جناب چیف جسٹس ! جمہوری نظام کی عزت و آبرو کا تحفظ آپ کی ذمہ داری ہے ایوانِ بالا میں انتخابی عمل کو بے توقیر کرنیوالوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیں وہ کوئی بھی ہو سب کو دھرم ترازو سے تول کر انصاف دیں تاکہ عدل کی تحریک چلانے والوں کو بھی چین اور قرار آ جائے سینٹ، ایوان بالا کی عزت بچالیں یہ سینٹ نہیں، نیلام گھر بن گیا ہے۔ ایوان کا تقدس پیسے کی خاک میں رْل گیا۔ ووٹ کی حرمت کی نیلامی پر خاموشی جرم ہے۔ صرف عزت مآب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا آئینی اور قانونی اختیار ہے کہ اس منڈی اور اس کے بیو پاریوں کو کٹہرے میں لائیں۔ یہ 62 اور 63 کی کھلی توہین اور بے عزتی نہیں؟ اس سے بڑا آئین اور قانون کا مذاق کیا ہو سکتا ہے؟ ہمارے پیارے چوہدری سرور بھی برطانیہ سے تبدیلی لانے نکلے تھے، نمک کی کان میں نمک ہوگئے، تبدیلی کیا لاتے خود تبدیل ہوگئے۔
سینٹ میں ووٹ کی خرید و فروخت نئی بات نہیں، یہ سلسلہ کھلے بندوں سینیٹر گلزار نے شروع کیا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ وہ خود اور انکے دونوں بیٹے ایوان بالا کے رکن ہوتے تھے اور بی بی شہید ان کی مہمان ہوتی تھیں جبکہ ڈاکٹر ظفر نیازی سمیت درجنوں نہیں، سینکڑوں گھروں کے دروازے ان کیلئے کھلے ہوتے تھے لیکن یہ بے محابا دولت کی چکا چوند تھی کہ شہید بی بی جیسی عبقری خاتون بھی ایک ارب پتی پٹواری کو سب پر ترجیح دیتی تھی ۔ لیکن بے حیائی کا اس بار مظاہرہ مثالی ہے۔ بے شرمی کا یہ سلسلہ اب آزاد سینیٹرز کو نکیل ڈالنے کے مرحلے میں ہے۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدوں پر قبضہ مقصود ہے۔6 ارکان کے ساتھ بلوچستان کی منڈی پھر توجہ کا مرکز ہے۔ 8 فاٹا ارکان کی اہمیت ہمیشہ کی طرح سب سے زیادہ ہے۔ پی پی پی سینیٹ چیئرمین کی نشست حاصل کرنا چاہتی ہے۔
جمہوریت اکثریت کے اصول پر چلتی ہے لیکن پاکستان میں سب فارمولے اْلٹے ہو جاتے ہیں۔ ن لیگ 33 سینیٹرز کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ پی پی 20 ، آزاد 15، تحریک انصاف 12 ، ایم کیو ایم 5 ، جے یوآئی (ف) کے 4 ارکان ہیں۔(ن) لیگی اتحادی جیسے نیشنل پارٹی کے پاس 5 ، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی 5 اور جے یو آئی (ف)کی چار سیٹوں سے اس کی طاقت 47 تک بڑھ سکتی ہے۔ اگر یہ 4 یا 5 آزاد ، ایم کیو ایم کے 4 مل جائیں تو انہیں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔اگر زرداری تمام آزاد اور پی ٹی آئی کے 12 کی حمایت حاصل کر لیتے ہیں تو پی پی ’’تاریخ‘‘ رقم کر سکتی ہے۔ جے یو آئی (ف)کی پانچ ،جماعت اسلامی کی دو ، ایم کیو ایم کی پانچ اور اے این پی کی ایک سیٹ سے سینیٹ کی دوڑ میں بہت کچھ مل جاتا ہے اور یہ حتمی کردار ادا کر سکے گی۔
سچ تو یہ ہے کہ صرف مسلم لیگ ن کے امیدوار ہی سرمایہ کے استعمال کے بغیر ایوان میں آئے ہیں۔ ورنہ اس ’’حمام‘‘ میں سب ہی ننگے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی عظمیٰ بخاری رو رو کر بین کر رہی تھی کہ پیسہ جیت گیا۔ تحریک انصاف کے امیدوار چودھری سرور 14 اضافی ووٹ لیکر ’’مقدس‘‘ ایوان میں پہنچ گئے۔ کہتے ہیں کہ انہیں صرف ایک ووٹ بنام دوستی مفت ملا ہے وزیر اعلیٰ اور سپیکر،کے پی کے، نے ’لوٹوں‘ کی تحقیق کا دعویٰ کیا ہے۔ کہتے ہیں عمران ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ارکان کے نام اور پارٹی سے فارغ کرنے کا اعلان خود کرینگے۔ عمران نے خود ارب پتی ’’مستحقین‘‘ میں ٹکٹ بانٹے وہ اب کس منہ سے کارروائی کرینگے؟ بتایا گیا کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو 6 باغی ارکان سمیت کل 12 سے 14 ووٹ کم ملے۔کے پی کے میں قومی وطن پارٹی کا گلہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اس کے ساتھ ایک بار پھر دھوکہ کی وجہ سے ان کے خیال زمان اورکزئی شکست کھا گئے۔ حضرت مولانا سمیع الحق نے بھی سر میں خاک ڈال لی۔57 کروڑ بھول کر ان کی توپوں کا رْخ بھی پی ٹی آئی اور عمران خان کی طرف ہے۔کہتے ہیں پی ٹی آئی نے غداری کی۔ تحریک انصاف کے 18 ارکان صوبائی اسمبلی نے پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دیا جس سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ تین امیدوار سینٹ الیکشن ہار گئے جن میں مولانا سمیع الحق بھی شامل ہیں۔ مولانا یوسف شاہ کے مطابق تحریک انصاف سے جس تعاون کی توقع تھی، اس پر پورا نہیں اتری۔ کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ مولانا سمیع الحق ہار جائیں گے۔ وہ صحت مند ہونے کے بعد اس معاملے پر غور کریں گے۔سینیٹر اعظم سواتی کا بیان ملا حظہ ہو ’دلاور خان ٹیکنوکریٹ کی اہلیت پر کسی طور پورا نہیں اترتے۔ پاکستان کی پارلیمان کو کرپٹ اور نااہل ٹولے سے پاک کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔‘ اللہ کی شان ہے۔
چوہدری نثار بھی چہکے ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے سیاستدان صرف باتیں کرتے ہیں روک تھام کے لئے عملی کام نہیں کر رہے۔ اگر ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے تو اداروں کا کام ہے، اسے روکے۔ دو، نہیں کئی کشتیوں کے سوار سراج الحق نے ’’فرمایا‘‘ سینٹ الیکشن میں نظریہ ہار گیا ، وڈیرے جیت گئے۔ سینٹ الیکشن میں آصف زرداری کی کرامات سامنے آ گئیں۔ دولت جیت گئی، سیاست ہار گئی۔ سینٹ الیکشن جمہوریت کے نام پر بدنما داغ ہیں۔ الیکشن میں نوٹوں کا استعمال نہ روکا گیا تو جمہوریت پر اعتماد ختم ہو جائیگا۔ جماعت اسلامی جدید ایڈیشن کی یہی خوبی ہے کہتی کچھ ہے اور کرتی کچھ ہے۔
بلاول نے گرہ لگائی کہ سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا الزام پیپلز پارٹی پر عائد کرنا غلط ہے۔ اکثریتی پارٹی کو اپنا چیئرمین سینٹ لانا چاہئے۔سینیٹ میں اکثریت پی پی کی ہے۔آکسفورڈ کی تعلیم کو سلام ہے۔زرداری کے کار خاص ڈاکٹر قیوم سومرو بلوچستان سے 8 سینیٹرز کی ’’حمایت‘‘ کیلئے ’’بوری‘‘ سمیت پہنچے ہیں۔ ’’انصاف پسند‘‘ بھی پیچھے نہیں۔ جہانگیر ترین نے پیغام دیا ہے کہ بہت جلد پی ٹی آئی کا وفد بلوچستان کے کامیاب سینیٹرز سے ملاقات کریگا۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کی طرف سے راجہ ظفر الحق چیئرمین شپ کے امیدوار ہیں جبکہ بعض ذرائع کیمطابق سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف ، چیئرمین سینٹ کیلئے وفا شعار سینیٹر پرویز رشید کو ترجیح دے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ صادق اور امین کہلانے کی پابندی کیا صرف نمائشی ہے؟ اتنی بدنامی کے بعد کون سا ایوان، کون سی جمہوریت اور کون سی وفاق کی علامت ہے جس کا احترام اور عزت کسی کی نگاہ میں ہوگی؟ افسوس تو یہ ہے کہ مغرب میں پلنے ، بڑھنے والے، تعلیم حاصل کرنیوالے عمران کی طرح مغربی جمہوریت کے راگ الاپنے والے پاکستان میں اپنے رویوں میں کیوں آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن بن جاتے ہیں؟ باتیں خلفائے راشدین کی اور عمل عمر بن ہشام والا؟
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار سے ہاتھ جوڑ کر استدعا ہے کہ صاف پانی بھی ضروری ہے لیکن یہ سارا انتظامی گند جس وجہ سے ہے۔ اسکی ’’دستاویزی فلم‘‘ سینٹ کے انتخاب کی صورت ہمارے سامنے چل رہی ہے۔ لوگ سوال پوچھتے ہیں، ٹھٹھہ اڑاتے ہیں، ہاتھ پر ہاتھ مار کر جو کچھ سیاستدانوں اور پارلیمان کے بارے میں کہتے ہیں، صحافتی اور اخلاقی آداب انہیں ضبط تحریر میں لانے کی اجازت نہیں دیتے۔
جناب چیف جسٹس غلط جگہ ہزار چھوڑ لاکھ ہتھوڑے برسائیں، نتیجہ صفر رہے گا۔ صحیح جگہ پر صحیح چوٹ سے ہی نتیجہ نکل سکتا ہے۔ ’رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘ یہ قرآن کا فرمان عالیشان ہے۔ سینٹ کے انتخاب کا پیغام وہی ہے جو شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی کی رہائی سے ملا تھا۔ عام لوگ تڑپ اٹھے تھے۔ یہاں بھی سینٹ ایک منڈی ہے۔ اختیار ایک لونڈی ہے۔ جسے کوئی بھی پیسہ پھینک، چند بھیڑ بکریوں کو خرید کر ’’معزز رکن‘‘ کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ لگوا سکتا ہے۔ پھر یہی ’معززین‘ قانون سازی کیلئے سزا وار ہوتے ہیں۔ یہی عوامی سرمایہ کے امانت دار قرار پاتے ہیں۔
جناب چیف جسٹس صاحب ! آپ ہی بتائیں۔ اس اندھیر نگری میں کس کو پکاریں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024