سرمائے اور محنت میں توازن کی ضرورت
یکم مئی کچھ لوگوں کے نزدیک مزدوروں کا دن ہے اور اس دن چھٹی منائی جاتی ہے ، اس حوالے سے چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔یکم مئی کو جدید دنیا نے مزدوروں کا دن قرار دیا ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں یہ دن پاکستان میں بھی منایا جانے لگا ۔اس سے پہلے ہمارے ملک میں اس کا رواج نہیں تھا۔اس دن مزدور تنظیمیں سرخ جھنڈے تھا م کر ریلی نکالتی ہیں اور جلسے منعقد کرتی ہیں۔درحقیقت انیسویں صدی کے آخر میں جب سرمایہ دارانہ نظام جو اپنی جگہ بدترین استحصالی نظام تھا ،نے جب اپنی جڑیں یورپ اور امریکہ میںمضبوط کیں تو یکم مئی 1886ء کو شکاگو میں مزدوروں نے ہڑتال کی اور بڑی سطح پر مظاہر ہ کیا تھا۔3مئی کو یہ عمل دہرایا گیا جس پر مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوئے ۔4مئی کو دوبارہ پولیس اور مظاہرین میں تصادم ہوا جس میں کئی افراد زخمی ہوئے۔مزدوروں نے ان کے خون سے اپنے کپڑے رنگ دیئے تب سے سرخ رنگ مزدور تحریک کا سمبل بن گیا ہے۔جبکہ یہ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم کے خلاف مزدوروں کا ردعمل تھا۔لیکن بدقسمتی سے اس کے نتیجے میں بالشویک انقلاب برپا ہوا۔وہ بھی ایک بدترین ریاستی سرمایہ دارانہ نظام ثابت ہوا ۔حقیقت میں یہ سب کچھ افراط و تفریط کے مختلف مظاہر ہیں جو انسانوں کے بنائے ہوئے نظاموں کا شاخسانہ ہے۔سرمائے اور محنت میں حقیقی اور فطری توازن اسلامی نظام ہی نے قائم کیا ہے جو کوئی دوسرا نظام قائم کرہی نہیں سکتا ۔اس میںکوئی شک نہیں کہ اس وقت آج کے دور میں سرمایہ دارانہ نظام ہی حاوی ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ویسے بھی روس نظریاتی میدان میں شکست کھاچکا ہے اور اب وہ ایک بار پھر سپریم پاور بننے کے لئے کوشاں ہے۔یہ ایک الگ بات ہے۔لیکن وہ اپنے اصولوں پر تو قائم نہیں رہا ۔دنیا میں اس وقت تسلیم شدہ نظام یہی سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ایک خیال جو کسی کے ذہن میں آسکتا ہے جس کی علامہ اقبال نے بہت وضاحت کی ہے کہ اگر زمام کار مزدوروں کے ہاتھوں میںہو تو کیا ہوسکتا ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ زمام کار مزدوروں کے ہاتھوں میں دے کر انہیں اقتدار و اختیار دے دیا جائے تو کیا عدل و انصاف قائم ہوجائے گا؟حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کے لئے عادلانہ اور منصفانہ نظام اگر انسان بنائے گا تو وہ جس طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ اس کے مفادات کو پیش نظر رکھے گا اور دوسروں کے حقوق نظر انداز کرے گا۔یہاں تک کہ اگر مرد نظام بنائے گا تو عورت کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گا۔اسی طرح اگر عورت نظام بنائے گی تو وہ مرد کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گی۔سرمایہ دار ہمیشہ اپنے سرمائے کا تحفظ کرتا ہے اور نظام مزدور بنائے تو وہ بھی ظلم پر مجبور ہوگا۔حقیقی معنوں میں عادلانہ نظام صرف وہ بناسکتا ہے جو انسانوں کا خالق ہے ۔جو سب کی نفسیات اور ضروریات سے کما حقہٗ واقف ہے۔یہ وہ نظام ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں محمدعربی ﷺ کے توسط سے ہمیں عطا کررکھا ہے۔دور خلافت راشدہ اس کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔روشن ترین نظام کی حیثیت سے آج ساری دنیا اسے تسلیم کرتی ہے۔اللہ کا دین کہاں قائم ہے؟سارا نظام سودی معیشت پر مبنی ہے ۔ سودی معیشت کے بارے میں قرآن وسنت میں کیا احکامات ہیں۔ آپ کے عائلی قوانین غیر اسلامی ہیں۔شیطان اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔ معاشرتی سطح پر شیطانی تہذیب یہاں مسلط ہے۔ایک بڑا مغالطہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ دور خلافت راشدہ میں اسلام تھا ، اس کے بعد ملوکیت آگئی۔دور خلافت راشدہ کے بعد بھی نطام قائم رہا ہے البتہ اوپری سطح پر خلیفہ کا تقرر کس طرح ہوگا ، اس حوالے سے موروثیت آگئی۔لیکن معاشی ، معاشرتی نظام ، عائلی نظام اور قوانین سب رائج رہے ہیں۔بتدریج اسلام سے دوری کا معاملہ چلتا رہا ساڑھے سات سو سال تک مسلمان زمین پر مسلسل سپریم پاور رہے ہیں۔ہم اپنی روشن تاریخ سے بالکل غافل ہیں۔ آج کا مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ ابتدائی تیس سال کے بعد زوال ہی زوال ہے۔ساڑھے سات سو کے مذکورہ دور کے بعد بھی پونے پانچ سو سال تک ترکان عثمانی اور پھر مغلوں کے دور میں بھی عدالتوں میں مفتی اور قاضی ہی ہوا کرتے تھے۔اسلامی قوانین رائج تھے۔اوپر کی سطح پر گڑبر ضرور تھی۔جب تک ہم اسلامی نظام کی طرف نہیں لوٹیں گے ، ہماری ذلت و خواری میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔اس میں کمی کوئی گنجائش نہیں ۔