دہشتگردی سمیت جملہ مسائل کا حل۔ اسلامی نظام کا قیام
اس وقت ملک میں دہشتگردی کے جوواقعات پے بہ پے ہوئے ہیں اس سے نمٹنے کے لئے فوج نے رد الفساد کے نام سے ایک اور آپریشن شروع کردیا ہے جس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔معاشرے میں برپا فساد کو روکنا ضروری ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب ضرب عضب کا آغاز ہوا تھا اس وقت ہم نے یہ موقف اختیارکرکے اسے عام کیا تھا کہ اس سے فوائد تو حاصل ہوں گے لیکن وہ عارضی ہوں گے اور ہوا بھی ایسا ہی۔ مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔وقتی طور پر دہشتگردی میں کمی آگئی لیکن دہشتگردی نے پھر سر اٹھالیا ہے۔جیسا کہ ضرب عضب کے نتیجے میں دہشتسگردی میں کمی ہوئی، ردالفساد کے بھی ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔دہشتگردی کو اس طرح مکمل طور پرختم نہیں کیا جاسکتا ۔دہشتگردی سمیت جملہ مسائل کے واحد حل کے حوالے سے ہم وقتاً فوقتاً اپنا موقف پیش کرتے رہے ہیں ۔بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کا ملکی مسائل کے حوالے سے تجزیہ یہ تھا کہ ہمارا ملک اسلام کے نام پر اللہ کی جانب سے ایک نعمت کے طور پر ملا ہے ورنہ حاکم وقت انگریز اور ہندو دونوں اس کے مخالف تھے ۔لہٰذاپاکستان کے بننے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھالیکن مسلمانوں نے اس کے لئے تحریک چلائی جس کا بنیادی نعرہ ”پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ“ تھا۔اللہ تعالیٰ سے جو وعدہ کیا تھا اس پر ہمیں یہ خطہ¿ زمین عطا فرمادیاگیا ۔لیکن اس کے بعد جو کچھ اس ملک میں ہوا وہ ایک دلخراش داستان ہے جس کا کوئی اختتام نہیں نظر آرہا ہے۔اللہ اور اس کے دین سے ہماری بیوفائی جاری ہے، بلکہ اسے غداری سے بھی تعبیر کیا جائے تو کم ہے۔ہر بیرونی ڈکٹیشن ہمیں قبول ہے لیکن اس ملک میں اللہ کا دین قائم ہو، یہ ہمیں قبول نہیں۔علامہ اقبال نے کہا تھا فطرت افراد سے ا´غماض تو کرلیتی ہے نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف ۔یہ قومی جرم ہے جس کے ہم مرتکب ہورہے ہیں لہٰذا سزا کی بھی پوری قوم مستحق ہوچکی ہے۔کسی طبقے نے اس ضمن میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔چاہے وہ ہما را حکمراں طبقہ ہو ،ینی طبقات ہوں یا کسے باشد۔ دینی طبقات نے تو پھر بھی اپنی کچھ نہ کچھ ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔انہوں نے تعلیمی و تدریسی ذمہ داری ادا کی ہے لیکن اس مسئلہ پر بھرپور توجہ نہیں دی۔ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں کے مصداق مسائل میں سب سے بڑامسئلہ دین کے قیام کا ہے۔اس مسئلہ میں رکاوٹ غیر مسلم قومیں نہیں ہیں ۔ 96فیصد مسلمانوں پر مشتمل آبادی ہی اس راہ میں رکاوٹ ہے۔ہم میں سے ہر شخص مسلمان ہونے کا بلند بانگ دعویٰ کرتا ہے۔پرویز مشرف تو کہتا تھا کہ میں نے بیت اللہ کے چھت پر کھڑے ہوکر اذان دی ہے۔گویا کہ وہ مسلمانوں میں سے اعلیٰ مقام پر پہنچنے کا داعی تھا۔ہماری خودفریبی کا یہ حال ہے۔جس طرح قرآن میں منافقوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ لوگ اللہ اور اہل ایمان کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ، درحقیقت وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ہم دنیا داری اور ہوس زر میں باہم مسابقت میں مصروف ہیں ۔عمران خان نے عدالت عالیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ آئین کی 62اور 63شقوں کو لاگو کیا جائے۔بات تو انہوں نے درست کہی ہے۔اس پر فاضل جج کا یہ بیان سامنے آیا کہ اگر یہ شقیں لاگو کی گئیں تو سراج الحق کے سوا ساری پارلیمنٹ نا اہل ہوجائے گی۔یہ اپنی جگہ ایک لطیفہ بھی ہے اور ہمارے لئے سوچنے کا مقام بھی۔پھر ان شقوں کا کیا فائدہ ۔ہم نے دستور کو بھی مذاق بنا رکھا ہوا ہے۔پھر تو یہ شقیں دستور سے نکال دی جانی چاہئیں۔یہ شقیں دستور میں موجود ہیں لیکن ان کی شرائط کو پورا کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔بے اصولی کی انتہا ہے۔بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا پورا تجزیہ گوش گزار کردیتا ہوں۔ وہ کہتے تھے کہ چونکہ ہم نے دین سے بیوفائی کی ہے تو اللہ تعالیٰ نے قوم کو منافقت کے عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔یہ بات انہوں نے اپنی طرف سے نہیں کہی تھی۔ سورہ توبہ میں یہ مضمون آیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کوئی قوم اللہ تعالیٰ سے کسی فضل کا سوال کرے اور اللہ تعاالیٰ اسے اس فضل سے نواز دے دے تو اسے سچاپکامسلمان بن کر دکھانا چاہئے۔ورنہ اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر اس قوم کے افراد کے دلوں میں نفاق ڈال دیتا ہے جو ان کے دلوں سے آسانی کے ساتھ نہیں نکل سکتا ۔ہم نے اللہ سے وعدہ کیا تھاکہ اس خطہ¿ زمین کو ہم دنیا کے سامنے اسلامی ریاست کا نمونہ بناکر دکھائیں گے لیکن پاکستان کے وجود میں آنے کے بعدسے اب تک اپنے وعدے کو پس پشت ڈال رکھا ہے حالانکہ سب سے پہلے ہونا تویہ چاہئے تھا کہ فرنگی نظام کو ٹھوکر مارکریہاں اللہ کے دین کو قائم کرتے جیسے افغانستان میں طالبان کو اقتدارملا توانہوں نے شریعت نافذ کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائی۔لیکن ہمارے ہاں شریعت کے نفاذ کے بارے میں سو طرح کے اعتراض اٹھائے جاتے ہیں۔ اصل بات ارادے کا نہ ہو نا ہے ۔جب ارادہ ہی نہ ہو تو بہانے تو بنانے ہی پڑتے ہیں۔افغانستان میںجیسے ہی شریعت نافذ ہوئی، دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اثرات سامنے آگئے۔ہمارے ملک کو قائم ہوئے ستر سال ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے ان سے زیادہ علمی کام ہوچکا ہے۔لیکن یہ ساری محنت سرد خانے کی نذر ہوچکی ہے۔منافقت کے بارے میں حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ جس شخص میں چار خصلتیں ہوں وہ پکا منافق ہے چاہے وہ نماز پڑھتا ہو اور روزے رکھتا ہو اور اپنے تئیں خود کو مسلمان سمجھتا ہو ۔جب بات کرے جھوٹ بولے، ہمارے ہاں اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لینا اپناحق سمجھا جاتا ہے۔ہم بچوں کو بھی جھوٹ سکھا رہے ہیں ۔کوئی ملنے کے لئے آئے تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ بیٹا کہہ دو گھر پر نہیں ہیں۔دوسری خصلت یہ بتائی گئی کہ جب وعدہ کرے ، اس کی خلاف ورزی کرے ۔تیسری یہ کہ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس مین خیانت کرے۔ہمارے عہدے اور مناصب بھی امانتیں ہوتی ہیں۔جس طرح ان کا ہمارے ہاں استعمال ہورہا ہے اس کے بارے میں ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔اس پر لفظ منافقت بھی چھوٹا پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔آخری خصلت یہ کہ اگر کہیں جھگڑا ہو تو فوراً آپے سے باہر ہوجائے۔ڈاکٹر اسرار احمد ؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ چاروں خصلتیں ہم میں پوری طرح نظر آتی ہیں۔سرکاری مناصب کے اعتبار جو جتنا اونچا مقام رکھتا ہے اتنی ہی زیادہ یہ خصلتیں اس میں موجود ہیں۔ہمارے تمام مسائل کا اصل حل اس میں ہے کہ ہم نے جو سنگین جرم کیا ہے اس کی تلافی کریں تو ان شاءاللہ ، اس کی رحمت ہمارے شامل ہوگی ورنہ سارے اقدامات وقتی ہیں ، پائدار حل قطعی نہیں۔پائدار حل یہی ہے کہ ہم اللہ کے مخلص بندے بن کر اس کے دین کو قائم کرنے کو اپنی پہلی ترجیح بنالیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔