جب وہ رخصت ہو کر جانے والی تھی تو میں بہت خوش تھی۔ اس کا بیڈ، اس کی الماری اب میری ہو گی۔ وہ کچھ ان سلے کپڑے جو وہ سلوا نہ سکی تھی، اب میرے ہوں گے۔ اُس کی وہ جامنی شال جس پر ہمیشہ سے میری نظر تھی اب سردیوں میں آتش دان کے سامنے اوڑھ کر بیٹھا کروں گی۔ اب صبح کالج کی تیاری کے دوران شیشے کے آگے کھڑے ہو کر لڑنا نہیں پڑے گا کہ اب تو پورے شیشے پر میں ہی نظر آؤں گی۔
اب کے جو سردیاں آئی ہیں تو ٹھنڈ زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ اُس کے خالی بستر پر پڑی شکنیں میں نے اب تک درست نہیں کیں۔ کوئی تکیہ نہیں سجایا۔ شیشے کے سامنے نہ جانے کیوں اب بھی اُس کے عکس کی جگہ چھوڑ کر کھڑی ہوتی ہوں۔ اور میں جو آتشن دان کے آگے اُس کی جامنی چادر اوڑھے بیٹھی ہوں تو وہ بھی چپکے سے میری نیلی شال اپنے پیکنگ بیگ میں ڈال کر لے گئی ہے۔ہم دونوں بخوبی جانتے ہیں کہ ہم رنگوں کا تبادلہ کر چکے ہیں، پھر بھی جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو انجان بن جاتے ہیں۔ وہ معصومیت سے مجھ سے پوچھتی ہے کہ میری جامنی شال دیکھی ہے کہیں؟ اور میں بھی انجان بن کر سوال داغ دیتی ہوں کہ میری نیلی شال نہ جانے کہاں کھو گئی؟
اور شام کو جب سردی زیادہ ہو جاتی ہے تو ایک دوسرے کی شال اوڑھے ہم اکثر اپنے اپنے آتش دان کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس لمحے سردی کی شدت کچھ کم ہو جاتی ہے۔ اور یہ بات سوچ کر ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے کہ ہماری الماریوں میں سے کتنے ہی پرانے کپڑے نکل جائیں اور نئے کپڑے آ جائیں لیکن جامنی اور نیلی شال ہمیشہ محفوظ رہیں گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024