جو اپنے پیاروں کو کھودیتے ہیں۔ یہ جنگ کوئی آسان چیز نہیں ہے، اب یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ بن چکی ہے۔جنگ دکھ اور تباہی لاتی ہے۔اس لیے میری پاک فوج کے سربراہ جنرل حافظ سیدعاصم منیر سے دست بستہ گزارش ہے کہ اندر ونی طورپراپنے لوگوں کو اکٹھا کریں اور میری اس بات پر خصوصی توجہ دیں کہ جنگ نہ ہی ہوتو بہتر ہے،اس طرح عزت سادات بھی رہ جائے گی۔
جیسا کہ میں نے کہا جنگ سے ہمیشہ بچنا چاہیے، جنگ کے بارے میں صحابہ کرامؓنے پوچھا تو نبی اکرمؐ نے فرمایا، اگر جنگ سے بچنا چاہتے ہو تو جنگ کی تیاری کرو۔ یہ بیلنس آف پاورہی ہوتا ہے جو آپ کو جنگ سے بچا کر رکھتا ہے۔ یہ چین اور امریکا کیوں جنگ نہیں کر رہے،چین تائیوان پرقبضہ کیوں نہیں کررہا، صرف امریکا کی وجہ سے۔ انڈیا پاکستان کے اوپرحملہ کیوں نہیں کر رہا؟اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے پاس ایٹم بم ہے لیکن بدقسمتی سے آپ کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تو خود ہی اپنی پٹاری کھول کر ان کے سامنے رکھ دی کہ اب ہم لڑنے کے قابل ہی نہیں رہے۔اب آپ کہیں گے کہ ہم لڑنے کے قابل نہیںتو ایٹم بم تو چلا سکتے ہیں۔ تیسری بات جو میں بتا رہا ہوں وہ یہی ہے کہ جنرل عاصم منیر کو ان کو کہہ دیناچاہیے کہ بھارت نے کوئی حماقت کی تو ہم ایٹم بم بھی چلا دیں گے۔
بات یہ ہے کہ بیلنس آف پاور جب ختم ہوجاتا ہے تو اس سے بڑا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ میں نے بتایا کہ ان کی ترقی، ان کا چاند پر اترنا، اس کے بعد جب انھوں نے کینیڈا میںسکھ ایکٹیوسٹ کو مارا توانڈین نے جو زبان استعمال کی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ انھوں نے اپنی غلطی تسلیم ہی نہیں کی۔ مجھے اس سے بڑا خطرہ محسوس ہوا کہ یہ تو کسی فلموں کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔جہاں ان کا ہیرو مودی ہے اور ولن پاکستان ہے لیکن ہیروئن کے بغیر فلم نہیں بن سکتی۔ اس وجہ سے لوگوں کو ان کی بات ماننا پڑ رہی ہے، ان کے پاس ایک بہت بڑی مڈل کلاس ہے،ان لوگوں نے اپنے لوگوں کو ترقی دی، کسان کو ترقی دی، فوج کو ترقی دی اور اپنے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ کشمیر کے اوپر قبضہ کیا، اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کم از کم 100 بلین ڈالرز سے زیادہ کے پراجیکٹس شروع کرنے جا رہے ہیں۔ توان ساری چیزوں کی وجہ سے دنیا ان کی بات ماننے پہ مجبور ہے۔
لیکن میری ایک بات یاد رکھیں کہ بھارت ابھی اتنا تگڑا نہیں ہے جتنا وہ اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے۔ ابھی ڈھائی سال نہیں گزرے، انھوں نے لداخ میںچین سے جوتے کھائے ہیں۔وہ چین کے سامنے کبھی ٹھہرے ہی نہیں۔ اس سے پہلے بھی لداخ میں 62 19ء میں جب وہ چین سے لڑے تھے تو انھوں نے ان کا پورے کا پورا بریگیڈہی قید کر لیا تھا اور بریگیڈ کمانڈر کو بھی پکڑ لیا تھا۔بعد میں انھوں نے خود چھوڑا تھا۔اس لیے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ ہمارے مقابلے میں اتنے تگڑے نہیں ہیں لیکن اپنے آپ کو ظاہر کر رہے ہیں۔
مخصوص بین الاقوامی حالات کی وجہ سے وہ بہت اوپرچلے گئے ہیں۔ جب وہ یہ دیکھتے ہیںکہ اسرائیل نے تو غزہ کی پٹی پہ حملہ کر دیا اور اس نے اپنے دشمنوں کوسبق سکھا دیا،جب وہ دیکھتے ہیں کہ آذربائیجان نے تو آرمینیا کو مار مار کربمباری کر کے اپنا سکہ بٹھا دیا ہے۔جب وہ دیکھتے ہیں کہ امریکا نے تو فلاں ملک کوسبق سکھا دیا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو بہت پیچھے رہ گئے ہیں، ہمیں بھی کچھ کرنا ہے۔ بھائی ہمیں کچھ نہ کچھ لازمی کرنا ہے کیونکہ ہم بھی اس دوڑ میں شامل ہوں کہ ہم بھی سپر پاور ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو سپر پاور دکھا رہے ہیں حالانکہ وہ ہیں نہیں۔ ان کی کمزوریاں گننے پر آ جائیں گے تو میں آپ کو بہت ساری بتا دوں گا۔ اوریہ ان کی بڑی غلط فہمی ہے اور جنگوں کو ہمیشہ غلط فہمی ہی جنم دیتی ہے۔
پاک بھارت جنگ،افتخارسندھو کی پیش گوئی
May 06, 2025