آج وزیراعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ لے رہے ہیں۔ وہ کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام ہوتے ہیں یہ تو مکمل طور پر ایک مختلف بحث ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی ناکامی یا کامیابی سے عام آدمی کی زندگی پر کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ جو ان کے مخالف ہیں انہوں نے سینیٹ میں کامیابی حاصل کر لی اس کامیابی سے عام آدمی کی زندگی پر کیا فرق پڑا۔ سب پہلے جیسا ہے۔ وہی روز صبح جلدی جاگنا، سارا دن کام کرنا رات دیر سے واپس گھر آنا، نہ گھر والوں کے لیے وقت، نہ دوستوں کے لیے وقت، نہ کچھ سوچنے کے لیے وقت ملتا ہے نہ ہی سونے کے لیے مناسب وقت ملتا ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ ملک میں کوئی الیکشن ہوا ہے اور الیکشن کے نتیجے میں سینیٹ میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد بھی لوگوں کو امید تھی کہ ان کے بنیادی مسائل حل ہو جائیں گے لیکن حکومت کے اڑھائی سال گذرنے کے بعد تمام امیدیں دم توڑ گئی ہیں اب تو تبدیلی کسی ڈراؤنے خواب کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ اس تبدیلی سے اتنا ڈر پیدا ہو گیا ہے کہ لوگ کپڑے بدلتے، جوتا بدلتا، سڑک بدلتے، کروٹ بدلتے، چینل بدلتے حتی کہ پلیٹ بدلتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ تبدیلی سے لوگ اتنا ڈر چکے ہیں کہ جو ان کے پاس ہے وہ اسی پر رضامند ہیں، اسی پر خوش دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ نہ بدلنے کی وجہ یہ ہے لوگوں میں تبدیلی کے نام سے چھن جانے کا خیال ذہن میں آتا ہے یوں جو ان کے پاس ہے وہ اسی پر اکتفا کرنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔
اب سینیٹ انتخابات کو ہی لے لیں وہاں بڑی تبدیلی آئی ہے لیکن عام آدمی تبدیلی کا نام لیتے ہوئے بھی ڈر رہا ہے کہ کہیں جانے والے واپس ہی نہ لوٹ آئیں۔ تبدیلی نے اتنا خوفزدہ کیا ہے کہ لوگ بچوں کے بیگ تبدیل کرتے ہوئے بھی سوچتے ہیں کہ کہیں دھوکہ ہی نہ ہو جائے، لوگ گاڑیاں بدلتے ہوئے بھی ہزار مرتبہ سوچتے ہیں کہ گاڑی بدلوں اور نئی گاڑی چلنے سے ہی انکار کر دے۔ ایک دوست کو موبائل بدلنے کا بہت شوق تھا وہ ہر چند ماہ بعد موبائل بدل لیتا تھا اب گذشتہ ڈیڑھ سال سے ایک ہی موبائل استعمال کر رہا ہے۔ اس سے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے۔ کہنے لگا کہ یہ موبائل اچھا بھلا چل رہا ہے اسے بدل لوں نئے کا کیا بھروسہ چلے چلے نہ چلے نہ چلے۔ میں نے پوچھا کچھ عرصہ پہلے تک تو تمہیں موبائل بدلنے کی جلدی ہوتی تھی اب تم یکسر بدل گئے ہو ،کہنے لگا چودھری صاحب بدل نہیں گیا سدھر گیا ہوں عقل آ گئی۔ آپ دیکھ نہیں رہے کہ تبدیلی نے پورے ملک کا کیا حال کر دیا ہے۔ اگر مجھے کروڑوں لوگوں کی حالت دیکھ کر بھی عقل نہ آئے، میں سبق حاصل نہ کروں تو اپنا نقصان ہی کروں گا۔ ملک گیر تبدیلی سے عام آدمی کے لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں اس کا اخلاقی سبق یہی کہ تبدیلی کی خواہش نہ کریں اگر سکون چاہتے ہیں تو جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر چلنے دیں۔ بس یہی سوچ کر موبائل بدلنے کی عادت ہی بدل لی ہے۔ چودھری صاحب آپ بھی احتیاط کریں، خود بھی تبدیلی سے بچیں، گھر والوں کو بھی بچائیں اور کالم لکھ کر لوگوں کو بھی پیغام دیں کہ بھلا چاہتے ہیں تو تبدیلی سے دور ہی رہیں۔ میں نے کہا اچھا بھائی اگر تم اتنے دلائل دے رہے ہو تو تمہارا پیغام تو اپنے قارئین تک ضرور پہنچاؤں گا۔ تم واقعی سینیٹ میں تبدیلی سے خوش نہیں ہو، کہنے لگا سینیٹ کے ساتھ قومی اسمبلی میں بھی تبدیلی آ جائے میری بلا سے۔ مجھے سبق مل چکا کہ تبدیلی کا مطلب الٹ پلٹ کرنا ہوتا ہے اور وہ الٹ پلٹ اڑھائی سال پہلے کر کے دیکھ لیا تھا۔ بے گھروں کو گھر لے کے دینے گئے تھے اپنا گھر بچانا مشکل ہو گیا ہے، بیروزگاروں کو روزگار دینے لگے تھے اپنا روزگار بچانا مشکل ہو گیا ہے۔ بند کارخانے چلانے لگے تھے اپنے چلتے کارخانے کے بند ہونے کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ تبدیلی کے ایسے تباہ کن اثرات کے بعد میں جان گیا ہوں کہ زیادہ اچھل کود کے بجائے سنبھل سنبھل کر چلتے جائیں کچھ نہ کچھ بن ہی جائے گا۔ میں نے ان دلائل کوئی بھی جواب دینے کے بجائے دوست کا پیغام قارئین تک پہنچانے کا وعدہ نبھا دیا ہے۔
بات سینیٹ انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور آج قومی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کی ہو رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان ہدف حاصل کرنے کے لیے پرامید ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انہیں اعتماد کا ووٹ مل بھی جاتا ہے تو کیا اس سے عام آدمی کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ کیا یہ ملک صرف قومی اسمبلی اور سینیٹ اراکین کا ہے یا پھر یہاں بسے بائیس کروڑ عوام کا ہے۔ کیا وزیراعظم صرف اراکین سینیٹ و قومی اسمبلی کے وزیراعظم ہیں یا پھر بائیس کروڑ عوام کے وزیراعظم ہیں۔ اگر وہ اراکین قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل بھی کر لیتے ہیں تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ عوام کا بھی ان پر اعتماد بحال ہو گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے اگر وزراء عوام کے پاس جائیں اور سچی رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کریں تو اندازہ ہو گا کہ ہر دوسرا شہری ناخوش ہے، پریشان ہے، روزمرہ کے اخراجات میں الجھا ہوا ہے، بجلی، پانی اور گیس کے بلوں نے زندگی مشکل بنا دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اشیاء خوردونوش کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ مہنگا پیٹرول بونس میں مل رہا ہے۔ جن اراکین نے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دینا ہے کل کلاں عوام کے پاس ووٹ لینے کے لیے انہوں نے ہی جانا ہے۔ اگر عوام کی زندگی آسانی پیدا نہیں کریں گے، آسودگی نہیں آئے گی، زندگی میں کشش پیدا نہیں کریں گے، پریشانیوں سے نجات نہیں دلائیں گے تو جتنے مرضی اعتماد کے ووٹ لے لیں جب یہ اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی ووٹ لینے عوام میں جائیں گے اس وقت اندازہ ہو جائے گا کہ حقیقت کیا تھی اور وزیر اعظم ہاؤس میں کیا رپورٹ پہنچائی جاتی تھی۔ اس لیے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کریں، یہی اعتماد حقیقی طاقت ہے۔ یہی اعتماد فیصلہ کرتا ہے کہ آپ عوام پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں یا پھر عوام کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں فیصلہ آپ نے کرنا ہے تین چار سو لوگوں کا اعتماد جیتنا چاہتے ہیں یا بائیس کروڑ عوام کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔
حکومت کا الیکشن کمشن آف پاکستان کے ساتھ بھی ٹونٹی ٹونٹی میچ شروع ہو گیا ہے اور اس کا آغاز جارحانہ بلے بازی سے ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بیانات کی اننگز کا آغاز کیا ہے اور ان کی طرف سے شاٹس کے بعد الیکشن کمشن آف پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا ہے۔ اس جواب کے بعد وفاقی وزراء بھی باونڈری لائن سے تھرو کر کے رن آؤٹ کرنے کی کوشس کر رہے ہیں۔ کبھی آپ سترہ لوگوں کی حمایت حاصل کرتے ہیں اور کبھی وہ، اس میں برا منانے کی کوئی بات نہیں جیسا آپ نے جوڑ توڑ کیے ویسے ہی انہوں نے بھی کر لیے۔ گھوم پھر کر اس درجن ڈیرھ درجن نے ہی سب کو آگے لگا رکھا ہے۔ الیکشن کمشن نے اپنا آئینی کردار ادا کیا ہے اس پر کوئی پابندی نہیں تھی نہ ہی سپریم کورٹ نے اسے پابند کیا، نہ الیکشن کمشن وزیراعظم کو جوابدہ ہے۔ الیکشن کمشن نے آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کیا ہے۔ بحثیت وزیراعظم آپ کو اداروں پر تنقید کرنے کے بجائے اداروں کو بہتر کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے اور اپنی ناکامی بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ آپ سب مل کر بھی اس حوالے سے کوئی ترمیم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اپوزیشن نے آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے سے اجلاس کی کارروائی کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ حزب اختلاف کو بات چیت کے لیے اچھا مواد ضرور مل جائے گا اس فیصلے سے انہوں نے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے تنقید کا راستہ بھی کھلا رکھا ہے دونوں صورتوں میں اپوزیشن کے پاس کھیلنے کے لیے بہت کچھ ہو گا۔ وہ اجلاس کی حیثیت کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کریں گے اور حکومت پر دباؤ بھی قائم کریں گے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024