فنون لطیفہ کی تنظیموں کی بے حسی
سلیم ناز
فنون لطیفہ کے فروغ اور تحفظ کیلئے ملتان میں جو چند ایک ثقافتی تنظیمیں کام کر رہی ہیں وہ بھی کاغذوں میں زندہ ہیں۔ اگر کبھی خواب غفلت سے بیدار ہو بھی جائیں تو انگڑائی لینے میں کافی وقت گزار دیتی ہیں۔ فنون لطیفہ اکیڈمی میں معروف مصور اور کیلی گرافرز شامل ہیں۔ انہیں بھی یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنے ہم عصر عظیم فنکاروں کی یاد میں کوئی تقریب ہی سجا لیں۔ ممتاز مجسمہ ساز صادق علی شہزاد کی پہلی برسی اس طرح خاموشی سے گزر گئی جیسے ملتان میں انکا کوئی مداح نہ رہتا ہو۔ ان کا کوئی چاہنے والا نہ ہو۔ زندگی سے ناطہ کیا ٹوٹا دوستوں نے انہیں ہمیشہ کیلئے دلوں سے نکال دیا۔ ابھی چند روز قبل بین الاقوامی شہرت یافتہ فن کاشی نقاشی کے فروغ میں صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والے استاد محمد عالم رحلت فرما گئے۔ کسی ثقافتی تنظیم نے ان کی یاد میں کوئی تقریب اور تعزیتی ریفرنس منعقد کرنا بھی گوارہ نہ کیا۔اسی تنظیم کے مرکزی عہدیدار خط رعنا کے موجد عظیم کیلی گرافر ابن کلیم کی برسی 8 مارچ کو اور ملک کے عظیم گلوکار پٹھانے خاں کی برسی بھی 9 مارچ کو چپ چاپ گزر جائے گی۔استاد عالم کی قل خوانی میں ملتان کے کسی کاشی گر‘ کیلی گرافر‘ مصور اور دستکار نے شرکت نہ کر کے یہ ثبوت فراہم کیا کہ آنکھ ’’اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘ نہ فنون لطیفہ اکیڈمی کے عہدیداروں کو خیال آیا نہ ہی ملتان آرٹس کونسل نے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنا مناسب سمجھا۔ آرٹسٹ ایسوسی ایشن جو فنکاروں کی فلاح و بہبود کی دعویدار ہے اس کے ارکان زبانی کلامی دعوے کرتے نہیں تھکتے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے تقسیم ایوارڈ اور میوزیکل شو کا اہتمام کیا۔ انہوں نے بھی بچھڑنے والے فنکاروں کو نہ کوئی ایوارڈ کا اعلان کیا نہ ہی ان کے لئے فاتحہ خوانی یا دعا مغفرت کی گئی۔ حالانکہ انہوں نے ریوڑیوں کی طرح ان لوگوں کو بھی گھروںسے بلا بلا کر ایوارڈ بانٹے ہیں جنہیں شوبز کی دنیا کو خیرباد کہے ایک عرصہ ہو گیا ہے۔ رضا ہال میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض ملک سکندر بھٹہ اور فوزیہ شاہین نے سر انجام دئے۔ سال 2017-18 کے ایوارڈ ہدایتکار علی رضوان‘ مصنفہ ناہید رضوان کے ڈرامے ’’ماسٹر جی‘‘ اور کہاں ہو تم‘‘ کے بیسٹ پرفارمر رمضان شہزاد ‘ علی حسین‘ ملک سکندر بھٹہ قرار پائے۔ ہدایت کار مالک سندھی کے ڈرامے اور مصنف یعقوب سید کے ڈرامے ’’اجلے چہرے میلے لوگ‘‘ کے بیسٹ پرفارمر قسور حیدری‘ مظہر احسن اور سیف بوٹا قرار پائے‘ مصنف و ہدایت کار زوار بلوچ کے ڈرامے ’’شہنشاہ‘‘ کے بیسٹ پرفارمر کوثر بھٹی‘ جمیل بھٹہ‘ الطاف بوٹا‘ حمید اداس قرار پائے۔ ڈرامہ ’’کہاں ہو تم‘‘ کے بیسٹ ولن جاوید سندھی اور فوزیہ شاہین قرار پائے‘ بیسٹ پروموٹنگ آفیسر کا ایوارڈ ریذیڈنٹ ڈائریکٹر ملتان آرٹس کونسل سجاد جہانیہ کو دیا گیا‘ بیسٹ پرفارمرز میں رام جانے ‘ ندیم پریتم‘ عالیہ لارنس‘ جہانزیب خان‘ مستانی‘ ناز‘ سونو لکی‘ نرگس خان‘ راحیلہ ملک‘ ایشا جان اور دعا چودھری نے ایوارڈ حاصل کئے۔ بیسٹ ویلفیئر ورکر سماجی شخصیت یامین گلفام‘ پروڈیوسر اسلم شہزاد‘ بیسٹ ایکٹر تاج گل خان‘ ریاض ملک‘ علی شاہ فردوس‘ بیسٹ رائٹر ناہید رضوان‘ بیسٹ ڈائریکٹر اعجاز چندا‘ علی رضوان‘ بیسٹ پروگرام آرگنائزر فوزیہ شاہین‘ ندیم ترین‘ بیسٹ کمپیئر طارق سندھو‘ بی اے جمال‘ بہار حسین‘ عارف بھٹی‘ بیسٹ فلم ٹی وی ایکٹر‘ علی رضوان‘ تاج گل خان‘ قسور حیدری‘ مظہر احسن ‘ ملک سکندر بھٹہ‘ بیسٹ کامیڈین رمضان شہزاد‘ کوثر بھٹی‘ علی رضوان‘ سجاد شوکی‘ شیری چند‘ حمید اداس‘ شان بیلہ نے ایوارڈز حاصل کیا۔ بیسٹ سنگر عابد علی خان‘ عروج خان‘ عمران بغدادی‘ اعجاز راہی‘ ساجد علی ملتانی نے ایوارڈ حاصل کیا۔ بیسٹ کلاسیکل موسیقی سنگر کا ایوارڈز استاد عمران علی خان نے حاصل کیا۔
اسی طرح ملتان آرٹس کونسل نے بھی فنکاروں میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب سجائی جس سے خطاب کرتے ہوئے ملتان آرٹس کونسل ملتان کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر سجاد جہانیہ نے کہا لاہور میں منعقدہ سرائیکی کلچرل شو کی کامیابی کا سہرا ملتانی فنکاروں کے سر جاتا ہے۔ سرائیکی خطے کے فنکار اور ہنر مند فن کی لازوال دولت سے لبریز ہیں اور علاقائی‘ قومی اور عالمی سطح پر جب بھی انہیں اظہار کا موقع ملا ہے انہوں نے ہمیشہ اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ پروفیسر محمد مصطفی نے کہا لاہور میں سرائیکی کلچرل شو میں ملتانی فنکاروں کی بہترین پرفارمنس نے اہلیان لاہور کے دل جیت لئے ہیں۔ عبدالرحمٰن نقاش نے کہا ملتان کے فنکاروں اور ہنرمندوں کی اپنے کام کے ساتھ کمٹمنٹ اور جرات مثالی ہے اور نامساعد حالات کے باوجود بھی ہمارے فنکار اور دستکار بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں معروف آرٹسٹ مظہر احسن نے کہا کہ لاہور میں ہونے والا سرائیکی کلچرل شو ہر لحاظ سے ایک کامیاب ثقافتی شو تھا جس کا کریڈٹ تمام فنکاروں کو جاتا ہے۔ اس موقع پر فنکاروں میں چیک بھی تقسیم کئے گئے ۔ اگر ان تقریبات میں مرحومین کو یاد رکھا جاتا۔ ان کے فن و کمال کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا تو لواحقین کی اشک شوئی کے ساتھ ساتھ مرحومین کی روح کو سکون ملسکتا تھا۔