پارٹی سے ناراض ہوں نہ آزاد گروپ کا حصہ‘ وزیراعظم کے خلائی مخلوق والے بیان پر افسوس ہوا : چوہدری نثار
اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی) سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ نہ مسلم لیگ (ن) چھوڑی ہے اور نہ چھوڑنے کا ارادہ ہے۔ میرے کوئی عزائم نہیں ہیں۔ فوج کچھ نہیں کرتی ہے جو ملٹری لیڈر شپ ہوتی ہے۔ اس کے فیصلے ہوتے ہیں۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان کی سیاست میں براہ راست اور بالواسطہ کردار رہا ہے۔ خلائی مخلوق کے بیانات پر افسوس ہوا۔ شاہد خاقان عباسی پر بھی افسوس ہے ‘ وزیراعظم کے پاس حقائق اورکوائف ہیں‘ تو آرمی چیف ‘ ڈی جی آئی ایس آئی‘ ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس کو بلانا چاہیے تھا۔ قومی سلامتی کمیٹی کااجلاس بلائیں‘ اس مسئلہ کو ہینڈل کیا جاسکتا ہے۔ پانامہ کیس کوئی تو موقف تھا کہ سپریم کورٹ نہ جائیں۔ میں سازشی آدمی نہیں ہوں۔ سینٹ میں چار امیدوار تو مشرف کے ساتھی تھے۔ باقی چار سٹاف یا ذاتی ملازم ہیں۔ پرانے ساتھیوں کو لے کر چلنا یا خوش آمدیوں کو ۔ میاں نوازشریف اور ان کی بیٹی طعنہ زنی میں مصروف رہے۔ ذاتی ملازم تضحیک کے ریمارکس دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ روز نئی کہانی اور بدگمانی کی گئی۔ نوازشریف خوش آمدیوں کے جھرمٹ سے نکل کر ملک وقوم کے حق میں فیصلہ کریں گے تو پوری قوم ان کے ساتھ ہوگی۔ تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت پر عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اب پارٹی میں متحرک کردار ادا کروں گا۔ میاں شہباز شریف سے ملاقاتیں کثرت سے ہوئی ہیں ۔ چوہدری نثار علی خان نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پاکستان کے عوام کے سامنے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں پارٹی سے ناراض نہیں ہوں۔ میرے ذاتی مطالبات نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ آزاد میڈیا ہے جو کسی کے ذہن میں آتا ہے چلا دیتا ہے۔ میں نے کبھی اس پارٹی سے کسی عہدے کا تقاضہ نہیں کیا ہے۔ میں نے پارٹی میں آج تک کہے جانے کے باوجود کوئی عہدہ نہیں لیا ہے۔ پی ایم ایل این کے قائم ہونے سے پہلے وزیر میں پہلے تین مرتبہ بن چکا تھا۔ 34 سال سے میاں نوازشریف کے ساتھ ہوں۔ جس دن 1992-93ءمیں مسلم لیگ (ن) بنی تھی۔ اس وقت سے اس پارٹی کا اساسی رکن ہوں۔ یقیناً اس پارٹی کے لیڈر میاں نوازشریف ہیں۔ مگر اس کے اساسی ممبر 20 یا 22 اور بھی تھے۔ آج ان فاونڈر ممبرز میں میرے علاوہ ایک شخص بھی مسلم لیگ (ن) کے اندر نہیں ہے۔ آج کی قومی اسمبلی میں میرے علاوہ صرف رانا تنویر ہیں جو 1985ءمیں بھی اسمبلی کے ممبر تھے مگر وہ پارٹی تنظیمی ڈھانچے میں نہیں تھے۔ 70 فی صد پارلیمانی ممبران اگرچہ سب قابل عزت ہیں مگر انہوں نے پارٹی چھوڑی اور دوبارہ پی ایم ایل این میں شامل ہوئے۔ میرا موقف تھا کہ جب میں وزیرداخلہ تھا تو میاں نوازشریف کے سامنے اپنا موقف پیش کیا۔ جب پانامہ لیکس شروع ہوا تو میں ان چند لوگوں میں سے تھا جن کا موقف تھا کہ ہم سپریم کورٹ میں نہ جائیں۔ اس کی وجہ میں اس وقت بیان نہیں کروں گا۔ کیونکہ ہوسکتا ہے اس سے میاں نوازشریف کو نقصان ہو۔ اس کے بعد میاں نوازشریف نے تقریر کا فیصلہ کیا تو پی ایم ایل این کا واحد آدمی تھا جس نے کہا کہ میاں صاحب تقریر نہ کریں۔ جب جے آئی ٹی بنی تو میں نے کہا کہ آرمی چیف کو بلائیں۔ مناسب سمجھیں تو مجھے اور اسحاق ڈار کو بلائیں اور میں ذمہ داری لیتا ہوں کہ میں بات کروں گا۔ آرمی چیف سے کہیں کہ فوج کے بریگیڈئیرزجے آئی ٹی میں نہیں ہونا چاہیں۔ جب فیصلہ آگیا تو میں سیدھا پی ایم ہاو¿س گیا اور کہا کہ میاں صاحب جو اس سے پہلے ہوا اپنی جگہ میری پوری کوشش ہوگی کہ آپ کے اور پارٹی کے حوالے سے تمام اقدامات کریں جس سے پارٹی کو تحفظ اور استحکام ملے۔ اس کے بعد پنجاب ہاو¿س میں میری میاں نوازشریف سے طویل ملاقات ہوئی۔ میں نے اس پر کہا تھا کہ میرا سادہ سا موقف ہے کہ جو آپ کے ساتھ ہونا تھا وہ ہوگیا۔ اب پورا زور الیکشن میں لگائیں اور ساتھ یہ کوشش کریں کہ جو مقدمات کے حوالے سے چھ ماہ کی قدغن لگی ہے اس کو الیکشن سے آگے لے جائیں۔ اس بات کی بھی مزید وضاحت نہیں کرتا کہ یہ کیوں کہا تھا۔ میاں نوازشریف نے کہا یہ کس طرح ممکن ہے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ جو فوج اور عدلیہ کے خلاف لہجہ اور موقف ہے اس کو ذرا نیچے لے کر آئیں۔ اس پر نوازشریف نے پنجابی میں کہا کہ ”چوہدری صاحب فیر میں کی کہواں“ میں نے کہا کہ سختی سے کہیں کہ مجھ سے ناانصافی ہوئی ہے۔ کہیں میں ملک کو سیدھے راستے پر لے کر جاتا ہوں اور یہ ہر دفعہ مجھے راستے میں روک لیا جاتا ہے کہیں کہ میں سیاسی میدان میں مقابلہ کروں گا۔ کہیں میں عدالتی میدان میں مقابلہ کروں گا۔ کہیں کہ میں گلی کوچوں میں عوام کے ساتھ مل کر مقابلہ کروں گا۔ مگر یہ نہ کہیں کہ پانچ پی سی او ججز‘ یہ نہ کہیں پیچھے کوئی ڈوریاں ہلا رہا ہے۔ یا جو باتیں وہ کرتے تھے وہ نہ کہا کریں۔ یہ جو ساری چیزیں تھیں اس سے پیغام جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سیاست دنگل یا باکسنگ میچ نہیں ہے۔ سیاست جنگ نہیں ہے۔سیاست اصولوں پر سمجھوتہ کئے بغیر راستہ نکالنا ہے۔ ہمیں کس نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ جائیں ہم خود گئے‘ ہم سے کس نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی قبول کریں۔ ہم سے کس نے کہا تھا کہ تقریر کریں‘ ہم نے خود کی۔ ہم سے کس نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی اس صورت میں قبول کریں‘ ہم نے قبول کی اور اس کے سامنے پیش ہوئے۔ جب آپ سپریم کورٹ میں جاتے ہیں اور ایک خط بھی لکھتے ہیں کہ آپ (سپریم کورٹ) جس طرح چاہیں فیصلہ کریں‘ کمشن بنائیں تو پھر جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ ناانصافی پر مبنی ہے تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ ہی ختم کرسکتی ہے۔ تو ہم سپریم کورٹ کے حوالے سے اتنے دور نہ چلے جائیں کہ سب دروازے بند کر دیں۔ تو غلط ہوسکتا ہے مگر اس کو بدنیتی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ میرا ذاتی مفاد قرار نہیں دیا جاسکتا انہوں نے کہا کہ اگر ناراض ہوتا جب نااہلی ہوئی تو ایم این ایز کا ایک طوفان تھا جو نالاں تھے۔ میں نے ایک ایک اینٹ میاں نوازشریف اور اس جماعت کے لیے رکھی ہے۔ اس وقت میرے پاس بے شمار وزراءایم این ایز آئے اور اب بھی آتے ہیں میں ان کو کہتا ہوں کہ پارٹی کے اندر رہنا ہے۔ پارٹی تو چھوڑنے والوں کی اکثریت میں سے میرے پاس آئے یا فون کیا‘ مگر جن لوگوں نے میری بات مانی ان سے کہا کہ پارٹی کے اندر رہوں‘ قانون سازی میں حکومت کو ووٹ دیا‘ میاں نوازشریف کے الیکشن کا وقت آیا تو کنونشن سینٹر میں موجود تھا۔ اس وقت کھڑے ہو کر میاں نوازشریف کے حق میں ووٹ دیا۔ میرے خلاف ہوتے تو اس کو ووٹ دیا اس سے بڑھ کر سینٹ کے الیکشن میں ووٹ دیا مجھے شدید تحفظات تھے ان امیدواروں پر جو سامنے آئے۔ مگر اس کے باوجود گیا اور پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیا۔چار اور اشخاص ہیں جو آپ کے سٹاف آفیسر تھے یہ ذاتی ملازم ہیں۔ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ سیاست سے نام کا بھی تعلق نہیں ہے۔ جب بھی پارٹی کو ضرورت ہوئی میں کھڑا رہا۔ انہوں نے کہا کہ کیا آج معیار یہ ہے کہ جو پرانے ساتھی ہیں ان کو ساتھ لے کر چلنا ہے یا جو خوشامد زیادہ کرتے ہیں ان کو ساتھ لے کر چلنا ہے میں تو ایک طرف ہو کربیٹھ گیا تھا۔ میں نے ساری زندگی انکے سیاسی بوجھ اٹھائے ہیں۔ نوازشریف کا بھی سیاسی بوجھ اٹھایا اور مسلم لیگ (ن) کا بوجھ بھی اٹھایا ہے مگر کسی کی جوتیاںاٹھانے والا نہیں ہوں۔ ساری زندگی نہ کسی کی جوتیاں اٹھائی ہیں اور نہ سیدھی کی ہیں۔ یہ تصادم کے راستے پر چل پڑے تھے۔ میں ہر اس میٹنگ میں گیا جہاں مدعو کیا گیا تھا۔ بن بلائے کسی میٹنگ میں نہیں گیا۔ ایک میٹنگ میں میرا ایک گھنٹے انتظار کیا گیا۔ عدلیہ کے خلاف پارٹی سے بیان دلانا چاہتے تھے اور میرا فوٹو چاہتے تھے۔ عمران خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں یہ میرے لیے باعث عزت ہے کہ بڑی پارٹی کے راہنما مجھے اپنی پارٹی میں آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مگر اس وقت میں پارٹی میں کھڑا ہوں ۔ چوہدری اعتزاز احسن نے اپنی پارٹی سے اختلاف رائے کیا۔ میاں رضا ربانی نے ایک سے زائدبار کہا حامد خان نے کہا ان کے ساتھ پارٹیوں نے وہ رویہ نہیں رکھا جو میرے ساتھ رکھا گیا۔ میر ے ساتھ کیا ہوا۔ پہلے میاں صاحب اور بیٹی طعنہ زنی میں مصروف رہے۔ کبھی شعر کے ذریعے اور کبھی ریمارکس کے ذریعے ‘ اس پر میں نے ردعمل دیا۔ وہ راستہ تو بندہوگیا۔ پھر ایک طریقہ شروع ہوگیا۔ ان کے ذاتی ملازم جس نے کبھی تو الیکشن نہیں لڑا۔ ان صاحب نے پی پی پی دور میں نصراللہ خٹک کے پاس ملازمت کی‘ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو یہ پارٹی چھوڑ گئے‘ جب میاںنوازشریف پر برُا وقت آیا تو انہوں نے لندن میں سیاسی پناہ لے لی‘ آج یہ ان کی گاڑی میں بیٹھتے ہیں اور جاتی امراءمیں بھی موجود ہوتے ہیں وہ جب بھی نکلتے ہیں ریمارکس دیتے ہیں‘ ایسی ایسی باتیں کہیں جو تضحیک کے زمرے میں آتی ہیں۔ ” یہ پارٹی چھوڑتا کیوں نہیں ہے “ ٹکٹ اس کو نہیں ملے گا‘ یہ اپنے دوست عمران خان سے جاکر کیوں نہیں مل لیتا‘ اس نے ڈان لیکس میں مجھے پھنسوایا۔ ان کے سوشل میڈیا کے ذریعے میرے خلاف روز ایک نئی کہانی ‘بدگمانی کی گئی۔ ظاہر ہے کہ ایک حد ہوتی ہے۔ میں نوازشریف سے بھی کہتا ہوں اور ان کے پیاروں کو بھی کہتا ہوں کہ میں نے 34سال پارٹی اور ان کے ساتھ وفاداری دکھائی۔ ان کا پیادہ کہتا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہے جب بھی سول اور ملٹری مسئلہ آیا میں نے نوازشریف کا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ خدا کے لیے اس وقت جب مشکل میںہیں تو سچ بولنا اور سننا بہت اہم ہوتا ہے۔ سچ سنیں‘ خوشامدیوں کے جھرمٹ میں فیصلے نہ کریں۔ ساری عمر نہ آپ کی خوشامد نہیں کی ہے مگر آج تک ساتھ کھڑا ہوں مگر جس انداز سے وہاں سے پیغامات کے ذریعے حملے ہورہے ہیں وہ ہضم کرنا مشکل ہے۔ میں نے تین حضرات کی بات کی۔ میں نوازشریف کو خط لکھا تھا یہ خط اس وقت لکھا تھا جب وہ دوبارہ پارٹی صدر بن گئے تھے۔ اس میں لکھا تھا کہ مجلس عاملہ کا اجلاس بلائیں تاکہ جو پارٹی کے معاملات ہوں خواہ وہ ڈان لیکس ہے کسی شخصیت کا رول یا دوسرے بیانیہ ہیں اس پر مشاورت کی جائے اور ایک فیصلہ کرکے اٹھیں‘ اس کاجواب اب تک نہیںآیا انہوں نے کہا کہ نہ پارٹی چھوڑی ہے اور نہ چھوڑنے کا ارادہ ہے اور نہ میرے کوئی عزائم ہیں‘پارٹی کو کس طرف لے کر جانا ہے تو یہ اب پارٹی قیادت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے لیے مشکل حالات ہیں‘ میں نے کہاتھا کہ پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ ہورہا ہے اور مشکل صورتحال بن رہی ہے۔ یہاں کسی کو احساس نہیں ہے۔ مگر حالات کو سدھارنے کی سب سے بڑی ذمہ داری میاں نوازشریف پر عائدہوتی ہے۔ وہ ایسی شخصیت ہیں جو تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے بڑے سیاستدان ہیں اگروہ خوشامدیوں کے جھرمت سے نکل کر ملک وقوم کے حق میں فیصلہ کریںگے تو پوری قوم ان کے ساتھ ہوگی۔ یہ جو خلائی مخلوق کے بیانات دئیے ہیں اس پر بے انتہا افسوس ہے۔ ہم حکومت میں ہیں مجھے گزشتہ روز عمران خان کے بیان پر بھی افسوس ہوا اس سے دنیا میں کیا پیغام جاتا ہے کہ فلاں سال فوج نے اس طرح کیا۔ فوج کچھ نہیں کرتی ہے جو اس وقت ملٹری لیڈر شپ ہوتی ہے اس کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان کی سیاست میں براہ راست بھی کردار رہاہے اور بالواسطہ بھی رہا ہے ۔ مجھے شاہد خاقان عباسی کے رول پر بھی مایوسی ہوئی۔ بطور وزیراعظم ان کو آرمی چیف کو بلانا چاہیے تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی‘ ڈی جی ایم آئی کو ہونا چاہیے تھا اور چار دیواری میںاندر جو ان کے پاس حالات ہیں ان کے سامنے رکھنا چاہیے تھے۔ اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے تھا وزیراعظم میٹنگ بلائیں۔ بلکہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ بلائیں اور اس مسئلے کو حل کرائیں۔ اگر ان کے پاس حقائق اور کوائف ہیں تو یہ مسئلہ ہینڈل ہوسکتا ہے۔ یہ چیزیں سیاسی بیانات کے لیے نہیں ہیں۔ یہ ڈان لیکس کو دہرایا جارہا ہے ڈان لیکس کی رپورٹ حکومت کے پاس ہے قوم کے سامنے لے آئیں ۔
چوہدری نثار