امریکی تھنک ٹینک کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کو بھارت سے خطرے اور ایٹمی جنگ کے امکان کی نشاندہی کشمیر اور فلسطین کے دیرینہ تنازعات حل کرا کے ہی دنیا کو تباہی سے بچایا جا سکتا ہے!
امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے پاس جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کے باعث خطے میں ایک اور جنگ کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی سلامتی کو بھارت کی وجہ سے خطرات لاحق ہیں جو پاکستان میں سرجیکل سٹرائیکس کی حکمت عملی تیار کر چکا ہے۔ متذکرہ تھنک ٹینک نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ چار جوہری ممالک پاکستان، بھارت، چین اور امریکہ کے مابین حربی مصلحت کے پہلوﺅں کو دو طرفہ بنیادوں پر سمجھنا یا موثر انداز میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ پاکستان ایک جانب جنگی مصلحت کے تحت بھارت کو جواب دیتا ہے تو بھارت اس کے جواب میں پاکستان اور چین دونوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرتا ہے جبکہ اس ردعمل کے جوابی ردعمل کا نشانہ امریکہ اور بھارت بنتے ہیں۔ رپورٹ میں پاکستان کو لاحق سکیورٹی خطرات کی وجہ بھارت کو قرار دیتے ہوئے دیرینہ مسئلہ کشمیر کو دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کی بنیاد قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مغرب کی حمائت کی حامل فوج سے لیس بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کےلئے مذاکرات اور پرامن قرار داد کیلئے تیار نہیں جبکہ کشمیری عوام اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ اپنے حق خودارادیت کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس صورت حال میں مستحکم اور بامعنی مذاکرات کی عدم موجودگی اور بھارت اور امریکہ کے مابین بڑھتا ہوا دفاعی تعاون پاکستان کیلئے تشویش کی اہم وجہ ہے۔ رپورٹ میں باور کرایا گیا ہے کہ بھارت کے پہلے جوہری تجربے کے 42 سال مکمل ہونے کے بعد بھی اسلام آباد کے مقابلے میں نئی دہلی کا دفاعی بجٹ سات گنا زیادہ ہے جبکہ بھارت کی دفاعی اور حربی صلاحیتوں میں جاری اضافہ، اس کی پاکستان کے خلاف جنگی تیاری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر دنیا اور جوہری عد م پھیلاﺅ کے معاہدے میں شامل ممالک میں سے بھارت کے پاس سب سے قدیم، تیزی سے پھیلتا ہوا اور غیر محفوظ پروگرام ہے جسے وہ پاکستان کے خلاف زیادہ موثر انداز میں استعمال کرسکتا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کی اس تحقیق میں بنیادی طور پر اس امر کا جائزہ لیا گیا ہے کہ امریکہ، چین، بھارت اور پاکستان کے پاس موجود جوہری ٹیکنالوجی سے ممکنہ طور پر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو کیا خطرات لاحق ہیں اور دنیا میں ایٹمی جنگ شروع ہونے کے کتنے امکانات ہیں۔ اس تناظر میں تھنک ٹینک کے محققین نے بالخصوص بھارت کی جوہری سرگرمیوں، زیادہ سے زیادہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی دوڑ اور اس کی جنگی دفاعی تیاریوں کو فوکس کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان بھارتی سرگرمیوں سے چین کے مقابلے میں پاکستان کی سلامتی کو زیادہ خطرہ لاحق ہے جبکہ امریکہ اور بھارت کے مابین ہونے والے دفاعی تعاون کے معاہدوں کے باعث پاکستان اور چین میں زیادہ قربت ہوئی ہے چنانچہ بھارتی جنگی سرگرمیوں کا ردعمل چین اور پاکستان کی جانب سے بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ کے خلاف بھی آتا ہے۔ رپورٹ میں اس تناظر میں اس فکر مندی کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جاری دیرینہ تنازعہ کشمیر پر دونوں ممالک کے مابین جنگ کی نوبت آئی تو وہ عالمی ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ یہ رپورٹ بادی النظر میں بھارت کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے والی واشنگٹن انتظامیہ کیلئے ایک وارننگ ہے کیونکہ امریکہ بھارت کی باہمی دفاعی تعاون کے معاملہ میں ایک دوسرے سے بڑھتی ہوئی قربت پر چین بھی اپنی سلامتی کے معاملہ میں فکر مند ہے جس نے اب اپنی فوج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کیلئے رواں سال سے اپنے دفاعی بجٹ میں سات فیصد اضافے کا اعلان کر دیا ہے جسے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے دفاعی بجٹ میں دس فیصد اضافے کے اعلان کا جواب قرار دیا جا رہا ہے۔ تھنک ٹینک نے متذکرہ چاروں جوہری ممالک کی جانب سے اپنے اپنے حالات کی بنیاد پر جوہری ہتھیاروں میں اضافے کی دوڑ پر علاقائی اور عالمی امن کو لاحق ہونے والے ایٹمی جنگ کے خطرات کیلئے جامع انداز میں نشاندہی کر دی ہے مگر ان خطرات کو ٹالنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کی جا سکتی ہے اور اس کیلئے کس نے بنیادی کردار ادا کرنا ہے، اس کا رپورٹ میں مکمل احاطہ نہیں کیا گیا۔ البتہ یہ ضرور نشاندہی کی گئی ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں اور اس کے برعکس وہ پاکستان پر سرجیکل سٹرائیکس کی حکمت عملی طے کر چکا ہے جس کے باعث خطے میں جنگ کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پاکستان بھارت کی جنگی تیاریوں کو اپنی سلامتی کے لئے خطرے سے تعبیر کر رہا ہے۔ اس تناظر میں تو امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ خود واشنگٹن انتظامیہ کو جھنجوڑتی نظر آتی ہے کہ اسے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی مقصود ہے تو وہ ایٹمی ٹیکنالوجی اور اسلحہ کی دوڑ میں اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالنے کے بجائے بھارت کو دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ پر لائے کیونکہ جب تک یہ مسئلہ برقرار ہے اور کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت کیلئے بھارتی افواج کے مقابل سینے تان کر ان کا ظلم کا ہر ہتھکنڈہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے قبول کر رہے ہیں تب تک اس خطہ میں مستقل قیام امن کی ضمانت فراہم نہیں کی جا سکتی جبکہ علاقائی امن و سلامتی کو لاحق یہ خطرہ عالمی امن و سلامتی کیلئے بھی خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ جب اس خطرے کی بنیادی وجہ کشمیر کے اٹوٹ انگ والی بھارتی ہٹ دھرمی ہے جس کی بنیاد پر وہ پاکستان پر تین جنگیں مسلط کر چکا ہے، اسے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دو چار کر چکا ہے اور وہ اب باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے تو عالمی سپر پاور ہونے کے داعی امریکہ، ہندو لیڈر شپ سے تقسیم ہند کے وقت سے ملی بھگت کر کے مسئلہ کشمیر کی بنیاد رکھنے والے برطانیہ اور انسانی حقوق کے رکھوالے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کو کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار کرنی چاہئیے۔ بصورت دیگر امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں ممکنہ ایٹمی جنگ کے جن خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے وہ پورے ہو کر رہیں گے۔ اگر آج ٹرمپ انتظامیہ کے ماتحت امریکہ خود بھی ایٹمی ہتھیاروں میں اضافے کی دوڑ میں شامل ہے جس کا واضح عندیہ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ ہفتے میزائل ٹیکنالوجی میں اضافے سے متعلق دیئے گئے بیان سے بھی ملتا ہے جبکہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو تھپکی دے کر اور ہمارے خطہ میں بھارت کی سرپرستی کر کے صیہونیت اور ہندو انتہاءپسندی کو فروغ دینے کی راہ بھی ہموار کر رہے ہیں تو ان کی لگائی ہوئی مذہبی انتہاءپسندی کی یہ آگ ایٹمی جنگ کی بنیاد پر دنیا کی تباہی پر ہی منتج ہو گی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بھارت اس وقت اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے جس نے کارگل جنگ کے بعد اسرائیل کے ساتھ دفاعی نظام میں شراکت داری کی ہے اور اس بنیاد پر آج امریکہ کے بعد بھارت اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی بن کر ابھر رہا ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کی حیثیت سے صیہونیت کی بڑھ چڑھ کر نمائندگی کر رہے ہیں تو مذہبی بنیادوں پر امریکہ، بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو تاراج کرنے والا گل کھلا کر رہے گا۔ اگر اقوام عالم نے پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنا ہے تو پھر ہر ایک کو ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کی پاسداری کرنا ہو گی اور کئی دہائیوں سے آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیری اور فلسطینی عوام کو ان کا حق دینا ہو گا جس کیلئے غاصب بھارت اور اسرائیل کی واشنگٹن انتظامیہ کو سرپرستی ترک کرنا ہو گی۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیری عوام پر ظلم و جبر کی انتہاءکرنے کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے اور گزشتہ روز بھی بھارتی فوج نے سری نگر کے قبضے ترال میں سرچ اپریشن اور مجاہدین سے مقابلے کی آڑ میںایک گھر کو بارودی مواد سے تباہ کر دیا ہے جس سے پانچ کشمیری مجاہدین شہید ہوئے ہیں اور اسی طرح اسرائیل امریکی صدر ٹرمپ کی شہہ پر مقبوضہ بیت المقدس میں صیہونی بستیوں میں اضافہ کرنے کی پالیسی کو عملی قالب میں ڈھال رہا ہے تو یہ صورت حال امریکی شہہ پر صیہونیت اور ہندو انتہاءپسندی کے فروغ کی نشاندہی کر رہی ہے۔ اگر بھارت اس تناظر میں کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی خاطر پاکستان پر جارحیت مسلط کرنے کی کوشش کرے گا تو لازمی طور پر پاکستان کی جانب سے بھارت کو منہ توڑ جواب کی صورت میں ہی ردعمل سامنے آئے گا۔ اسی طرح فلسطینی عوام بھی غاصب اسرائیل سے آزادی کی خاطر اس کی فوجوں کے آگے سینہ سپر رہیں گے۔
اب چونکہ سی پیک کے باعث چین کے مفادات پاکستان کی سلامتی کے ساتھ وابستہ ہو چکے ہیں اس لئے وہ پاکستان کی سلامتی پر وار کو اپنی سلامتی پر وار سے تعبیر کرے گا اور پاکستان پر جارحیت کے مرتکب کسی بھی ملک کو چاہے وہ بھارت کے علاوہ امریکہ ہی کیوں نہ ہو، اپنی سلامتی کے تحفظ کے نکتہ نظر سے ہی ٹھوس جواب دے گا۔ اس لئے امریکہ نے انسانی حقوق کے تحفظ کا عالمی چمپئین بن کر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو یقینی بنانا ہے تو اسے کشمیری اور فلسطینی عوام کے معاملہ میں دہری پالیسی ترک کر کے ان پر جارحیت کے مرتکب ممالک بھارت اور اسرائیل کے ہاتھ روکنا ہوں گے۔ بصورت دیگر ایٹمی جنگ کی صورت میں اس کرہ¿ ارض پر انسانی تباہی نوشتہ دیوار ہے جس کی امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں بھی دو ٹوک انداز میں نشاندہی کر دی گئی ہے۔