بوڑھے والدین اپنا لخت جگر تلاش کرنے کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور
راولپنڈی (اصغر شاد سے) راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک عمررسیدہ ریٹائرڈ بیورو کریٹ کو گزشتہ تین سال سے اپنے اس گمشدہ لخت جگر کی تلاش میں نہ جانے کہاں کہاں اور کس کس ناخدا کے سامنے ماتھا ٹیکنا پڑرہا ہے کہ اس کی تفصیلات اسقدر ہوشربا اور ہولناک ہیں کہ جو کسی بھی صاحب دل کو آبدیدہ کرنے کو کافی ہیں لیکن کوئی ایسا مسیحا ان کو دستیاب نہیں جو اس بزرگ والد کے زخموں پر مرہم رکھ سکے زخم خوردہ بیوروکریٹ قربان حسین راجہ نے نوائے وقت کو اپنے ساتھ ہونیوالے ظلم کی تفصیلات میں بیان کیا کہ میرا بیٹا محمد عمر متین جو دبئی کی ایک کمپنی میں بطور اکاو¿نٹنٹ ملازم تھا اور ہمارا سارا گھرانہ خوشحال زندگی گزار رہا تھا کہ یکم مارچ 2014ءکو وہ کمپنی کے دو چیک لیکر دوبئی کے مشرق بینک گیا جہاں سے وہ اکثر کیش لاتا اور لیجاتا رہا تھا۔ اس موقع پر ایک پاکستانی ڈرائیور بھی اس کے ہمراہ تھا لیکن اس روز بینک سے چیک کیش نہیں ہوسکا جس پر کمپنی مالکان نے کہا کہ چیک تم اپنے پاس رکھو کل کیش کرالینا۔ دوسرے روز وہ اسی ڈرائیور عامر خان کے ہمراہ بینک گیا لیکن اس کو زمین کھا گئی یا آسمان نے نگل لیا۔ وہ دن اور آج کا دن اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ قربان حسین راجہ اپنی لاچارگی اور بے بسی کی داستان سناتے ہوئے متعدد مرتبہ آبدیدہ ہوئے اور بتایا کہ میں 2006ءمیں بطور ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس راولپنڈی ریٹائرڈ ہوا ہوں جبکہ میری اہلیہ جو بطور بی اے بی ایڈ ٹیچر کے طور پر ایف جی کینٹ اینڈ گیریژن سکول دی مال سے ریٹائرڈ ہوئی ہیں۔ ہم دونوں اب اس بڑھاپے میں اپنے لخت جگر کو تلاش کرنے کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ میرا بیٹا شادی شدہ اور ڈیڑھ سالہ بیٹی کا باپ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب عمر متین بینک واپس نہیں پہنچا تو بینک انتظامیہ نے جبل علی پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کرائی۔ ڈرائیور عامر خان اپنے بیانات بدلتا رہا جس پر عدالت نے اس کو تین سال جیل کی سزا سنائی جبکہ میرے بیٹے کو بھی اس کی عدم موجودگی میں اتنی ہی سزا سنا دی۔ انہوں نے کہا کہ میرا بڑا بیٹا اور بھانجا ہر روز پولیس سٹیشن جاتے رہے کہ ہمارے بھائی کی گمشدگی کی رپورٹ تو درج کرلیں لیکن خود بھی پولیس کا رویہ انتہائی ہتک آمیز رہا۔ ہر روز چکر لگا لگا کر وہ تھک گئے ہزار رفعت سماجت کے پولیس نے 11مارچ کو شکایت درج کی اور اس رپورٹ کا اندراج ہی بند کردیا بعدازاں میں خود بھی جبل علی پولیس سٹیشن جاتا رہا جبکہ تمام تھانے، جیلیں اور مردہ خانے چیک کئے لیکن مجھے اپنے بیٹے کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ میں نے وہاں وکیل کی خدمات بھی حاصل کیں۔ 30ہزار درہم فیس ادا کی لیکن یہ بھی ایک داستان غم ہے کہ کیونکہ فیس کی ادائیگی کے بعد وکیل کا رویہ تبدیل ہوگیا۔ ایک اور پاکستانی وکیل کے پاس گئے جس نے 20ہزار درہم فیس کے عوض عدالت کے فیصلے کی نقول فراہم کرنا تھیں جو عموماً 4 دن میں مل جاتا ہے۔ لیکن مجھے نقول کے حصول کیلئے 40 دن تک انتظار کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ میں کہاں کہاں کس کس کے پاو¿ں پڑا اب تو مجھے یاد بھی نہیں بالاخر اپریل میں دوبئی میں قونصل جنرل اور سفیر پاکستان سے ملاقات کی لیکن بے سود۔ جون 2014ءکو اسلام آباد ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی جسٹس قریشی نے وزارت خارجہ کو حکم دیا کہ فوکل پرسن مقرر کرو اور ایک بے بس بوڑھے شخص کی مدد کرو۔ یہاں سے بھی مجھے سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملا۔ فارن آفس پہلے چٹھی لکھتا ہی نہیں اگر لکھ بھی دے تو دبئی کے حکام اس کا جواب دینا گوارہ نہیں کرتے۔17فروری 2016 ءکو سینٹ کی کمیٹی نے مجھے اور میری بیوی کو مدعو کیا اور فارن آفس اور وزارت داخلہ کو سفارشات جاری کیں لیکن اس کے بعد سے اب تک کچھ نتیجہ نہیں نکلا۔ قربان حسین راجہ کا کہنا ہے کہ کوئی اﷲ کا نیک بندہ میری مدد کرے، چیف جسٹس آف پاکستان قید بچے کی گمشدگی پر ازخود نوٹس لیں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف میرے لخت جگر کو ڈھونڈ کر دیں وہ روتے ہوئے اکثر یہ شہر پڑھتے ہیں۔