ہر آنے والی حکومت نے بجلی کے بحران کیلئے بلند بانگ دعوے کیے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد اس مسئلہ سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور ملک ازسرنو روشنی کی راہوں پر گامزن ہوگا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان دعوﺅں کی قلعی کھل گئی۔ جب حالات اور واقعات نے ثابت کیا کہ دراصل مسائل اتنے زیادہ آسان نہیں ہیں کہ اسے چند ہفتوں میں حل کرکے ملک کو استحکام کی راہوں پر گامزن کیا جاسکے۔ کسی رہنما سے سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ کیا ہے۔ غیر ملکی سازشیں انہوں نے جواب دیا اور اقتصادی ناہمواری کی وجوہات جب ان سے پوچھا گیا تو اس پر بھی انہوں نے جواب دیا کہ غیرملکی سازشیں۔ میں نے اپنے کسی کالم میں لکھا تھا کہ یہ وہ جواب ہے کہ آئندہ پچاس سالوں میں اسی جواب سے کام چلایا جاسکتا ہے۔ امن‘ سکون اور استحکام کے لئے ضروری ہے کہ عوام کے مسائل کا سنا اور حل کیا جائے۔ شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہ ایک بادشاہ دریا کے سفر کیلئے روانہ ہوا‘ وزراءکے علاوہ ایک درباری بھی ہمراہ ہوگیا۔ جب بادشاہ کشتی میں سوار ہوا تو درباری نے پانی کے خوف سے شور مچانا شروع کر دیا۔ بادشاہ کا مزہ کرکرا ہوگیا‘ اس نے وزیر سے پوچھا کہ اب کیا کیا جائے۔ وزیر نے کہا کہ میں کوئی حل سوچتا ہوں۔ اس نے درباری کو پانی میں تین چار ڈبکیاں لگوائیں۔ اب صورتحال یہ تھی کہ درباری خاموشی سے کونے میں جاکر بیٹھ گیا۔ عوام تو پہلے ہی پیٹ کی دوذخ بھرنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں احساس کہاں کہ ان کے اردگرد کیا ہو رہا ہے۔ اس پر طرہ¿ یہ کہ لوڈشیڈنگ کے عذاب نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ کسی کالم نگار نے لکھا کہ ملکی ترقی اس گھوڑے کی مانند ہے جو اقتصادیات کی شاہراہ پر سر پٹ دوڑتا ہے۔ کسی بھی جذبے کو متحرک کرنے کیلئے اس کو مہمیز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا
کس نے کیا مہمیز ہوا کو
شاید اُن کا آنچل ہو گا
درحقیقت ملکی ترقی کے تیز رفتار گھوڑے کو مہمیز کرنے کیلئے توجہ‘ نیک نیتی اور حب الوطنی جیسے عناصر کی ضرورت ہے وگرنہ ایک صحافی نے تو یہ بھی لکھا کہ اگر یہ عناصر موجود نہ ہوں تو حکومت اور گدھا گاڑی چلانے میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نہ صرف انسانی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ اس کا براہ راست اثر قومی معیشت کو بھی پہنچتا ہے۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا واقعی پاکستان توانائی کے خزانوں سے محروم ہوچکا ہے یا بجلی پیدا کرنے کیلئے ہمارے پاس متبادل نظام موجود نہیں ہے۔ اٹھارہ سے بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کا مستقل حل اور جواب ناگزیر ہے۔ اس کا حل حکومتی طفل تسلیوں سے ممکن ہے بلکہ اس کے لئے عملی منصوبہ جات کی ضرورت ہے جس کیلئے چھوٹے اور بڑے ڈیمز کی تعمیر‘ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت‘ سیاسی کشمکش کا خاتمہ اور حب الوطنی کے جذبے کو ابھارنا شامل ہے۔ حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ پانچ سالہ ڈیمز ایمرجنسی نافذ کرکے تمام چھوٹے بڑے ڈیمز کی تکمیل ضروری ہے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہم نے کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو ”کھوہ کھاتے“ میں ڈال دیا ہے‘ اگر اس پر عملدرآمد ہوتا تو پاکستان کو 6.1ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جاتی۔ ایک مالیاتی عالمی رپورٹ کے مطابق بھارت کا ڈیمز پر ڈیمز بنانا مسلسل آبی ڈاکہ زنی ہے۔ شاید ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت کی اس آبی دہشت گردی سے پاکستان کی 60فیصد کھڑی فصلیں متاثر ہوتی ہیں اور معیشت کو اربوں کا نقصان ہوتا ہے۔ 1991ءکے ریکارڈ کے مطابق پاکستان کو پانی کی وافر مقدار کیلئے ہمیں ڈیمز کی شدید ضرورت تھی۔ ہم نے بجلی پیدا کرنے کیلئے "IPPS" کے ذریعے تھرمل بجلی کے پیاور پلانٹ قائم کرنے تھے لیکن ان پاور پلانٹ کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کا عذاب عوام پر بم بن کر گرا جس کا آج ہم بری طرح شکار ہیں۔ بھارت نے سندھ طاس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بگلیہار ڈیم بنایا تو پاکستان کا دو لاکھ ایکڑ فٹ پانی کم ہوگیا۔ پاکستان کے تین بڑے ذخائر تربیلا‘ منگلا اور چشمہ بیراج میں پانی کی سطح اس قدر کم رہ گئی ہے کہ 6700 سے کم ہوکر 1800 میگاواٹ رہ گئی ہے۔ ہم نے اگر بجلی کے اس بحران پر قابو نہ پایا تو یہ مسئلہ مستقل مسئلہ کی حیثیت اختیار کرسکتا ہے۔ پاکستان میں ہر حکومت نے بڑے ڈیمز کے کھوکھلے دعوے کیے اور اپنی سیاست چمکائی اور بڑے ڈیموں کے نام پر عوام سے اربوں کے ٹیکس وصول کیے لیکن اس کے باوجود ملک اندھیروں میں ڈوبا رہا۔ بھارت کی آبی جارحیت اور پاکستان کو صومالیہ بنانے کی سازش کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ان اقدامات کی ضرورت ہے کہ پانی کے بحران پر جلد ازجلد قابو پایا جاسکے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024