ہارڈ ٹاک
سینیٹ کے 52 نئے ارکان آگئے اور 12مارچ کوحلف بھی لے لیں گے، اس سے جمہوریت کا ایک سنگ میل عبور ہو جائے گا ،زندگی سنتے سنتے شام کنارے آلگی کہ جتنا خطرہ جمہوریت کو اب ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا،ایسی باتیں جب اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے منہ سے ادا ہوں تو افسوس ہوتا ہے، یہ تضاد ہر گزرتے دن کے ساتھ واضح ہو رہا ہے ،ایک طرف ذیادتی کا غوغہ اور دوسری جانب ہر مقام پر کامیابی،دو چیزیں کیسے اکٹھی ہو گئی ہیں اس کا جواب نہ ان کے پاس ہے اور نہ ہو سکتا ہے،اربوں روپے کے فنڈز یک جنبش قلم کی منظوری سے خرچ ہو رہے ہیں،کہیں آنے جانے میں تکلیف نہیں ،’’جو چاہیں سو وہ آپ کریں ہیں‘‘،اس لئے’’ نامعلوم افراد ‘‘والی تھرلر فلم اب بند کر دی جائے،یہ پٹ چکی ہے،اس طرح کی کہانیوں سے ہی عوام کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں،اور یقین کو ٹھیس پہنچتی ہیں،سینیٹ کے انتخاب کے وہی نتائج نکلے ہیں جن کی توقع کی جارہی تھی،سندھ میں بھی کوئی آپ سیٹ نہیں ہے،جب ایک جماعت تین یا چار حصوں میں بٹ چکی ہو تو تو ووٹ کی گیم میں ہار ہو جاتی ہے،پنجاب میں پی ایم ایل این نے جیتنا تھا اور وہ جیتی ہے،ایک سیٹ اپوزیشن کو گئی،تاہم مسلم لیگ کے جو ایک امید وار رہ گئے ، اس کی وجوہات کی تلاش کرنا چاہئے،سندھ میںپیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی،پنجاب سے نمائندگی دینے کے لئے مصطفی نواز کھوکھر کو سے ٹکٹ دیا گیا تھا،پی پی پی کے دو منتخب سینٹرز میں دو ایسی شخصیات ہیں،جو بہترین انتخاب کہی جاسکتی ہیں کرشنا کماری اور انور لال دین ،دونوں گراس روٹ لیول کی نمائندگی کر تے ہیں اور ایوان میں موثر آواز بن سکتے ہیں،ان دونوں کے لئے بہت اچھا موقع ہے کہ وہ پارٹی سیاست سے بالا تر ہو کرغریب کے دکھ پر بات کریں،ارب پتیوں کے جھرمٹ میں غریب کے ماتھے کا جھومر بن جائیں،کے پی کے میں نتائج منقسم رہے،لیکن پی ٹی آئی کی برتری رہی،عمران خان نے ووٹ کا استعمال نہیں کیا،ان کے پاس اس کی کوئی وجہ ہو گی،عمومی طور پر یہی سمجھا جائے گا کہ اپنی کہی سامنے آتی ہے،ووٹ ڈالنے جاتے تو بھی مسلہ تھا ،نہیں گئے تو بھی نکتہ چینی سہنی پڑے گی،پی ٹی آئی جس مقام پر آچکی ہے،وہاں خار ہی خار ہیں،منزل تک جانے کے آثار دھند ذدہ ہیں،جو لہر کی سی کیفیت کبھی نظر آیا کرتی تھی ،اس کی اٹھان میں کمی اور کرنٹ میں ٹھرائو کا تاثر بن رہا ہے ،اس کی خود وہی جانچ کر لیں تو بہتر رہے گا ،ببلوچستان میں آزاد امیدوار ذیادہ جیتے،اس کی وجہ دراصل حکومت کی تبدیلی تھی، پی پی پی کی جانب سے ان آزاد امید واروں کو اپنی چھتری تلے لانے کی کوشش شروع ہو چکی ہے ،واقفان حال کا کہنا ہے کہ ان کی اکثریت پی پی پی ہی کے ساتھ جائے گی،جو رسمی شمولیت یا تعاون دونوں صورتوں میں ممکن ہے،سینیٹ کے حالیہ انتخاب کو ’’اینکرزبریگیڈ‘‘اور خود سیاست دانوں نے ہارس ٹریڈنگ کے الزامات عائد کر کے گہنانے کی کوشش کی،ہارا ہوا سیاست دان اس کے علاوہ اور کرئے بھی کیا؟ابھی اتنا ظرف پیدا نہیں ہوا کہ اپنی کمزوری اور غلطی کی نشاندہی کر لی جائے،مگر’’ اینکرز بریگیڈ‘‘،دور کی کوڑیاں لانے میں اپنی مثال آپ ہیں ، یہ زمین پر تارے اور آسمان پر سمندر ہونا ثابت کر سکتے ہیں ،ایک نیوز چینل پر دیکھا کہ’’ اینکرز بریگیڈ‘ کے کچھ ارکان منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے اربوں کے لین دین کے قصے سنا رہے تھے تو ذہین میزبان نے پریشان ہو کر بار بار سوال کیا کہ یہ جو گفتگو ہو رہی ہے اس کا کوئی ثبوت بھی ان کے پاس ہے ؟کیا انہوں نے اپنی آنکھ سے ایسا ہو تے دیکھا ہے ؟ تو اس کوئی جواب ان کے پاس نہیں تھا،اس طرح کی گفتگو کا کوئی جواز نہیں ہوتا،قصور والے سانحہ کے متعلق ایک اینکر نے جو انکشافات بھری گفتگو کی تھی اب اس کا کوئی سر پیر نہیں مل رہا ہے،اور ان کی جان چھوٹ نہیں رہی ہے ،پڑخچے اڑانے والوں کو بعض اوقات ’’ڈاڈے‘‘ بھی ٹکر جاتے ہیں،چلے صحافیانہ تربیت سے عاری کوئی ایسی غلطی کرئے تو معافی کی گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے ،مگر اس کا کیا ،کیا جائے کہ اچھے بھلے تربیت یافتہ ،آداب کو جاننے والے جب یہی کام کر رہے ہوتے ہیں تو بہت افسوس ہوتا ہے ،ملک پر رحم کیا جائے،ہر چیز اور ہر بات میں عوام کے دل کو کھٹا نہ کیا جائے، وہ جو غیر ملکی پروگرام ’’ہارڈ ٹاک‘‘ کا جو سابق میزبان تھا ،اس کے علم اور معلومات کی جو سطح تھی اس کے تو کوئی قریب نہیں گیا ،اور یہاں چلے ہیں ،سارے جہاں کا درد لئے ہوئے،اور درد بانٹ رہے ہیں،چلے کبھی تو سمجھ آہی جائے گی ، سینٹ کا انتخاب براہ راست کرانے کی بات کی جاتی ہے،یعنی ہر تین سال کے بعد ملک گیر انتخاب ،حلقے کتنے بڑے ہوں گے اس کا کسی نے سوچا؟ کیا ضمانت ہے کہ ان میں پیسہ نہیں چلے گا؟نئے بکھڑے پیدا کرنے کی بجائے اسی سسٹم میں بہتری لانا ہو گی،ایک معاملہ جس پر بہت رد عمل آنا چاہئے تھا ،اس پر بہت کم بات ہو رہی ہے ،یہ تیل مصنوعات کے نرخ ہیں،پیٹرول کے لے لیں اس کی قیمت 70روپے سے بڑھتی ہوئی قریبا 90 روپے فی لیٹر ہو چکی ہے،گزشتہ چند ماہ میں 20روپے فی لیٹر کا اضافہ ہو چکا ہے ،یہ پیٹرول تک محدود نہیں ہے،ڈیزل اور مٹی کا تیل بھی مہنگا کیا جا رہا ہے،اس پر اپوزیشن کا رد عمل بے حد کمزور ہے،قومی اسمبلی میں ایک توجہ دلائو نوٹس آیا،اس پر معمول کی چند ارکان کی بات،اور بس،حکومت پہلے مٹی کے تیل کو غریب کے استعمال کی چیز قرار دیا کرتی تھی،مگر اب وزیر مملکت خزانہ یہ کہتے پائے گئے کہ مٹی کا تیل صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے ،یہ انکشاف ان پر حالیہ اضافہ کے موقع پر ہوا ،اپوزیشن ہوش کے ناخن لے ،تیل کی مصنوعات کے اضافے کو عام سا قدم نہ سمجھا جائے،قومی اسمبلی یا سینیٹ ہو تیل کی قیمت کے تعین اور اس پر ٹیکس کی شرح اور وصولی کی چھان بین کی اشد ضرورت ہے،اس پر ایک پارلیمانی کمیشن بننا چاہیے،ڈیزل پر 25.5 فی صد کی جی ایس ٹی کی شرح ظاہر کر رہی ہے کہ اس کی درآمدی قیمت بہت کم ہے،مارکیٹ ریٹ کے فائدہ کو عوام تک منتقل نہیں کیا جارہا ہے،مٹی کا تیل اگر انڈسٹری استعمال کرتی ہے توکیا حکومت ملک کے اندر صنعتی پیداوار کی لاگت میں اضافہ کرنا چاہتی ہے؟پنجاب کی انڈسٹری پہلے ہی گیس اور بجلی کے نرخوں کے باعث دم توڑ رہی ہے،حکومت کرنا کیا چاہتی ہے؟اپوزیشن کو اس کی پکڑ کرنا چاہئیے،کیا آپ اس ایشو پر اس لئے بات نہیں کرتے ہیں کہ کل حکومت میںآنے کے صورت میں اسی تیل کو ریونیو کی ریل پیل کی ’’فیری ٹیل‘‘ سنانے کے لئے استعمال کرنا ہے؟ایف بی آر کے ریونیو کے لئے یہ سارا کچھ کیا جارہا ہے،گزشتہ 8ماہ میں تیل کے نرخ بڑھانے،ریگولیٹری ڈیوٹیز میں اضافہ کے باجود ایف بی آر کی ریونیو گروتھ اتنی نہیں کہ سالانہ ہدف پورا کر سکے،اس کا مطلب یہی ہے کہ ادارے کے اندر مسلہ ہے اس کی جانب توجہ دی جائے،جناب چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی درخواست ہے کہ تیل پر ٹیکس کے نظام کی چھان بین کرائی جائے تاکہ صرف جائز ٹیکس کی وصولی ہو،کسی حکومت یا ادارے کی بے عملی کی قیمت عوام نہ ادا کریں۔