یہ مغلیہ سلطنت کے زوال میںپیش آنے والا واقعہ ہے ۔اسے پڑھ لیںاوربہت سے معاملات خود ہی آپ کی سمجھ میں آجائیں گے ۔ غلام قادر کے باپ ضابطہ خان کوشاہ عالم نے حکم عدولی کی بناپر اس کے عہدے سے محروم کردیاتھا۔وہ اپنے والد کی معزولی کاانتقام لینا چاہتا تھا اوراس کے علاوہ یہ بھی چاہتا تھا کہ لٹی ہوئی سلطنت کے سربراہ کے محل میں جو مال ودولت بھی مل سکے اس پر قبضہ کرلیاجائے لیکن یہ ہوتا آیا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں کے اصل مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں اوردکھانے کے کچھ اور۔
غلام قادر نے حیلہ تراشا کہ اس کا مقصد شاہ عالم کو ہٹا کر ایک ’بہتر حکومت‘ قائم کرنا ہے ۔چنانچہ اس نے مذہب کانام استعمال کیااور ’اسلام کی خدمت‘کے اس جذبے سے سرشارہوکر غلام قادر نے اپنے دوست اسماعیل کے ساتھ فوج اورسامان جنگ سے لیس ہوکر دلی پر چڑھائی کردی۔ غلام قادر کی فوجیں 1788ء کودلی کے گردونواح میں پہنچیں اورانھوں نے اسلامی اور بہترحکومت قائم کرنے کی بجائے لوٹ ماراورقتل وغارت گری شروع کردی۔
مہاراجہ سندھیا نے خود مصائب میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنی افواج کاکچھ حصہ شاہ عالم کی مدد کے لیے بھیجا۔شاہ عالم کی فوج نے افلاس زدہ ہونے کے باوجود مقابلہ کیا لیکن اس کاکیاکیجیے کہ خود شاہ عالم کے معتمد اعلیٰ افسران غلام قادر سے مل گئے تھے ۔انھوں نے نہ صرف شاہی افواج کوغلط راستہ دکھایا بلکہ سندھیا کی بھیجی ہوئی فوج کی بھی حوصلہ افزائی نہ کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سندھیا کی فوج نے دلی سے کوچ کیا اورشاہ عالم بے یارومددگار رہ گیا۔احمد شاہ ابدالی کے بعد یہ غلام قادر روہیلہ ہی تھاجس کی فوجوں نے چارہفتے تک دلی اوراطراف میں قتل وغارت گری کابازار گرم کیا ۔آخر کارایک ماہ بعد تک غلام قادر شاہی محل کے دروازے پر آیا اور درخواست کی کہ وہ شہنشاہ کی خدمت میں بازیابی کا خواہش مند ہے ۔غلام قادر نے قرآن کی قسم کھائی کہ اس کا مقصد صرف مغل شہنشاہ سے اظہار وفاداری ہے۔
محل شاہی کے پاسبانوں نے شاہ عالم کوسمجھانے کی کوشش کی کہ یہ دھوکہ ہے،فریب ہے ۔غلام قادر کو محل کے اندر نہ آنے دیاجائے لیکن شاہ عالم کے بعض مشیر ایسے بھی تھے جنھوں نے یہ مشورہ دیا کہ غلام قادر نے قرآن کی قسم کھائی ہے ، لہٰذااس پر اعتبار نہ کرنا اسلامی نظریات کے خلاف ہوگا اس لیے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی جائے ۔ معلوم نہیں ان مشیروں کی رائے ان کے بھولپن پر مبنی تھی یا سازش پر لیکن شاہ عالم نے اس رائے پر عمل کیا اورغلام قادر کو اندرآنے کی اجازت دیدی۔ جوں ہی محل کے دروازے کھلے ،نہ صرف غلام قادر داخل ہوبلکہ اس کے ساتھ دوہزار سپاہی بھی شاہی محل میں داخل ہوگئے۔غلام قادر کی فوج کے محل میں داخل ہونے پر کہرام مچ گیا ۔غلام قادر دربار عام سے ہوتا ہوا دربار خاص میں پہنچا اورشہنشاہ سے کہاکہ اسے روپے کی ضرورت ہے ،لہٰذا جتنی دولت محل میں ہے وہ اسے دیدی جائے ۔شہنشاہ نے کہاکہ میرے پاس جوکچھ تھا وہ میں دے چکا ہوں ،اب میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ غلام قادر اس جواب سے مطمئن نہیں ہوا۔چنانچہ شہنشاہ کو ایک مسجد میں قید کردیا گیا اورمحل کی تلاشی کاکام شروع کردیا گیا۔
دوسرے دن شہنشاہ کو مسجد سے ہٹا کرمحل کے اس حصے میں قید کردیا گیا جہاں مجرموں کورکھاجاتا تھا۔ غلام قادر کے سپاہیوں نے اب محل کے حرم کی تلاشی شروع کی۔ محل کے فرش،دیواروں اور چھتوں کو توڑا گیا لیکن اس میں وہ خزانہ نہ ملا جس کی غلام قادر کو تلاش تھی۔ شہنشاہ کی بیگمات اورکنیزوں کی تلاشی لی گئی لیکن چند زیورات کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ اگلے دن محل کے درودیوار چیخ وپکار سے گونج اٹھے۔ شہنشاہ کے ملازمین کوہول ناک اذیتیں دی جارہی تھیں۔ انھیں آگ پر الٹا لٹکایا جارہا تھا۔ان کے ہاتھوں پر کھولتا ہواپانی ڈالا جارہا تھا لیکن اس کے باوجود افلاس زدہ محل میں وہ خزانہ نہ ملا جس کی غلام قادر کوتلاش تھی ۔آخر جب اذیت رسانی کے تمام طریقے ناکام ہوگئے تو غلام قادر نے شہنشاہ سے کہاکہ جس طرح بھی ہو خزانے کا پتا بتائے ۔شاہ عالم نے کہاتم نے سارا محل دیکھ لیا ہے ۔کیاتم سمجھتے ہوکہ خزانہ میرے پیٹ میں ہے؟ غلام قادر نے کہااگر ضرورت ہوئی تو حقیقت کی تلاش میں خنجر کو بھی استعمال کرنے پڑے گا۔اورآخر کار غلام قادر نے شہنشاہ کے جسم پر جنجر بھی استعمال کیا جہاںوہ قرآن کریم کی قسم کھاکرداخل ہواتھا۔
جب غلام قادر ،شاہ عالم کے بیان سے مطمئن نہیں ہوا تو اس نے اپنے سپاہیوں کوحکم دیا کہ اس کمینے کو زمین پر گرا دو اور اسے اندھاکردو۔چنانچہ مغل شہنشاہ کو ٹھوکر مارکرتخت سے گرایا گیا اوراس کی آنکھوں میں سوئیاں ڈالی گئیں ۔شہنشاہ دردوکرب سے چیختا رہا ۔آخر جب سوئیاں اس کی آنکھوں میں اچھی طرح پیوست ہوگئیں تو غلام قادر نے شہنشاہ سے پوچھا، ’کہو اب تمھیں کچھ دکھائی دیتا ہے؟‘ شہنشاہ نے جواب دیا، ’ہاں مجھے تمھارے اوراپنے درمیان قرآن دکھائی دیتا ہے۔‘ دوسرے دن غلام قادر نے ایک درباری مصور کو بلابھیجا اوراسے حکم دیا کہ وہ اس منظر کی تصویر کشی کرے ۔غلام قادر نے شاہی محل میں جو مظالم کیے ان کی داستان خاصی طویل ہے جس کی تفصیلات بیان کرنے سے قارئین کوصدمہ ہوگا۔اس لیے میں ان کا ذکر نہیں کروں گا۔صرف ایک واقعے کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں تاکہ اندازہ ہوجائے کہ انحطاط کہ دور میںبہت سے صاحب اقتدار افراد کا معیار اخلاق کن پستیوں میں چلاجاتا ہے۔
٭…٭…٭