فلور ملوں کیلئے بیرون ملک سے گندم خریدنے کی منطق؟
رانا زاہد اقبال
محکمہ خوراک نے فلور ملز مالکان کو کہا ہے کہ جتنی وہ گندم اٹھائیں گے اس کے 30فیصد کے برابر انہیں تین سال پرانی گندم اٹھانی پڑے گی، جبکہ فلور ملز مالکان کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں گندم فروخت کرنی ہے تو اس کی قیمت کم کریں ورنہ ہم خود بیرونی دنیا سے براہِ راست گندم درآمد کر کے پسائی کریں گے۔ کسی حد تک ان کا ایسا کہنا درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت کم ترین سطح پر ہے اور پھر گندم کی نئی فصل آنے میں صرف دو ماہ رہتے ہیں جب کہ حکومتِ پنجاب کے گوداموں میں لاکھوں ٹن گندم سرپلس پڑی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے گودام گندم سے بھرے پڑے ہیں لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس کو بیرونی دنیا میں فروخت کرنے کی کوشش کی جائے۔ ممکن ہے کہ وزارتِ تجارت سوچ رہی ہو کہ دنیا بھر میںگندم کی قیمتیں گزشتہ سالوں کی نسبت سے کافی نیچے آ چکی ہیں جب کہ ہمارے گوداموں میں موجود گندم مہنگے داموں خریدی گئی ہے لہٰذا عالمی منڈی میں رائج قیمتوں پر گندم فروخت کرناخسارے کا باعث ہو سکتا ہے۔ بہر حال گندم گوداموں میں پڑی خراب ہونے سے بہتر ہے کہ اسے کم قیمت پر فروخت کر کے زرِ مبادلہ کما لیا جائے جس سے ہماری کم ہوتی ہوئی برآمدات کو سہارہ بھی مل سکے گا۔ دوسرا یہ کہ موجود گندم کو استعمال نہ کیا گیا تو گندم ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت کی وجہ سے اپریل مئی میں پکنے والی فصل کے موقع پر حکومت مزید گندم خریدنے کے قابل نہیں ہو گی اور گندم پیدا کرنے والے کسان و ہاری آڑھتیوں اور مڈل مینوں کے ہاتھوں خوار ہو جائیں گے۔ جو ان کی گندم اونے پونے داموں خرید کر ان کی سارے سال کی محنت کو بیکار کر دیں گے۔ زراعت کی ترقی کے نام پر مرکز و صوبوں میں بیسیوں محکمے اور ادارے بنے ہوئے ہیں جہاں لاکھوں لوگ ملازم ہیں جن کا کام زراعت کی ترقی اور کسانوں و ہاریوں کی خدمت و رہنمائی ہے۔ حکومتِ پنجاب کا محکمہ زراعت جس کے عملہ کی تعیناتی دیہات کی سطح تک ہے ۔ ان کا کام ہی فیلڈ میں جا کر کسانوں کو رہنمائی مہیا کرنا ہے۔ مگر پاکستان میں زرعی مارکیٹنگ ایک بڑا سنجیدہ مسئلہ ہے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کو قائم ہوئے سات دہائیوں کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ہم اپنی زرعی مارکیٹنگ کا قبلہ درست نہیں کر سکے ہیں۔بھارت اپنے ہاں مٔوثر مارکیٹنگ کو یقینی بنا کر مشرقی پنجاب کے کسانوں کو خوشحالی سے مالا مال کر رہا ہے۔ ہمارا محدود وسائل رکھنے والا چھوٹا کسان اول تو نئی ٹیکنالوجی اور آج کے طور طریقوں کے مطابق جدید کھیتی باڑی کی استطاعت ہی نہیں رکھتا ہے اور اگر ارد گرد کے کسانوں کی دیکھا دیکھی نئی ٹیکنالوجی اپنا کر زیادہ پیداوار حاصل کر بھی لے تو اسے مڈل مین مافیا کے ہاتھوں اونے پونے داموں اپنی پیداوار بیچنے کے لئے بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، قیمتوں کا نظام غیر منصفانہ ہے۔ پاکستان اپنے ذرائع سے اتنی پیداوار حاصل کر سکتا ہے کہ نہ صرف ہم اپنے ملک کی زرعی ضروریات، خوراک وغیرہ میں خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ ہم دیگر مسلم دنیا مثلاً افغانستان، عرب ممالک، سوویت یونین سے آزاد ہونے والی مسلم ریاستوں اور افریقہ کو باآسانی خوراک بہم پہنچا سکتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے ماہرین کا خیال ہے کہ اس دفعہ گندم کی پیداوار کافی بہتر ہو گی۔ ماضی کی طرح حکومتِ پنجاب کا دعویٰ ہے کہ گندم کی تمام فصل کسانوں سے خرید لی جائے گی۔ چونکہ اس بار حکومت کے گوداموں میں پچھلے سال کی سرپلس گندم پڑی ہوئی ہے لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ اگر نئی فصل آنے سے قبل گوداموں میں پہلے سے موجود گندم کہیں استعمال نہیں ہوتی تو پھر اپنے خریداری مراکز کی تعداد میں اضافہ کر دے، اضافی گندم کی خریداری کے لئے باردانہ کو بڑھایا جائے، باردانہ کی تقسیم پر بھی لوگوں کو تحفظات ہوتے ہیں لہٰذا اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے کسانوں کو گندم کی سرکاری خریداری میں درپیش مشکلات دور کرنے کے لئے ہر مرکزی سطح پر مقامی انتظامیہ اور زرعی تنظیموں کے علاقائی رہنماؤں پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جانی چاہئیں جو سرکاری مراکز کے تمام معاملات اور عملہ پر کڑی نظر رکھیں۔ حکومت جب تک پہلے سے گوداموں میں پڑی گندم کو کہیںاستعمال نہیں کر لیتی، جلد بازی میں کسانوں کو بھی چاہئے کہ سرکاری خریداری مراکز پر فروخت ہونے سے بچ جانے والی گندم کو مارکیٹ میں بہتر نرخ ملنے تک محفوظ رکھیں اور کم نرخوں پر مڈل مافیا کے ہاتھوں نہ بیچیں۔ عالمی منڈی میں گندم کی قیمت تا حال ہماری فی من قیمت سے نسبتاً کم ہے ہماری فصل کی پیداوار مارکیٹ میں آنے تک اس میں اضافہ ہو جائے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔ بالفرض اس دفعہ گندم کی قیمت عالمی منڈی سے کم بھی رہتی ہے تو پھر بھی حکومت کو چاہئے جس قیمت پر گندم فروخت ہوتی ہے فروخت کر کے اس سال کسانوں کی تمام گندم اٹھا لے اور اگلے سالوں میں کسانوں کی رہنمائی کرے کہ گندم کے علاوہ دوسری نقد آور فصلیں کاشت کی جائیں تا کہ ان کو معاشی طور پر زیادہ فائدہ ہو۔