وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ‘ صدر کی جانب سے آج قومی اسمبلی کے اجلاس کی طلبی اور الیکشن کمیشن کا اجلاس
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم عمران خان کے اعتماد کے ووٹ کیلئے آئین کی دفعہ 91‘ شق 7 کے تحت آج بروز ہفتہ دوپہر سوابارہ بجے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ اس سلسلہ میں صدر مملکت کی جانب سے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے جس میں کہا ہے کہ وزیراعظم بظاہر ہائوس میں اکثریت کھو چکے ہیں اس لئے وہ ہائوس میں اعتماد کا ووٹ لیں۔ قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے جمعرات کی شام سرکاری و نجی الیکٹرانک میڈیا پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے ہفتے کے روز خود بھی قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا اور کہا کہ جن ارکان کو ان پر اعتماد نہیں ہے وہ ہائوس میں ان کیخلاف ہاتھ کھڑا کریں اور کھل کر کہیں کہ وہ میرے ساتھ نہیں ہیں۔ میں انکی عزت کروں گا اور ہائوس کا اعتماد کھو دیا تو اپوزیشن بنچوں پر جا کر بیٹھ جائوں گا۔ انہوں نے سینٹ کے الیکشن میں اسلام آباد کی نشست پر اپنی پارٹی کے 17, 16 ارکانِ قومی اسمبلی کو اپنے ووٹ فروخت کرنے کا موردالزام ٹھہرایا اور کہا کہ یہ لوگ پیسے لے کر اپنی آخرت تباہ نہ کریں۔
عمران خان نے اس حوالے سے پاکستان الیکشن کمیشن کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے مجرموں کو بچایا اور جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔ الیکشن کمیشن نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کی اور قوم نے دیکھا کہ ایک کرپٹ آدمی کو کیسے پیسے کے زور پر سینیٹر منتخب کیا گیا۔ انکے بقول حفیظ شیخ کو ہرانا مجھ پر عدم اعتماد کی تلوار لٹکانا ہے مگر میں بلیک میل ہوں گا نہ کرپٹ لوگوں کو این آر او دوں گا۔ انہوں نے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی قیادت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ چاہے میں اپوزیشن میں بیٹھوں یا اسمبلی سے بھی باہر ہو جائوں‘ میں نے آپ میں سے کسی کو نہیں چھوڑنا جب تک آپ اس ملک کا پیسہ واپس نہیں کرینگے۔ میں اگر اقتدار سے باہر بھی ہو جائوں تو اس قوم کے لوگوں کو آپ کی کرپشن کیخلاف باہر نکالوں گا‘ اقتدار گیا تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے کوئی جائیدادیں اور فیکٹریاں نہیں بنائیں‘ جب تک زندہ ہوں قانون کی بالادستی کیلئے جدوجہد جاری رکھوں گا۔
ہائوس کے اندر وزیراعظم پر اعتماد یا عدم اعتماد آئین کے تقاضے کے تحت بے شک پارلیمانی جمہوریت کا حصہ ہے‘ اگر وزیراعظم بادی النظر میں ہائوس کا اعتماد کھو بیٹھیں تو آئین کی دفعہ 91‘ ذیلی دفعہ 7 کے تحت صدر مملکت وزیراعظم کو اعتماد کا دوبارہ ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں جیسا کہ گزشتہ روز صدر مملکت کی جانب سے اس سلسلہ میں نوٹیفکیشن جاری کرکے وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا ہے تاہم وزیراعظم کا ازخود ہائوس میں دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کرنا ہماری پارلیمانی جمہوری تاریخ کا اچھوتا اور نادر واقعہ ہے۔ انکے اس اعلان میں انکے اعتماد کی جھلک اور کرپشن کلچر کو تبدیل کرنے کی لگن بدرجہ اتم موجود ہے۔ انہیں ازخود اعتماد کا ووٹ لینے کی اس لئے بھی ضرورت نہیں تھی کہ ہائوس میں سرکاری بنچوں کی عددی اکثریت بدستور موجود ہے جو سینٹ کے انتخاب میں اسلام آباد کی خاتون نشست پر حکمران پی ٹی آئی کی خاتون امیدوار کو پڑنے والے 174 ووٹوں سے بخوبی ظاہر ہو رہی ہے تاہم وزیراعظم کو اپنے امیدوار عبدالحفیظ شیخ کی ناکامی کے حوالے سے اپنی پارٹی کے ارکان کے مبینہ طور پر فروخت ہونے کا قلق ہوا جس کی بنیاد پر وہ سینٹ الیکشن میں خفیہ رائے شماری کو جمہوری نظام کیلئے تباہ کن قرار دے رہے ہیں اور خفیہ رائے شماری سے سینٹ انتخابات کے ذریعے ملک میں پھیلائے گئے کرپشن کلچر سے سسٹم کو بچانے کی فکرمندی رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے انکے جذبے کی سچائی اور دیانت داری کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے اور اس جذبے کی بنیاد پر ہی انہوں نے اپنی پارٹی کے 17, 16‘ ارکان کو فروخت ہونے کا موردالزام ٹھہرا کر ہائوس میں ازسرنو اعتماد لینے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا ہے جسے انکی پارٹی کے لوگوں کے علاوہ دوسرے سیاسی اور دانشوروں کے حلقے بھی انکی جرأتمندی سے تعبیر کر رہے ہیں تاہم بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم نے اپنی پارٹی کے 17, 16‘ ارکان قومی اسمبلی پر ووٹ فروخت کرنے کا الزام لگانے کے بعد ہائوس میں دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کرکے اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے کیونکہ انہی ارکان نے ان کیخلاف ووٹ دے دیا یا وہ اجلاس میں شریک نہ ہوئے تو وزیراعظم ہائوس میں اپنی اکثریت کھو بیٹھیں گے۔ اس طرح اپوزیشن کو انکی حکومت کے خاتمہ کیلئے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے اور لانگ مارچ جیسی کوئی احتجاجی تحریک چلانے کا تردد بھی نہیں کرنا پڑیگا۔
وزیراعظم نے صرف اپنی پارٹی کے لوگوں کو ہی آزمائش میں نہیں ڈالا بلکہ الیکشن کمیشن کو بھی تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا بھی موقع فراہم کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے انکی تقریر اور متعدد وفاقی وزراء کی پریس کانفرنس کی بنیاد پر انہیں نوٹس جاری بھی کر دیئے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان الیکشن کمیشن کا اجلاس جمعۃ المبارک کے روز منعقد بھی ہو چکا ہے اس لئے آنیوالے حالات حکومت کیلئے سازگار نظر نہیں آرہے۔ اگر وزیراعظم نے آج ہائوس میں اعتماد کا ووٹ حاصل کر بھی لیا تو اپوزیشن انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیگی جو پنجاب اسمبلی سے عدم اعتماد کا آغاز کرنے کا پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے۔
الیکشن کمیشن بہرصورت آئین کے تابع ایک خودمختار ادارہ ہے جس کے آئین کی دفعہ 226 کے تقاضوں اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں سینٹ کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے تحت کرانے کے فیصلہ پر تنقید اسکی خودمختاری اور اسکے عدالتی اختیارات کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے جبکہ اپنی مرضی کے منافی کوئی فیصلہ صادر ہونے پر آئینی اداروں کو رگیدنا مناسب نہیں۔ ماضی میں بھی ایسی سوچ کی بنیاد پر ہی سسٹم میں خرابیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ وزیراعظم اور انکی حکومت کے مستقبل کا دارومدار بہرحال قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس پر ہے۔ خدا کرے کہ یہ جمہوریت کے تسلسل کیلئے بہتر نتائج کا حامل ہو۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38