باتیں کرتے کرتے نہ جانے قمر کو کیا ہوا ۔۔ شائد ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا تھا یا پل بھر کو پیچھے رہ جانے والے رشتوں کی گرہ ڈھیلی پڑ گئی تھی ، جو بھی تھا وہ ایکدم سے اٹھا اور مینا کے بالکل قریب آبیٹھا ۔مینا کے بکھرے بال جنہیں وہ بہت دیر سے دور دور سے دیکھ رہا تھا ، انہیں اپنے ہاتھوں سے سنوارنے لگا، وہ جیسے سالوں سے اسی ایک لمحے کی منتظر تھی وہ مسحور سی ہو گئی ۔۔ کسی اجنبی کے ہاتھوں کا لمس اتنا پیارا بھی ہو سکتا ہے ، اتنا عقیدت سے بھرا ہوا بھی ہو سکتا ہے ؟ وہ اسے یوں چھو رہا تھا جیسے کوئی قیمتی چیز ہو۔ نہیںبلکہ جیسے کوئی نازک چیز ہو ، جو زور سے ہاتھ لگانے سے ٹوٹ جا ئیگی ۔محبت کے ایک مقام پر تو مینا کو یہ احساس بھی ہوا جیسے وہ اسے کوئی دیوی سمجھ کے اسکی پو جا کر رہا ہے۔ قمر کے اندر سے اس پیاری سی لڑکی کیلئے عقیدت پھوٹ رہی تھی اور اسے حیرت ،مینا کے بھول پن اور خود سپردگی کی وجہ سے ہو رہی تھی ۔ گلاب کے پھولوں کے بعد اس فقرے نے لڑکی کو رلا دیا ۔۔محبت ایسے بھی مل سکتی ہے ۔ ایسے ہی کسی اجنبی سے کسی دور مقام پر ، یو نہی بے وقت اور غیر متوقع طور پر ۔۔وہ تو اس تھوڑے سے وقت میں سچ مچ کی دیوی ہی بن گئی ۔۔۔اور پھریہ وقت بھی گزر گیا جس کو پانے کیلئے ان دونوں نے ایک ایک دن اورایک ایک لمحہ گن گن کر گذارا تھا ۔۔ آخر کار یہ وقت بھی گزر گیا ۔اور پھر مینا سے قمر بچھڑ گیا ۔۔ بغیر کسی وعدے کے بغیر کسی دعوے کے ۔۔وہ بچھڑ گیا ۔ مگر اس ادھوری ملاقات میں مینا کی تلاش کا سفر مکمل ہو گیا۔اس کی زندگی کا سب سے بڑا سچ اسے مل چکا تھا۔ کمرے میں گلاب کی خوشبو پھیلی تھی۔مینا کا دل گلاب بنا رہے گا اور قمر کی زندگی میںیہ دن ایک خوشگوار یاد کا بیج بن جائیگا جو اسکی سپاٹ زندگی کو ہمیشہ خوبصورت کلیاں دیتا رہے گا ۔
مینا کی سب پرانی کہانیاں مر گئی ہیں اور اب اسے جب بھی قمر کا پیار اور احترام سے بھرا لمس یاد آتا ہے تو وہ ہنس لیتی ہے اور جب رونا آتا ہے تو اسے دوبارہ پانے کی تڑپ میں رو بھی لیتی ہے ۔ منافقوں کی دنیا میں ذلت اور ٹھکرائے جانے کے دن جب اس پر اترتے ہیں تو وہ اس " پورے ایک دن کی عزت "،جسے دنیا چاہے کوئی بھی نام دے ،کو یاد کر کے خود کو ساری عمر کی عدت کے لئے سنبھال لیتی ہے۔ وہ خود حیران بھی ہو تی ہے اور خود سے پو چھتی پھرتی ہے کہ کوئی کیسے ایک دن میں اپنی پو ری زندگی جی سکتا ہے؟ایک انسان ایک دن میں ایک کہانی کو کیسے مکمل کر سکتا ہے ؟قمر ، مینا کے جسم میںہمیشہ کیلئے امر ہو گیا ہے ۔ بھلا،زندگی دینے والے ہاتھوں اورعزت دینے والی نظروں کو کون بھلا سکتا ہے؟ وہ انجان شخص اس کے ساتھ نہیں چلتا ، زندگی کے راستوں پر وہ پھر سے اکیلی ہے مگر ایسی اکیلی نہیں جیسے پہلے ہوا کرتی تھی بلکہ یوں کہ اسکے اندر پورا ایک شخص آباد ہے ۔۔ ایک پورے جہاں کی طرح ۔"
کہانی ختم شد
آج جب کرونا کی وبا پھیلی ہو ئی ہے ۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میںنظر بند ہیں ایسے میں ایک لڑکی ،کسی گمنام رائٹر کی لکھی یہ سالوں پرانی کہانی کو پڑھتے پڑھتے رو پڑی ہے۔کیا سالوں زندہ رہنے کے بعد بھی لوگ سچی محبت اور عزت کی کمی کی وجہ سے مردہ رہتے ہیں اورکیا سالوں مردہ رہنے کے بعد بھی ایک دن کی محبت ،ایک قطرہ عزت، انسانوں کو زندہ کر سکتی ہے۔۔ ؟واہ !!وہ محبت کی یہ انوکھی کہانی پڑھ کر حیران ہو رہی ہے ،ایسی کہانی جسے نہ یہ سماج مانتا ہے اور نہ ہی کوئی مذہب پناہ دیتا ،مگر بھر بھی وہ لڑکی مینا کی خوش قسمتی پر رشک کر رہی ہے کہ چلو کوئی تو ہے جو محبت کے پھل کا مزہ چکھ گیاہے ،سچ کی تلاش میں اس کا سچ سے سامنا ہو ہی گیا ،چاہے ایک دن کیلئے ہی سہی۔ورنہ آج کے دور میں تو محبت ایک پرانے زمانے کی رسم ہی بن کے رہ گئی ہے جسے بس لوگ رسم کی طرح ہی مناتے ہیں، نبھاتے نہیں ۔۔ اور سچی محبت ایسی متروک شے بن چکی ہے کہ بس آثار ِ قدیمہ کے کھنڈرات میں سے ہی ملے تو ملے اور چونکہ انسانوں کے سایہ بننے کے عمل کو روکا نہیں جا رہا تھا اور نہ ہی محبتوں میں ملاوٹ کو مائنڈ کیا جا رہا تھا ۔۔ بس ہر طرف موو آن موو آن کا شور تھا ۔ ایک چھوڑ دوسرا پکڑ ۔۔بھاگم دوڑ اور نفسا نفسی تھی اور محبت کا دوسرا نام بلکہ " اصلی نام "بس "دھوکہ" ہی رہ گیا تھا ۔۔ لوگ تو اس صورتحال کو قبول کر چکے تھے اور اسکے عادی ہو تے جا رہے تھے مگر ایسی صورتحال پر قدرت پریشان ہورہی تھی اور پھرپریشانی بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھی کہ فطرت نے خود ہی انسانوں کو چھوٹا کرنے اور سایوں کو لمبا کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔کھوٹے رشتوں اور منافقتوں کا اتنا تعفن پھیل رہا تھا کہ وبا بر حق لگنے لگی تھی ۔
جو انسان سچائی کو وائرس کی طرح چمٹ گئے تھے اور" اس" کی موت کا باعث بن گئے تھے ، ان انسانوں کو وائرس چمٹنے لگا اور پھر لوگ مرنے لگے اور وبا پھیلتی گئی ۔جھوٹوں کے ساتھ مٹھی بھر سچے بھی مارے جانے لگے اور وبا پھیلتی گئی یہاں تک کے اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اور پھر لوگوں کو گھروں میں بند ہو نے کے حکم جاری ہونے لگے ، انسان کی انسان سے ملنے پر پابندیاں لگنے لگیں ۔۔ کیونکہ اب فطرت نے انسانوں کو قید کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔مگرکہانی پڑھنے والی لڑکی کو یقین ہو چلا ہے کہ اب راستہ کھلے گا ، آسمان سے شفق دبے قدموں ، گھروں کے آنگن میں اترے گی اور دلوں کی بد رنگی بھی دھل جائیگی۔ سچائی کے گلاب کسی معصوم کیلئے صرف" ایک دن" کیلئے نہیں بلکہ سدا کیلئے مہکیں گے۔ منافقت اور دھوکے کی سڑاند ختم ہو گی ، فضا میں" سچ کی خوشبو "بسے گی ۔ کائنات زندہ ہو گی اور شرط یہ ہو گی کہ انسان" انسان کا بچہ" بنے گا تو رہے گاورنہ مرے گا۔ فطرت بھی خود کو بچانے کی کوشش میںیہ تجربہ کر رہی ہے بالکل مینا کی طرح جو خود کو بچانے کی آخری کوشش کی خاطر" ایک دن کی محبت" اور" سچ" کو پانے کااپنی زندگی کا انوکھا اور مشکل ترین تجربہ کر گزری تھی ۔۔اور وہ لڑکی سوچ رہی تھی کہ منزل چاہے" سچائی" اور"محبت" ہی کیوں نہ ہو اورتجربہ کرنے والا انسان ہو یا فطرت، گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑ جاتی ہے ۔۔ (ختم شد)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024