ممبئی حملوں کا ڈراپ سین
بھارت نے دہشتگردی کے جس ایک واقعے پر پاکستان اور اسکے سلامتی کے اداروںکیخلاف سب سے زیادہ پراپیگینڈا کیا وہ 2008میں ہونیوالے ممبئی حملے تھے جن میں 162اقیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ بھارت نے ممبئی حملوں کو 9/11کے دہشتگرد حملوں کی طرز پر بھارت کے26/11کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا اوردنیا کی ہمدردیاں بٹورنے اور پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔ بھارتی ایجنسیوں کیجانب سے کی جانیوالی ممبئی حملوں کی تحقیقات پر پہلے ہی دن سے شکوک و شبہات اور عدم اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن بھارت نے ان شکوک و شبہات اور تحفظات کو کوئی اہمیت نہیں دی اور اپنی تمام تر توانائیاں پاکستان پر الزامات لگانے، پاکستان کیخلاف پراپیگینڈا کرنے اور پاکستان کو عالمی برادری میں بدنام کرنے پر صرف کردیں۔اس تمام سلسلے میں سب سے زیادہ افسوسناک اور قابلِ مذمت امر یہ تھا کہ پاکستان کیخلاف بھارتی پراپیگینڈے میں پاکستان ہی کے ذرائع ابلاغ کے کچھ حلقے اور نام نہاد دانشور جو اپنے آپ کو لبرل اور آزاد خیال کہلوانے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، بھارت کے ہمنوا بن گئے اور پاکستان اور اسکے سلامتی کے اداروں کیخلاف ہرزہ سرائی کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا اور پاکستان مخالف اس مہم کا حصہ بن گئے جنہوں نے پاکستان کو دہشتگرد ریاست قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیا۔ یہ رویّہ قابلِ مذمت ہی نہیں بلکہ ان قوم دشمن عناصرکیخلاف ہر سطح پر کارروائی کرنا چاہیے کیونکہ جب بھی پاکستان کیخلاف کوئی بات کی جائے تو اس میں انہی لوگوں کی آواز سب سے بلند ہوتی ہیں جو رہتے تو پاکستان میں ہیں لیکن انکی وفاداریوں کا محور صرف اور صرف پاکستان دشمن قوتیں ہی ہوتی ہیں۔ بہرحال یوںلگتاہے کہ2008کے ممبئی حملوں کا ڈرامہ اب اپنے انجام سے دوچار ہونے کو ہے۔حال ہی میں جرمن مصنّف ایلیس ڈیوڈسن نے اپنی 905صفحات پر مبنی کتاب"Betrayal of India- Revisiting The 26/11 Evidence"نے بھارت کے اس جھوٹ اور مکر وفریب کا پردہ چاک کردیا جسکی وجہ سے بھارت اور اسکے ذرائع ابلاغ نے کم و بیش ایک دہائی تک پاکستان اور اسکے سلامتی کے اداروں کیخلاف جھوٹے پراپیگینڈے کا طوفان برپا کئے رکھا۔ اس کتاب میں ممبئی حملوں کے مقدمے کے سلسلے میں عدالت میں پیش کئے جانیوالے شواہد،ثبوتوں اور دستاویزات کا جائزہ لیا گیاہے اوریہ انکشاف کیا گیا ہے کہ 2008کے ممبئی حملے بھارت اور اسکی خفیہ ایجنسیوں نے امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں کیساتھ ملکر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کروائے۔ ڈیوڈسن نے اپنی اس کتاب میںان بنیادی سوالوں کو ایک بار پھر اٹھایا ہے جن کا جواب ہنوز تشنہ ہے اور جواس مقدمے کی تمام تفتیش و تحقیق کو مشکوک بناتے ہیں۔ پہلا سوال یہ اٹھایا گیاکہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک ہزار پولیس اہلکاروں اور تربیت یافتہ کمانڈوز کو محض دس دہشتگردوں نے مختلف مقامات پر کم و بیش 60گھنٹوں تک الجھائے رکھا، دوسرا سوال یہ کہ بھارتی انتظامیہ نے ممبئی حملوں کے فوراً بعد ہی بلا کسی تحقیق و تفتیش پاکستان کیخلاف کیوںالزام تراشی شروع کردی؟ تیسرا سوال یہ کہ آج تک ان حملوں کی ذمہ داری کسی دہشتگرد گروہ نے کیوںقبول نہیں کی۔چوتھاسوال یہ کہ امریکہ نے ممبئی حملوں کی تحقیقات اور پاکستان مخالف مؤقف میں جس انداز سے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا وہ بہت غیر معمولی تھا حالانکہ یہ واقعہ امریکی سرحدوں سے بہت دور رونما ہوا اور اس کا تعلق امریکہ سے براہِ راست کسی طور نہیں بنتا تھا۔ڈیوڈ سن نے بڑی تحقیق و عرق ریزی کے بعد دلائل اور ٹھوس شواہد کیساتھ بھارتی مؤقف تردید کی ہے جس نے بھارت کیجانب سے تواتر کیساتھ بولے جانیوالے جھوٹ کی قلعی کھول دی ہے کہ ایک دہائی گزر جانے کے بعد بھی بھارت ان سوالوںکے جواب دینے سے قاصر ہے۔کہا جاتا ہے کہ ممبئی حملوں کے مرکزی ملزم اجمل قصاب کو ان حملوں سے 20 دن پہلے گرفتار کیا گیا تھا اور ان دہشتگردوں کے سہولت کاروںنے امریکی ٹیلی فون نمبرزاستعمال کئے تھے۔ اجمل قصاب کیخلاف چلایا جانیوالا عدالتی مقدمہ اور اسکی پھانسی کی سزا اس ڈرامے کا حصہ تھا۔بھارت نے 26/11یعنی ممبئی حملے کیوں کروائے؟ یہ جاننے کیلئے 2008 کے ان حالات و واقعات کا جائزہ لیناضروری ہے جو بھارت کو درپیش تھے۔ 2008کا سال بھارت کیلئے نہایت بھاری ثابت ہوا تھا۔ اسے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک کے مقابلے میںشدید ہزیمت کا سامنا تھا۔ نوجوان کشمیری جس انداز میں وادی کے گلی کوچوں اور سڑکوں پر بلا خوف و خطر بھارتی فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر "گو انڈیا گو"کے نعرے لگاتے نظر آرہے تھے اس نے آزادی کی تحریک کے اس گہرے اثرورسوخ کو بھارت پر واضح کردیا تھا جسکا مقابلہ کرنا اب بھارت اور اسکی قابض افواج کے بس میں نہیں تھا۔ اسی دوران امر ناتھ شرائن بورڈ کو مقبوضہ وادی میں زمین کی الاٹمنٹ پر اس قدر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا کہ ایسا لگنے لگا تھا کہ کشمیر اب آزادہو گیا ہے اور عالمی برادری کیساتھ ساتھ بھارت کے اندر سے یہ آوازیں سنائی دینے لگیں کہ اب کشمیر کی آزادی کو کوئی نہیں روک سکتا یا یہ کہ اب بھارت کو اپنی کشمیر پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی، یا یہ کہ اب کشمیر کو بھارت سے نہیںبلکہ بھارت کو کشمیر سے آزادی کی ضرورت ہے۔ اسی دوران جولائی 2008 میں ہی مقبوضہ وادی میں لائن آف کنٹرول پر مختلف مقامات پر ہزاروںبے نام قبریں دریافت ہوئیں جسکے بعد عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس معاملے کو اٹھایا اور پورپین پارلیمنٹ میں بے نام قبروں کی دریافت پر قرارداد پاس کی گئی جسکا بھارت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اسی دوران ممبئی انسدادِ دہشتگردی ا سکواڈکے چیف ہیمنت کرکرے نے بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس کرنل پروہت کو دہشتگری کا نیٹ ورک چلانے اور ایسی دہشتگردی کی کارروائیاں کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا جن حملوں اور بم دھماکوں کی تفتیش کے بہانے بھارتی پولیس نے نہ صرف ہزاروںبھارتی مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کررکھا تھا بلکہ ان بم دھماکوں کیلئے پاکستان اور اسکے سلامتی کے اداروں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ کرنل پروہت اور اسکے نیٹ ورک میں شامل کئی سابق بھارتی فوجی افسران کی شمولیت کے انکشاف نے ہندو انتہا پسندی اور دہشتگردی کی سرکاری سرپرستی کا راز دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیااور اس محاذ پر بھی بھارت کو شدیدخفّت اٹھانا پڑی ۔ ایسے ماحول میں بھارت کو کسی ایسے ہی بڑے ڈرامے کی اشد ضرور ت تھی جس سے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ بھارت سے ہٹا کر پاکستان پر مرکوز کردی جائے۔ یہاں یہ اہم سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو ممبئی حملوں سے سخت نقصان پہنچا ۔ بھارت دنیا کو یہ باور کرانے میں مصروف ہو گیا کہ وہ دہشتگردی کا مرکز نہیںشکار ہے حالانکہ اعداد و شمار سے صرف ایک ہی نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں پاکستان نے دہشتگردی کے ہاتھوں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے، سب سے زیادہ جانی و مالی خسارہ برداشت کیا ہے، اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں بھی پاکستان ہی کے حصے میں آئیں۔ بھارت نے ممبئی حملوں کا بہانا بنا کر پاکستان کیساتھ گذشتہ چار سال سے جاری جامع امن مذاکرات کے عمل کو ایسے وقت معطّل کردیاجب اس سے کسی نتیجے کی امیدکی جاسکتی تھی۔ یہاں یہ بات بھی بہت غور طلب ہے کہ ممبئی حملوں کے دوران ہی ممبئی انسدادِ دہشتگردی اسکواڈ کے چیف ہیمنت کرکرے کو بھی پراسرار انداز میں قتل کردیا گیا، ایسے میں پاکستان اور اسکے سلامتی کے اداروں پر یہ الزامات لگانا کہ انہوں نے ممبئی حملے کروائے کسی اعتبار سے بھی درست نہیں۔پاکستان نے بھارتی الزامات کے جواب میں بارہا یہ پیغام دیا کہ پاکستان کا کوئی ادارہ ان حملوں میں ملوث نہیں لیکن اگر کسی غیر ریاستی عنصرکے ملوث ہونے کا امکان ہے تو بھارت پاکستان کو ٹھوس ثبوت و شواہدفراہم کرے تاکہ پاکستان کو تحقیقات کرنے میں مدد مل سکے۔لیکن بھارت پاکستان کو کوئی مستند مواد فراہم کرنے میں ناکام رہا ۔ مزید برآں پاکستان نے ممبئی حملوں کے مرکزی ملزم اجمل قصاب تک رسائی کیلئے کہا تو اس سے بھی انکار کر دیا گیا۔یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ یہ بات شواہد اور ثبوتوں کیساتھ سامنے آرہی ہے کہ ممبئی حملے بھارت کا اپنا رچایا ہوا ڈرامہ تھا۔ بھارت کے اپنے اندر سے بھی ایسے بیانات سامنے آچکے ہیں جو اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم بیان19جولائی2013کو بھارت کی ہوم منسٹری کے ایک سابق تفتیشی افسر ستیش ورما کا انکشاف تھا کہ26 نومبر 2008میں ہونیوالے ممبئی حملے اور2001مین بھارتی پارلیمنٹ پر ہونیوالے حملے بھارتی حکومت نے خود کروائے
تاکہ انسدادِ دہشتگردی کے قوانین کو مزید سخت کیا جاسکے۔ ایلیس ڈیوڈسن کی مذکورہ بالا کتاب میں ہونیوالے انکشافات کے بعد پاکستان کو ایک طرف تو بھارت کیخلاف ہر سطح پر جوابی کارروائی کرنا چاہیے اور بھارت کی پاکستان دشمنی کے اس طرزِ عمل کو بے نقاب کرنا چاہیے اور دوسری طرف پاکستان کے اندر ان عناصر کی نشاندہی کرکے انہیں قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے جنہوں نے پاکستان دشمن قوتوں کا آلہ کار بن کر اور بھارتی ذرائع ابلاغ کا ہمنوا بن کر پاکستان کیخلاف جھوٹا مقدمہ قائم کرنے میں معاونت کی اور پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ اگر ممبئی حملے بھارت، امریکہ، اسرائیل اوربرطانیہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ملی بھگت سے کروائے گئے تو پاکستان کے اندر سے انہیں کس نے مددفراہم کی؟ اس سارے معاملے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ کی مجرمانہ خاموشی بھی کئی سوالات اٹھا رہی ہے کیونکہ یہ حیرانی کی بات ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ڈیوڈ سن کے ان انکشافات کے بعد بھی بھارت کیخلاف ایک حرف سنائی نہیں دے رہا۔