جمعۃ المبارک 4 شوال 1443ھ‘ 6 مئی 2022ء
بختاور نے بلاول کے ساتھ بیٹے کی عید کی تصویر شیئر کر دی
تصویر میں بلاول اپنے بھانجے کو گود میں اٹھائے نہایت مسرور نظر آ رہے ہیں۔ ننھا میر حاکم بھی اپنے ماموں کے گود میں نہایت اطمینان سے نظر آرہا ہے۔ گول گول آنکھیں کھولے منہ میں انگلی دابے وہ اردگرد کا ماحول دیکھ رہا ہے۔ یہ دنیا ہے ہی بڑی رنگین بچہ ہو یا بوڑھا سب اس کی رنگینیوں میں کھوئے رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس دنیا سے کسی کا دل نہیں بھرتا۔ خدا اس ننھے میر حاکم کی عمر دراز کرے۔ اس کے ساتھ بلاول کے لیے بھی دعا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے سر پر بھی سہرا سجا لیں تاکہ ان کے گھر بھی شہنائیاں گونجیں۔ وہ بھی دولہا بنیں اور آصفہ و بختاور بھی ’’ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘‘ والا گیت گا کر اپنے بھائی سے دودھ پلائی ، جوتا چھپائی اور واگ پھڑائی کے نام پر اپنا حصہ وصول کریں اور آصف علی زرداری کے گھر میں بھی آنے والی دلہن کے پازیب کی جھنکار سنائی دے اور وہاں بھی بچوں کی کلکاریاں گونجیں۔ بلاول کی زندگی میں بھی بہار آئے اور ان کا گھر مکمل ہو۔ ویسے بھی وہ اب نوجوان نہیں رہے 34 سال کے پورے جوان ہیں۔ اس عمر میں تو عام گھرانوں میں بھی لڑکوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں کیونکہ والدین کو اپنے پوتوں اور نواسوں کو دیکھنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ اس لیے اس شوق میں ہی کئی نوجوان گھر والے بن جاتے ہیں۔ 30 سال سے زیادہ عمر کے جوان کو ’’کافی بڑا ہے‘‘ کہہ کر کئی دفعہ لڑکی والے بھی ریجیکٹ کر دیتے ہیں مگر بلاول کے لیے ایسا کوئی مسئلہ نہیں ان کا عہدہ دولت اور شہرت ہی ان کی عمر والی بات گول کر دیگی۔
٭٭٭٭
پی ٹی آئی ورکرز پرچم لے کر چاند رات کو سڑکوں پر نکل آئے
کیا یہ پالیسی صرف تین صوبوں کے لیے تھی جہاں معمولی تعداد میں کارکن پرچم لے کر ہلہ گلہ کرتے نظر آتے ایک روز قبل جب خیبر پی کے میں غیر سرکاری عید کا اعلان ہوا چاند رات منائی گئی وہاں کے کارکنوں کو کیا سانپ سونگھ گیا تھا کہ وہاں کسی شہر میں کوئی مرد مجاہد پرچم لے کر نہیں نکلا۔ باقی صوبوں میں کیا گڑ بڑ پھیلانے کے مقصد سے وہاں چاند رات کو کارکنوں کو باہر نکلنے کی دعوت دی گئی تھی۔ یہ عجب دوغلی پالیسی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ قوم کو یوں تقسیم کرنا درست نہیں۔ پہلے تو خیبر پی کے والوں نے عید من مرضی کر کے منائی جبکہ پورے ملک میں منگل 3 مئی کو عید منائی گئی۔ اور تو اور۔ بڑی خوشی کی بات یہ ہے بلوچستان والوں نے بھی اس بار عید منگل کو پورے پاکستان کے ساتھ منائی۔ خیبر پی کے والوں نے البتہ پیر کے دن منائی مگر وہاں بھی ہزارہ یعنی ہندکو بولنے والے علاقوں میں عید 3 مئی منگل کو منائی گئی۔ بہرحال چاند رات کو زبردست پروگرام کا پی ٹی آئی کا منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ چند سو ورکرز ہی مختلف شہروں میں پرچم اٹھائے ہلہ گلہ کرتے ملے باقی ساری قوم عیدالفطر کی شاپنگ میں مصروف نظر آئی کسی نے شور شرابے کے پروگرام کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ یہ خوشی کی بات ہے۔ مقدس ایام ہوں، تہوار یا مقدس مقامات ان کی حرمت اور تقدس کو برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ خوشی کے ایام میں دلوں کو جوڑا جاتا ہے توڑا نہیں جاتا۔
٭٭٭٭
جرمن سفیر اور سفارتخانے کے عملے نے چاند رات کو مہندی لگوائی
چاند رات ہو تو کون سا گھر کون سا بازار ایسا ہوتا ہے جہاں مہندی نہ گھولی جاتی ہو، مہندی نہ لگوائی جاتی ہو، جدید دور میں نت نئے انداز نے بہت کچھ بدل دیا مگر مہندی اور عید کی چوڑیاں یا پھولوں کے گجرے آج بھی روایتی آن بان سے ہر عید پر موجود ہوتے ہیں۔ گھروں میں مہندی لگانے کی ماہر لڑکیاں رات دیر تک بہنوں اور سہیلیوں کو مہندی لگاتی نظر آتی ہیں۔ بازاروں میں مہندی والی دکانوں پر میلہ لگا رہتا ہے۔ پہلے تو صرف مرد حضرات کو اجارہ داری حاصل تھی وہ مہندی لگاتے تھے مگر اب خواتین بھی اس کام میں پیش پیش ہیں۔ منہ مانگے دام لے کر عید پر حسین خوبصورت ڈیزائنوں والی مہندی لگائی جاتی ہے۔ بیوٹی پارلرز میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ ویسے ایک بات یہ بھی ہے کہ اب وہ مہندی رہی ہی نہیں جو ہمارے بچپن میں ہوتی تھی۔ پشاور کی سلطانہ مہندی وغیرہ جو واقعی مہندی ہوتی تھی یا کھلی مہندی بازاروں میں ملتی تھی جسے گھول کر اس میں سرسوں کے تیل کی آمیزش کی جاتی تھی اس مہندی کی خوشبو اور رنگ کا جواب ہی نہیں تھا۔ اب تو مہندی کے نام پر کیمیکل سے بنا رنگ دار سیال ہوتا ہے جو صرف رنگ لاتا ہے مہندی کی وہ خوشبو جو کبھی ہاتھوں سے بالوں سے آتی تھی اب عنقا ہو چکی ۔ مگر پھر بھی یہی غنیمت ہے کہ رسم باقی ہے۔ چاند رات کو جرمن سفارتخانے والوں نے مہندی لگانے کی تقریب کا اہتمام کیا تو سفیر کے ہمراہ تمام عملے نے مہندی لگوائی۔ خوشبو رنگ اور نور کی برسات نے ماحول کو گلابی بنا دیا۔ یوں سفارتی عملے نے بھی اہل پاکستان کے ساتھ چاند رات کو اس رنگ برنگی تقریب میں شریک ہو کر پاکستانیوں کی خوشیوں کودوبالا کر دیا۔
٭٭٭٭
بزرگ امریکی شہری نے 47 سیکنڈ میں 100 میٹر کی ریس مکمل کر لی
یہ تو واقعی بائیونک بابا ہے سپرمین بابا۔ ورنہ عمر رفتہ کو آواز دینے والے تو صرف
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
تک ہی خود کو محدود سمجھتے ہیں یا پھر چچا غالب کی طرح حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر ومینا میرے آگے
یہ ہوتی ہے ہمارے ہاں عمر رسیدہ یعنی بزرگ شہریوں کی تمام توانائی مگر شاباش ہے اس امریکی بابے پر جس نے عمر رسیدہ افراد کی عزت رکھ لی اور اس عمر ناتواں میں ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ والی بات سچ ثابت کر دکھائی۔ 100 میٹر کا فاصلہ معمولی نہیں ہوتا کسی 60 سالہ پاکستانی کو کہیں کہ ذرا دوڑ کر یہ فاصلہ طے کر کے دکھائیں تو وہ اپنی ہزاروں بیماریاں گنوا کر جان چھڑائے گا مگر اس امریکی بابے نے صرف 14 سیکنڈ میں ‘دوڑتے ہوئے یہ فاصلہ طے کر کے سب کو حیران کر دیا۔ یہ ریس بزرگ شہریوں کے لئے منعقد ہوئی تھی جس میں یہ ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ اگر ہمارے ہاں بھی بابوں کو فالتو چیز سمجھ کر کونے سے نہ لگایا جائے انہیں ز ندگی کی دوڑ میں شامل رکھا جائے تو وہ بھی عمر کے اس سنہری حصہ میں چاق و چوبند اور توانا رہ سکتے ہیں۔ مگر افسوس ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ انہیں بات بات پر اپنی عمر کا خیال رکھنے کا مشورہ ملتا ہے۔
٭٭٭٭