پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے ۔ جنرل مشرف کے دور میں انکی کسان دوست پالیسیوں کے باعث پاکستان خوراک میں خودکفیل ہوگیا تھا لیکن اب ایک بار پھر حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث پاکستان کو آٹا اور چینی درآمد کرنی پڑی۔ ایک طرف تو غلط پالیسیوں کے باعث کسان کا معاشی استحصال ہورہا ہے تو دوسری جانب ملک میں خوراک کی قلت پیدا ہوجاتی ہے جس کے باعث بیرون ملک سے ناقص‘ غیر معیاری اور مہنگی گندم اور چینی درآمد کرکے ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے کیونکہ بیرون ملک سے ان چیزوں کی خریداری‘ شپمنٹ‘ ذخیرہ اندوزی‘ ٹرانسپورٹیشن سمیت ہر مرحلے پر بھاری کمیشن حاصل کی جاتی ہے۔
زرعی زمینوں پر بڑی بڑی رہائشی اسکیمیں اور صنعتی زونز کے آغاز سے ملک کا زیر کاشت رقبہ مسلسل کم ہورہا ہے اور زرعی زمینوں کو رہائشی صنعتی استعمال میں لانے کی یہی شرح جاری رہی تو مستقبل قریب میں ہی خدانخواستہ ملک کی خوراک میں خودکفالت ناممکن ہوجائیگی کیونکہ وقت کے ساتھ آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اور اسی تناسب سے خوراک کی پیداوار میں اضافہ بہت ضروری ہے جس کیلئے زیر کاشت رقبے میں اضافے کی پالیسی اختیار کی جانی چاہئے لیکن یہاں ملکی ضرورت کے برعکس تمام بڑے شہروں کے ساتھ زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیمیں اور صنعتی زونز کی تعمیرات چل رہی ہیں۔ ان اسکیموں میں بلڈرز کا زیادہ قصور نہیں ہے کیونکہ انہوں نے تو حکومت کی تعمیراتی انڈسٹری کیلئے ریلیف کی پالیسی سے فائدہ اٹھاکر کاروبار میں اضافہ کیا ہے لیکن حکومت کو چاہئے کہ زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیمیں اور صنعتی زونز کی تعمیر کو فوری طور پر روکے اور تمام بڑے شہروں کے ساتھ ایسی زمینیں موجود ہیں جو قابل کاشت نہیں ہیں اور انہیں رہائشی و صنعتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ پنجاب میں چکوال کے ساتھ کاوسیع علاقہ بنجر ہے اور تھل کا وسیع علاقہ رہائشی و صنعتی استعمال میں لایا جائے۔
وفاقی و تمام صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں فوری طور پر احکامات جاری کریں کہ کہیں بھی زرعی زمین پر رہائشی اسکیمیں و صنعتی زونز کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی اور رہائشی اسکیم و انڈسٹری صرف غیر آباد‘ بنجر زمین پر ہی تعمیر کی جاسکے گی۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں خواب خرگوش میں ہیں کہ مستقبل میں زرعی رقبے میں اضافہ کیسے کیا جائے؟ بلکہ موجودہ زرعی رقبے میں مسلسل کمی پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا۔ بلڈرز کو بھی چاہئے کہ اس معاملے میں ملکی مفاد کو پیش نظر رکھ کر زرعی زمینوں پر اسکیموں کے آغاز سے اجتناب کریں۔
اگر ہر علاقے میں بنجر زمین پر انڈسٹری بنائی جائیگی تو لوگوں کو دیہات سے بہت دور دراز جاکر بڑے شہروں میں روزی روزگار کیلئے دھکے نہیں کھانے پڑیں گے اور لوگوں کو گھروں کے قریب مناسب روزگار میسر آئیگا تو دوسری طرف بڑے شہروں پر آبادی و مسائل کا بے ہنگم دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ دنیا بھر میں باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے شہر آباد کئے جاتے ہیں لیکن یہاں راتوں رات تعمیرات ہوتی ہیں اور کچھ ہی عرصے میں سرسبز و شاداب وسیع زرعی رقبے پر رہائشی و صنعتی اسکیمیں بن جاتی ہیں۔بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ صورتحال یہ ہے کہ زرعی زمینوں پر سینکڑوں رہائشی کالونیاں و صنعتیںبے ہنگم طریقے سے بن چکی ہیں جس سے مسائل میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور اب یہ بات عام ہے کہ نہروں اور دریاؤں میں سیوریج کا پانی پھینکا جارہا ہے۔ دریائے راوی گندے نالے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ لاہور‘ میانوالی‘ ڈیرہ اسماعیل خان سمیت کئی شہروں میں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ آبپاشی کیلئے بنائی گئی نہروں میں لوگوں نے گھروں کی سیوریج لائنیں ڈال کر اس پانی کو زہر آلود کردیا ہے لیکن اس پر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکومت تو وہ ہوتی ہے کہ پہلی بار جو غلط کام کی جسارت کرے اسے سختی سے اسی دن کچل دیا جائے تاکہ دوسرے اس عمل کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں لیکن یہاں حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ پاکستان کے بہترین دریائی و نہری پانی کو زہر آلود کرکے رکھ دیا گیا ہے اور تمام متعلقہ سرکاری ادارے اور حکام اس پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے واٹر کمیشن بنایا لیکن اسکی تجاویز پر بھی اب تک کوئی عملدرآمد نہیں ہوا اور ملک کے پانی کے ذخائر زہر آلود کردیئے گئے ہیں۔ ایک طرف ہم زرعی زیر کاشت رقبے میں مسلسل کمی کرتے چلے جارہے ہیں تو دوسری طرف آبپاشی و دیگر ضروریات میں استعمال ہونیوالے پانی کو زہر آلود کرکے رکھ دیاہے۔ حکومتیں اور سرکاری ادارے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ اس سلسلے میں سنجیدگی سے تیز تر اقدامات اٹھائے جائیں اور نہ تو زرعی زمینوں پر کسی بھی صورت میں رہائشی اسکیموں و صنعتی زونر کی اجازت دی جائے اور ساتھ ہی ساتھ نہروں اور دریاؤں میں سیوریج کا پانی پھینکنے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔
یہاں موضوع سے ہٹ کر ایک نہایت ضروری بات تحریر کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے ایرانی پیٹرولیم مصنوعات پر سخت ایکشن کا اعلان ہوا ہے لیکن یہاں ایک آئل مارکیٹنگ کمپنی رجسٹرڈ کرانے کیلئے ایک آئل ٹینکر کی قیمت کے برابر رقم درکار ہے جس سے پاکستان میں آئل مارکیٹنگ کمپنی رجسٹرڈ ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے ان گنت آئل مارکیٹنگ کمپنیاں آگئی ہیں جن کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی اس انڈسٹری کا کوئی تجربہ ہے بلکہ وہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کے کاروبار اور فروغ سے راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں جس کاعکاس ملک بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کا موجودہ معیار ہے۔ اسی لئے حکومت فوری طور پر آئل مارکیٹنگ کمپنی کیلئے 10ارب روپے کی سیکورٹی لازمی قرار دے اور جو آئل مارکیٹنگ کمپنی بھی 10ارب روپے حکومت کو جمع کرانے میں ناکام رہے‘ ان کا وجود ختم ہونا چاہئے۔ اس اقدام سے ملک میں معیاری پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی یقینی ہوجائے گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024