پاکستان کی بدقسمت تاریخ میں ہم بنیادی قومی مسائل پر اتفاق رائے نہیں کر سکے اور ذاتی، سیاسی اور گروہی مصلحتوں کے تحت مختلف نوعیت کے سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔ آج کل یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان میں آئین پارلیمنٹ اور عدلیہ میں سے سپریم کون ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ چونکہ حالت جنگ میں ہیں اس لیے یہ سوال مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں آئین کا سہارا لینا پڑے گا۔ آئین کے دیباچے میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے اختیارات استعمال کریں۔ آئین کے دیباچے کے مطابق پاکستان کے عوام بالادست ہیں جو اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں اور جن سے پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے۔ پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے عوام کی مرضی اور منشا کے مطابق آئین تشکیل دیتے ہیں۔
آئین کے آرٹیکل نمبر 5 کے مطابق ریاست سے وفاداری اور آئین و قانون کی حتمی اطاعت ہر شہری کا فرض ہے۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں آئین کو مذہبی کتاب کے بعد مقدس دستاویز کا درجہ دیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ آئین کی خالق ہے مگر آئین کی تخلیق کے بعد پارلیمنٹ خود بھی آئین کے تابع ہو جاتی ہے۔ آئین کے مطابق اراکین سینیٹ قومی وصوبائی اسمبلی جج صدر وزیراعظم سب آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں لہٰذا اس حلف کی روشنی میں بھی آئین سپریم ہے اس کی حکمرانی کو پوری ریاست پر نافذ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا کوئی ادارہ شعبہ اور فرد آئین سے انحراف نہیں کر سکتا۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 50 طے کرتا ہے کہ پاکستان کی ایک پارلیمنٹ ہوگی جو صدر سینٹ اور قومی اسمبلی پر مشتمل ہوگی۔
آئین ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کا کون شخص اہل ہوگا۔ صدر، وزیر اعظم، اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کیسے کیا جائے گا۔ آئین کا آرٹیکل 69 پارلیمنٹ کی کارروائی کو تحفظ فراہم کرتا ہے ہے جسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ آرٹیکل نمبر 68 پارلیمنٹ پر پابندی لگاتا ہے کہ پارلیمنٹ میں کسی جج کے رویے کے بارے میں بحث نہیں کی جائے گی۔ پاکستان کا آئین ایک مثالی دستاویز ہے یہ قومی اتحاد اور یکجہتی کا ضامن ہے جو شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے ریاستی اداروں کے اختیارات کا تعین کرتا ہے اور چیک اینڈ بیلنس کا معیاری نظام پیش کرتا ہے۔ ایگزیکٹو اور عدلیہ کے اختیارات کا تعین کرتا ہے۔ آئین کی طاقت ملاحظہ فرمائیے کہ تاریخ میں کئی امروں نے آئین کو زندہ درگور کرنے کی کوشش کی مگر جوں ہی آمریت ختم ہوئی یہ آئین پھر زندہ ہوگیا۔
1973 کے آئین کو تشکیل پائے 50 سال ہوگئے مگر یہ آج بھی پورے پاکستان میں نافذ العمل ہے۔ وزیراعظم اور کابینہ مل کر ریاست کا نظم و نسق چلاتے ہیں جسے ایگزیکٹو کا نام دیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کا انتخاب اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور دیگر امور کا تعین پاکستان کا آئین ہی کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 176 ایکٹ آف پارلیمنٹ کی روشنی میں سپریم کورٹ تشکیل دیتا ہے جسے آئین کی تشریح کا اختیار دیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 188 کے مطابق سپریم کورٹ کو جوڈیشل ریویو کا اختیار بھی دیا گیا ہے اس لحاظ سے عدلیہ آئین کی گارڈین بھی ہے جو اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ ریاست کے تمام ادارے اور حکومتی شعبے آئین کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔ پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم بھی کر سکتی ہے۔
بلاشک پارلیمنٹ ریاست کا اہم ترین ادارہ ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔پارلیمنٹ کا وقار قائم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان اہل نیک نیت دیانتدار اور محب الوطن ہوں اور آئین کے مطابق اپنے فرائض انجام دیں۔ اگر پاکستان کے تمام ادارے اور منصب دار خلوص نیت اور دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں تو آئینی اور سیاسی بحرانوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ریاست کے اہم منصب دار ذاتی اور ادارہ جاتی مفاد کی خاطر آئین سے انحراف کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ریاست کے سب ادارے اور اہلکار آئین پر سختی سے عمل کریں اور آئین کی پاسداری کریں تو ہم اپنے تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ ہمارے مسائل کے حل کی کنجی آئین اور قانون کی حکمرانی میں ہے۔
یہ عالمی سنہری اصول پاکستانی سماج میں کارفرما ہونا چاہیے کہ آئین اور قانون کی نظر میں سب مساوی ہیں۔ جب بھی پاکستان میں قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کے قانون کو استعمال کیا گیا تو پاکستان سنگین بحران کا شکار ہوگیا۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں تحمل بردباری اور برداشت کا مظاہرہ کریں اور سیاسی آئینی بحران کا حل آئین کے اندر تلاش کریں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی حکمت عملی ریاست کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ہم شخصیت پرستی اور پارٹی وابستگی سے اوپر اٹھ کر غیر جانبدار تجزیہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان کا آئین سپریم ہے جس کی عملی تابعداری ہم سب کا فرض ہے۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کو عملی طور پر تسلیم کیے بغیر ہم ریاست کی گڈ گورننس کو معیاری اور مثالی نہیں بنا سکتے اگر آئین سے کھلواڑ کی کوشش کی گئی تو ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024