نثار کی پریس کانفرنس کے بعد مفاہمت کا راستہ دشوار تر ہو گیا
اسلام آباد (عترت جعفری) سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی پریس کانفرنسمیں میاں نواز شریف کو خود اپنی نااہلی کا ذمہ ٹھہرانے اور ان پر شدید نکتہ چینی پر پارٹی کے ترجمان کا ردعمل تو سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم سارے ایشوز کے پبلک ہو جانے کے بعد ”نثار بنام نواز شریف“ کا منطقی انجام مثبت ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ چودھری نثار علی خان کی مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے ساتھ حالیہ ہفتوں میں تواتر سے ملاقاتیں ہوتی رہی تھیں جس سے پارٹی کے ہمدرد حلقوں کو توقع تھی کہ سارا مسئلہ حل ہو جائے گا اور سب پہلے کی طرح باہم شیر و شکر ہو جائیں گے اور کوئی نہ کوئی راہ نکال لی جائے گی۔ مگر چودھری نثار علی خان نے پریس کانفرنس میں ہر چیز اور ہر ایشو کو روشنی میں لا کر کھڑا کر دیا۔ اب ’مفاہمت‘ کے خواہاں حلقوں کے لئے راستہ بنانے کا کام ناممکن نہیں تو دشوار تر ضرور ہو گیا ہے۔ چودھری نثار علی خان نے اپنی دھماکہ خیز پریس کانفرنس کے لئے پنجاب ہا¶س کی بجائے اسلام آباد میں نجی کوٹھی کو استعمال کیا جو ان کے دوست اور لندن میں مقیم پاکستانی راجا ناصر کی ملکیت ہے۔ چودھری نثار علی خان اپنا موڈ ریلکس اور خوشگوار ظاہر کرتے رہے۔ کسی اخبار نویس کی عینک کی تعریف کی اور کبھی میڈیا پرسن سے کہا کہ ”آپ سارے میرے دوست ہیں مگر بڑے ظالم ہیں۔ انہوں نے پریس کانفرنس کے مقام پر پہنچنے میں مشکل پیش آنے پر معذرت بھی کی۔ روایات کے برعکس انہوں نے کہا کہ سارے سوالات پہلے کر لیں اور وہ بعدازاں اپنے بیان میں ہی جواب دے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ویسے مجھے سارے سوالات معلوم ہیں کہ ”آپ مسلم لیگ میں ہوں گے؟ پی ٹی آئی میں شامل ہوں گے یا نہیں وغیرہ۔ سوالات سننے کے بعد چودھری نثار اٹھ کر چلے گئے اور چند منٹ کے بعد واپس آ کر اپنا بیان دینا شروع کیا۔ ممکنہ طور پر یہ حکمت عملی ”بیان“ کے نکات سے اٹھنے والے سخت سوالات کا سامنا نہ کرنے کے لئے اپنائی گئی۔ میڈیا پرسنز نے بھی پہلے سوالات نہ کرنے پر آمادہ ہو کر نئی روایت کو جنم دیا۔ چودھری نثار علی خان کے بیانیہ نے لاتعداد نئے سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ میاں نواز شریف یا عمران خان میرے متعلق سوال پر چپ ہو جاتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور‘ اظہار تفنن کے لئے یہ بھی کہا کہ عمران خان سے رابطہ کبوتر کے ذریعے ہوتا ہے۔
نثار/ پریس کانفرنس