بے گناہ بے خبر پاکستانی ثنااللہ پر ظلم کا پہاڑ توڑنے والے بھارتی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کی انتہا کر رہے ہیں۔ سربجیت سنگھ کی بہن نے بہت جوش و خروش سے کہا ہے کہ انصار برنی نے ہم سے 25 کروڑ روپے مانگے تھے۔ نجانے اُس نے کشمیر سنگھ کی رہائی کے لئے کتنے لئے ہونگے۔ بھارتی میڈیا جو خوفناک اور شرمناک پروگرام کر رہا ہے پاکستان میں پیسہ چلتا ہے ان کے بقول پاکستانی عدالتی نظام بھی کرپٹ ہے۔ انہوں نے ایک امریکی کی یہ بات بھی بار بار دہرائی ہے کہ پاکستانی تو ایک ڈالر کے لئے اپنی ماں بیچ دیتے ہیں۔ مادر وطن کو ماں دھرتی بھی کہتے ہیں۔ انہیں اپنی ماں دھرتی بیچتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی۔ ہمارے سیاستدان حکمران بھارت نواز میڈیا اور نام نہاد دانشور اور این جی اوز چلا کے فنڈ کھانے والے اپنے وطن کا سودا کرنے سے بھی نہیں کتراتے نہیں شرماتے۔ افسوس یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جو بھی قیمت لگائی مگر میرے وطن کی قیمت کیوں سستی لگائی۔ یہ لوگ ”پاکستان میں رہ“ کر پاکستان کے خلاف معاملات کرتے ہیں۔
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
انصار برنی پاکستانی جھنڈے والی کار میں بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کو کوٹ لکھپت جیل سے واہگہ بارڈر تک لے کے گیا تھا۔ اس نے بھارت جا کے انصار برنی کے خلاف بات کی تھی۔ یہ تو اچھا کیا مگر پاکستان کے خلاف کیوں بات کی۔ تب بھارت نے انصار برنی کو ویزہ دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ دوسرے بھارتی جاسوس اور دہشت گرد سربجیت سنگھ کو ملنے کے لئے پاکستانی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کوٹ لکھپت جیل آیا تھا۔ یہ پاکستان کی رسوائی تھی اور ہمارے حکمرانوں کی بے حمیتی تھی۔ بھارت اس واقعے کو بھی بار بار بیان کر رہا ہے کہ سربجیت سنگھ دہشت گرد تھا تو پاکستانی وزیر قانون اسے کیوں ملنے گیا تھا۔ حافظ حسین احمد نے فاروق ایچ نائیک کے بارے میں بہت معنی خیز بات کی ہے۔ ”فاروق نائیک صدر زرداری کی نائیکہ ہے“۔ نائیکہ کی تشریح میں مجھے بازار حسن جانا پڑے گا۔ بازار سیاست بازار صحافت اور بازار حسن میں فرق مٹ رہا ہے۔ تینوں کی عصمت اور عزت کی حفاظت ہمارا فرض ہے اور ہم اپنے ہر فرض سے غافل ہو گئے ہیں۔
سربجیت سنگھ ایک دہشت گرد تھا۔ اس نے خود اس کا اعتراف کیا تھا وہ وڈیو اب بھی محفوظ ہے بے بصیرت حکمرانوں سے میری اپیل ہے کہ وہ بار بار اسے ٹیلی کاسٹ کریں۔ ہمارے حکمران اور صحافی بھارت کے معاملے میں کیوں رعایت کرتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اب ہم امریکہ سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا بھارت سے ڈرتے ہیں۔ اسے غیرت مند لوگ کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ وہ تو بھارت سے کرکٹ میچ ہارنا برداشت نہیں کرتے۔ جبکہ ہمارے حکمران نااہل وزیراعظم گیلانی اور مشکوک وزیر داخلہ رحمان ملک بھارت کو کرکٹ میچ جتوانے کیلئے بھارت گئے تھے۔ میں نے لکھا تھا کہ جنرل ضیاءنے کرکٹ ڈپلومیسی ایجاد کی تھی۔ آج کے حکمرانوں نے کوڑا کرکٹ ڈپلومیسی پہ انجام کر دیا ہے۔ ہمارا کچھ میڈیا مسلسل یہ ثابت کرتا رہا ہے کہ سربجیت سنگھ دہشت گرد نہیں ہے۔ ایک ”سپائی“ ہے۔ سپائی جاسوس کو کہتے ہیں۔ یہ ہر کہیں ہوتے ہیں۔ ایک غیر ملکی میڈیا سے صحافی منصور علی خان نے سربجیت سنگھ کے لئے پوچھا تھا تو ہمارے ایک نجی ٹی وی چینل سے کہا گیا کہ وہ دہشت گرد نہیں ہے بلکہ ایک جاسوس ہے۔ اس ٹی وی چینل نے اپنی ٹیم بھیج کے یہ ثابت کیا تھا کہ اجمل قصاب پاکستانی دہشت گرد ہے۔
سربجیت سنگھ نے فیصل آباد اور لاہور میں جو دھماکے کئے تھے۔ اس میں 14 پاکستانی خواتین و حضرات مارے گئے تھے۔ جن کے لواحقین پاکستانی حکمرانوں سے رو رو کر اپیلیں کرتے رہے کہ سربجیت سنگھ کو سزا دو۔ حکمران اتنے بزدل اور مصلحت پسند غلامانہ ذہنیت کے مالک ہیں کہ وہ نہ تو سربجیت کو پھانسی دے سکے نہ اسے رہائی دے سکے۔ وہ بھارتی اور پاکستانی دونوں سے ڈرتے رہے۔ اب بھی قیدیوں نے سربجیت سنگھ کی اشتعال انگیز بات پر لڑائی کے دوران اُسے زخمی کیا اور وہ مر گیا۔ نام نہاد قائدین سے کچھ نہ ہوا۔ قیدیوں نے غیرت کر لی۔ سربجیت سنگھ نے سپریم کورٹ سے سزائے موت کی توثیق کے بعد پانچ بار رحم کی اپیلیں کیں جو مسترد ہو گئیں۔
سربجیت سنگھ کے ساتھ جیل میں خصوصی طور پر اچھا سلوک کیا جاتا تھا۔ زخمی ہونے کے بعد اسے پروٹوکول اور سکیورٹی دی گئی جو صدر مملکت کو بھی نہیں ملتی۔ اس کے گھر والوں کو فوری طور پر ویزے دئیے گئے۔ میڈیا کے سامنے اس طرح یہ خواتین چیختی چلاتی رہیں کہ سربجیت پر کوئی انوکھا ظلم جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا اس کیلئے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور لشکر طیبہ کو ملوث کر رہا ہے۔ جس طرح اس کی لاش کو پاکستان سے بھیجا گیا۔ گاڑیوں کا قافلہ اتنا زیادہ تھا کہ شمار کرنا محال تھا۔
بھارت جا کے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے کا سیلاب آ گیا۔ پاکستان کو خوب بدنام کیا گیا۔ دنیا والوں کو انہوں نے یہ تاثر دیا کہ پاکستانی ظالم ہیں جنہوں نے ایک ”شریف بھارتی قیدی“ کے ساتھ تشدد کی حد کر دی۔ اس کی آخری رسومات میں راہول گاندھی بھی آیا۔ وہ سیاست چھوڑ بیٹھا ہے مگر پاکستان کے خلاف سیاست تو ہندوﺅں کا دھرم ہے۔ اس ہٹ دھرمی کی انتہا پاکستان کے خلاف مسلسل ہو رہی ہے۔
سربجیت نے پاکستان میں دہشت گردی کی کہ جب ابھی امریکہ میں نائن الیون نہیں ہوا تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت دہشت گردی کا بانی ہے۔ وہ صرف پاکستان میں دہشت گردی کراتا ہے۔ اجمل قصاب بھی ان کا دہشت گرد تھا۔ بھارت اور امریکہ اپنے مطلب کے لئے جسے استعمال کرتے ہیں اُسے مار بھی دیتے ہیں۔ پاکستانی حکمران جو قتل ہوئے۔ پہلے وہ امریکہ کے لئے کام آئے۔ پھر مقتول ہوئے۔ جنرل ضیا سے بڑا محسن امریکہ کا کون ہو گا۔ مگر امریکہ جنرل ضیا سے ڈرتا تھا۔ بھٹو سے بھی ڈرتا تھا۔ بھٹو پاکستان اور عالم اسلام کو ناقابل تسخیر قوت بنانا چاہتے تھے۔ جنرل ضیا روس کے بعد بھارت کو مزا چکھانے والے تھے۔ امریکہ نے پاکستان کے احسانات کے باوجود ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا ہے۔
دہشت گرد سربجیت کا بدلہ لینے کے لئے ایک سابق فوجی قیدی نے ثنااللہ کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کلہاڑیوں سے مارا۔ گارڈ اور جیل کا عملہ دیکھتا رہا۔ بزرگ ثنااللہ غلطی سے سیالکوٹ بارڈر پار کر گیا تھا۔ اُسے بھارتی ظالم منصفین نے عمر قید کی سزا دی۔ یہ ایسی ہی مضحکہ خیز سزا ہے جو نام نہاد امریکی عدالت نے امریکہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر عافیہ کو دہشت گردی کے جرم بے گناہی میں 85 سال کی قید کی سزا سنائی۔ ساری دنیا نے لعن طعن کی۔ کیا سربجیت اور ثنااللہ کا جرم ایک جیسا ہے؟ مگر پاکستانی حکومت اور میڈیا اتنی بزدلی کیوں دکھاتا ہے۔ میں اپنے میڈیا سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں سچ کا ساتھ دیں اور پاکستانی میڈیا بن جائیں۔
بھارت دوستی میں امن کی آشا والوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ بھارت کبھی ان سے بھی وفا نہیں کرے گا۔ برادرم امتیاز عالم سیفما کے زیر اہتمام اجلاس بلائے اور بھارت کی مذمت کرے۔ پاکستانی حکمرانوں سے تو پاکستانی نگرانوں کی پالیسی اچھی ہے۔ نگران وزیراعظم کھوسو صاحب نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے احتجاج کیا۔ نگران وزیر داخلہ ملک حبیب نے بھی سفارتی سطح پر بہت مضبوط موقف اختیار کیا۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے زخمی پاکستانی قیدی ثنااللہ کے لواحقین کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ ثنااللہ کے بیٹے کو ملازمت دی۔ اہلخانہ کو پانچ لاکھ اور رہائش دی۔ آخر وہ صحافی ہیں۔ صحافت اور سیاست میں فاصلے مٹ گئے ہیں مگر کچھ فیصلے بڑے حوصلہ افزا ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024