آج کل ٹیلی ویژن پر نعروں، للکاروں اور ترانوں کی بھرمار ہے ایک ہی اشتہار ہر چینل پر بار بار دیکھ کر کوفت محسوس کرنا فطری عمل ہے۔ پیپلز پارٹی ماشااللہ پانچ سال پورے کرچکی عوام کو اُمید تھی کہ بے شمار زر اکٹھا کر لینے کے بعد اب پارٹی رہنما اور کرتا دھرتا آرام فرمائیں گے۔ مگر ایسا بالکل نہیں۔ زرداری بظاہر خاموش ہیں کہ کہنے کو کچھ نہیں، بہانہ دہشت گردی کا ہے۔ اس طرح سے ہمدردی بھی سمیٹ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس کارکردگی کے حوالے سے کوئی نعرہ نہیں اور ناکامی کو چھپانے اور کچھ عزت باقی رہ جانے کیلئے دن رات ہر چینل پر بےنظیر اور بھٹو کی شہادت کے بین نما نغمے بار بار چلا کر لوگوں کی منت کرتے نظر آتے ہیں۔ بے چارے بھٹو خاندان کو قبر میں بھی چین نصیب نہیں۔ جبکہ ان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ نہ تو آج تک بینظیر کے قاتلوں کا پتا چلایا جا سکا اور نہ ہی اُس کے مقدمے کی بھرپور پیروی کی گئی علاوہ ازیں بھٹو اور بینظیر کے قریبی ساتھیوں کو پارٹی سے بے دخل بھی کر دیا گیا۔ اس کے باوجود وہ بھٹو اور بینظیر کو اپنی صدائے کشکول بنا کر اپنا اُلو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پی پی کے پاس اب صرف مردوں کا واسطہ ہی رہ گیا ہے۔ نوجوان اور نازک اندام شہزادے بلاول پر بھی نہ انہیں بھروسہ ہے نہ ہی پاکستان کی ستائی ہوئی غریب عوام کو۔ ان منت بھرے شہادت کے گیتوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے کسی کارنامے کو اجاگر کرنے کی بجائے وہ ن لیگ کے خلاف ایسی خطرناک اشتہار بازی میں بھی مصروف ہیں جو نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان کی یکجہتی اور سالمیت کے خلاف بھی ایک بھرپور وار ہے۔ یہ درست ہے کہ پی پی کا اعمال کا خانہ یکسر خالی ہے اور آخری دنوں کے ایک دو عوامی اور ملکی مفاد کے سمجھوتے عوام پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں دکھا سکے۔ مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنے وطن سے ہی دشمنی شروع کر دی جائے آج کل ان کا واحد مقصد یہی ہے کہ کسی طرح ن لیگ بھی پسپا ہوجائے بھلے کوئی بھی جیتے۔ حالانکہ ن لیگ نے گذشتہ دور میں بھرپور سپورٹ نے انھیں مضبوط کیا۔ مگر وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ اب وہ ذاتیات پر اُتر آئے ہیں اور اخلاقیات کی حدوں کو بھی کراس کرتے جا رہے ہیں۔جہاں تحریک انصاف کو یہ Advantage ہے کہ ابھی عوام کے سامنے ان کی کار کردگی کی کوئی رپورٹ نہیں اس لیے وہ دیگر پارٹیوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے خواب بیچنے میں مصروف ہیں مگر اندر کھاتے کچھ مختلف نہیں بس سٹال پر مختلف کا نعرہ ضرور موجود ہے۔ باری کا جملہ سب سے شدید تر ہے۔ اسطرح دنیا کی تمام بڑی جمہورتیوں میں دو یا تین پارٹیاں ہی ہوتی ہیں امریکہ، بھارت اور برطانیہ بھی اسی زد میں آتے ہیں بجائے اس کے کہ اپنے منشور سے لوگوں کو رام کیا جائے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ صرف دوسروں کی غلطیاں اچھالی جائیں ۔ذرا سوچئے الطاف حسین کے بارے میں ثبوتوں کا بریف کیس وہ جس جذبے کے ساتھ لیکر اپنے سسرال یعنی برطانیہ گئے تھے اس سے کیسے پھرے کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح کے بے شمار وعدے اور دعوے سے مُکر کر وہ خود کو شفاف سمجھتے ہیں اور بار بار باری کا طعنہ دیتے ہوئے یہ نہیں سمجھتے کہ یہ تذلیل وہ دو جماعتوں کی نہیں بلکہ عوام کے انتخاب کی کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان کے حالیہ اکثر فیصلوں سے عمران خان ایک سیاستدان کی بجائے ایک ڈکٹیٹر کے روپ میں سامنے آ رہے ہیں جس کے باعث پارٹی سے وابستہ انٹکچوئیل اور مخلص کارکنوں سمیت بہت سے دیرینہ دوست افسردہ اور پریشان ہوئے ہیں اگر ابھی یہ حال ہے تو پاور میں آ کر وہ خاک کسی کی سُنیں گے۔ خُدا کرے اس ملک میں جو بھی برسرِ اقتدار آئے وہ اپنے وعدوں کا پاس کرے۔ اور سیاسی جماعتیں بھی ہوش کے ناخن لیں کہ آخر کار ہم سب ایک ہی ملک کے باشندے ہیں نفرتوں اور مخالفتوں کا سلسلہ اس قدر نہیں بڑھانا چاہیے کہ غیروں کی محتاجی اور مداخلت کا سامنا ہو۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38