جمعرات ‘ 23؍ رمضان المبارک 1442ھ‘ 6؍مئی 2021ء
عمران خان اچانک اسمبلیاں تحلیل کریں گے : منظور وسان
خدا جانے یہ پیشنگوئیاں کرنے کا شوق منظور وسان کو کہاں سے چرایا ہے۔ جب دیکھیں کوئی نہ کوئی ایسی درفنطنی چھوڑتے ہیں کہ لوگ ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔ اب بھلا خان صاحب کو ایسی کیا پڑی ہے کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کرکے کتاب ہی بند کر دیں۔ ایسا وہ کیوں کریں۔ انہیں کیا جلدی ہے۔ ابھی تو پورے 2 سال ان کے پاس پڑے ہیں۔ انہیں اطمینان سے کام جاری رکھنے دیں۔ ہاں اگر پانچ سال پورے ہو چکے ہوتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ بھئی اب خان صاحب اچانک یا کسی بھی وقت اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ مگر ابھی تو ایسا کوئی منظر بھی نہیں کہ الیکشن کا بگل بجے ہی نہیں تو اسمبلیوں کی گردن پر چھری کیوں چلائی جائے۔ بے شک اس وقت پیپلزپارٹی کے ہر خاص و عام کی خواہش ہے کہ عمران خان کی حکومت کسی نہ کسی طرح برخاست ہو۔ خواہ خود خان صاحب ایسا کریں یا کوئی مہمان اداکار آکر ایسا کرے تاکہ اس کے بعد کوئی نیا کھیل شروع ہو اور پیپلزپارٹی کرپشن کا لاشہ کندھوں پر اُٹھا کر جمہوریت کے قبرستان میں دفن کر دے۔ بہرحال یہ سیاسی پیشنگوئیاں وہ سیاست دان ہی کرتے ہیں جن کی اپنی یہ حالت ہے کہ؎
تر دامنی پہ میر ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑیں دیں فرشتے وضو کریں
تو صاحبو! اب دامن حسرت بھرے آنسوئوں سے تر ہو یا کرپشن کے عرق انفعال سے، ہمارے دوست اکثر وہ نچوڑتے نظر آتے ہیں اور فرشتے تو نہیں، البتہ ہمارے غریب عوام اس سے وضو کرتے پھرتے ہیں۔
٭٭٭٭
گندم کی باقیات جلانے سے دھواں موٹروے پر درجنوں گاڑیاں ٹکرا گئیں
حکومت کی طرف سے محکمہ ماحولیات کی طرف سے بار بار خبردار کیا جاتا ہے کہ کسان فصلوں کی باقیات کو جدید سائنسی طریقوں سے تلف کریں تاکہ ان کو جلانے سے دھواں نہ پھیلے اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ نہ ہو۔ مگر وہ حکم ہی کیا جس پر عمل ہو۔ ہمارے ہاں حکومتی احکامات یوں ہوا میں اُڑائے جاتے ہیں جیسے سگریٹ نوش دھویں کے مرغولے ہوا میں مختلف شکلیں بنا بنا کر اُڑاتے ہیں۔ ابھی گندم کی کٹائی مکمل نہیں ہوئی۔ بہت سا کام باقی ہے مگر ہمارے بعض کسانوں کو شاید بہت جلدی ہے۔ انہوں نے ابھی سے ہی گندم کی باقیات نذر آتش کرنا شروع کر دی ہیں۔ ایک طرف بھارت میں روزانہ ہزاروں چتا جل رہی ہیں۔ لاکھوں من لکڑی اور انسانی لاشوں کے جلنے کے بعد اُٹھنے والا دھواں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس کے زہریلے اثرات سے پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے اپنے مہربان بھی او تاولے پن کا مظاہرہ کر کے اس موقع پر فصلوں کی باقیات جلا کر آلودگی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ اس دھویں سے پھیلی دھند کی بدولت گزشتہ روز موٹروے پر کئی مقامات پر درجنوں گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں جہاں کئی مقامات پر حد نظر کم سے کم تر ہو کر رہ گئی تھی۔ شکر ہے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ صرف 15 افراد زخمی ہوئے جبکہ کافی گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ صوبائی حکومت ذرا ان لاپروا افراد کی بھی خبر لے جو مسلسل حکومتی اقدامات کی خلاف ورزی کرتے پھرتے ہیں اور دوسروں کے لیے اذیت کا باعث بنتے ہیں۔
٭٭٭٭
بل گیٹس اور ملینڈا میں علیحدگی ہو گئی
ہمارے معاشرے میں طلاق کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یورپ میں ایک منافع بخش کام ہے۔ ہمارے ہاں طلاق یافتہ خاتون ساری زندگی اس طعنے کے ساتھ بسر کرتی ہے کہ یہ طلاق یافتہ ہے۔ امیر ہوں یا غریب، دونوں میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ صرف طلاق کا طعنہ ہی کافی نہیں سمجھا جاتا، طرح طرح کی کہانیاں بھی مطلقہ خاتون کی ذات سے منسوب کی جاتی ہیں۔ اسلامی احکامات کے باوجود شوہر طلاق دینے کے بعد خاتون کے جہیز کا سارا سامان اولاد اور زیورات بھی مال غنیمت سمجھ کر دبا لیتا ہے۔ اس کے برعکس یورپ و امریکہ میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ وہاں طلاق کی صورت میں عورت مرد کی آدھی جائیداد کی مالک بن جاتی ہے۔ اس کی آدھی آمدنی میں حصہ دار ہوتی ہے۔ یوں مطلقہ خاتون ہر طرح سے فائدہ میں رہتی ہے۔اب ملینڈا بی بی کو ہی دیکھ لیں، طلاق کے بعد اب اسے اربوں روپے ملیں گے۔ اس طرح تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی تو لاٹری نکل آئی ہے مگر حیرت اس بات پر ہے کہ ایک کھرب پتی شخص بھی مال و دولت کی ریل پیل کے باوجود بیوی کو راضی نہ کر سکا تو عام آدمی بے چارے کیا بیگم کو راضی رکھ پائیںگے جن کی جیبیں اکثر خالی رہتی ہیں اور بیگم کے مطالبات ہیں کہ بڑھتے رہتے ہیں۔ اب بیگم ملینڈا خوش رہیں، جہاں بھی رہیں اپنے خرچ پر رہیں۔ ان کے پاس پہلے بھی کافی سرمایہ تھا، اب اور بھی ریل پیل ہو گئی ہے۔ وہ جو چاہیں کریں، انہیں کس نے روکنا ہے۔
٭٭٭٭٭
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے گریڈ 18 تک کے ملازمین کو ایک تنخواہ کے برابر اعزازیہ ملے گا
اول تو حکمرانوں نے جو کرنا ہوتا ہے وہ کرتے پھرتے ہیں۔ کون ان کو روک سکتا ہے مشورہ دے سکتا ہے سو اب بھی حکومت وہی کررہی ہے جو اس کا جی چاہتا ہے۔ سرکاری ملازمین کے حوالے سے تو ہماری حکومتیں خاص پالیسیاں اپناتی ہیں۔ تنخواہ میں اضافہ ہو الائونس میں اضافہ ہو یا نوازنے کا کوئی موقع وہ من پسند محکموں پر دست شفقت پھیرنے میں ذرا بھر بھی تامل نہیں کرتی۔ گزشتہ روز اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے گریڈ 18 تک کے ملازمین کو عید پر ایک بنیادی تنخواہ بطور اعزازیہ دینے کی منظوری کی خبر سے بھی پتہ چلتا ہے کہ کارکردگی چاہے صفر ہی کیوں نہ ہو مگر منظور نظر من پسند محکموں کو بہرصورت نو ازا جاتا ہے چاہے باقی محکمے انگاروں پر لوٹتے رہیں۔ حکومت کو کسی کی پرواہ نہیں ہوتی۔ باقی محکموں میں بھی بے شک سب اچھا نہیں مگر چونکہ سارے بڑے بڑے افسران کا خاص طور پر پالا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے پڑتا ہے۔ اس لئے وہ انہیں خوش رکھتے ہیں تاکہ جب ان کو مراعات دینے کی باری آئے تو یہ لوگ بھی ان کا خیال رکھیں۔ اب انہیں جو رعایت دی جارہی ہے وہ کس کارنامے کے عوض دی جارہی ہے ۔ باقی سرکاری محکمے کیا سوتیلی اولاد ہیں۔ کیا وہ کام نہیں کرتے۔ حکومت یہ
غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم
اے جان وفا یہ ظلم نہ کر
والی پالیسی بدلے۔ اگر فائدہ پہنچانا ہے۔ تو سب کو پہنچائے۔ ایسی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہر سال سرکاری محکموں کے لاکھوں ملازمین بجٹ سے پہلے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں…
٭٭٭٭٭