ایکو کانفرنس کا کامیاب انعقاد
22سال بعد پاکستان کے خوبصورت دارالخلافہ اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم کا تیرہواں اجلاس خوش اسلوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اجلاس میں شریک ممالک میں ترکی، ایران، آذر بائیجان، تاجکستان اور ترکمانستان کے صدور، کرغزستان اور قازغستان کے وزیراعظم اور افغانستان کے نمائندے پاکستان میں تعینات سفیر نے اپنے اپنے ملکوں کی نمائندگی کی۔ اس اجلاس میں چین خصوصی مبصر کے طور پر جبکہ اقوام متحدہ کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ ایکو کے تیرہویں اجلاس کا موضوع ’’علاقائی خوشحالی کیلئے رابطے‘‘ تھا جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالہ سے اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس موقع پر وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنے افتتاحی خطاب اور ای سی او کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میںکہا کہ ای سی او خطہ بے پناہ وسائل اور صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ رکن ممالک کے مابین رابطوں کو مربوط بنا کر ان وسائل اور صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان معاشی لحاظ اس وقت اہم دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کے اقتصادی اعشاریے مسلسل تیزی کی طرف گامزن ہیں۔ سی پیک ایک عظیم منصوبہ ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے تمام ممالک کے عوام کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس منصوبہ سے بھر پور فائدہ اُٹھانے اور مشترکہ خوشحالی کیلئے رکن ملکوں کے دوران رابطوں کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ مواصلات کے شعبہ میں بڑے پیمانے پر خطے میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ ریلوے لائنیں شاہراہیں تیل اور گیس کی پائب لائنیں خطے کے ملکوں کو قریب لا رہی ہیں یہی وہ وقت ہے جب رکن ممالک کے عوام کی خوشحالی کیلئے بھر پور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب رکن ممالک کے مابین روابط میں تیزی لائی جائے۔ ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان نے اپنے خطاب میں توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر زور دیا اُن کا کہنا تھا کِہ ای سی او ریفارمز کی جلد تکمیل ہونی چاہیے۔ دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے مشترکہ طور پر کوشیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ خطے میں زراعت، ماحولیات و سیاحت کے شعبوں میں تعاون کر بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے صدر حسن روحانی نے تنظیم کو مزید مستحکم کرنیکی ضرورت پر زور دیا اُن کا کہنا تھا کہ رُکن ممالک کے سربراہان کے درمیان اتفا ق رائے کے نیتجہ میں تنظیم کے مقاصد اور سرگرمیوں کو مزید تیز کیا جا سکتا ہے ۔ اقتصادی تعاون تنظیم خطے کی اقتصادی صورتحال میں بہتری کیلئے اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ انہوں نے 21ویں صدی کو ایشیاکیلئے اقتصادی بہتری کی صدی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقتصادی سرگرمیاں اب مغرب سے مشرق منتقل ہو رہی ہیں۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ رُکن ملکوں کو شاہراہوں کے ذریعے ملانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ایرانی صدر کی تجاویز کے حوالہ سے بات کی جائے تو اُن کا یہ کہنا درست ہے۔ ایشیا اکیسویں صدی میں معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہو گا۔ دنیا کے اکثر معیشت دانوں کا خیال ہے کہ جنوبی ایشیاء اکیسویں صدی میں ایک معاشی قوت کے طور پر اُبھرے گا اور دنیا کی معیشت کا پچاس فیصد سے زائد کاروبار اسی خطہ میں ہو گا۔ اس حوالہ سے سی پیک کے تناظر میں پاکستانی معیشت بہت اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک کی نظریں اس وقت اس منصوبہ پر ہیں اور بہت سے ممالک اس منصوبہ میں شمولیت کی خواہش کا بھی اظہار کر چکے ہیں۔
ایکو ممالک کے مابین رابطوں سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کیلئے خطہ میں موجود چیلنجز سے مشترکہ طور پر نمٹنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس وقت دہشت گردی اور مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیاء کے دو بڑے اہم مسئلے ہیں۔ افغانستان میں بدامنی پورے خطے میں خصوصاً پاکستان پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ ایکو کی کامیابیوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کیلئے افغانستان میں امن کا قیام بہت ضروری ہے۔ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہو گا۔ خطے میں جاری معاشی سرگرمیوں سے بھر پور فائدہ نہیں اُٹھا یا جاسکے گا۔ دوسرا اہم مسئلہ پاک بھارت کشیدگی ہے جس کی بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود بھارت کشمیریوں کو اُن کا حق خودارادیت دینے سے انکاری ہے۔ پاکستان مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتا ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی آڑے آ رہی ہے۔ پاکستان میں بدامنی پھیلانے کیلئے بھی بھارت افغانستان کو استعمال کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں خطے میں اقتصادی سرگرمیوں کیلیے ضروری ہے کہ ایکو ممالک دہشت گردی کے خاتمہ اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھی اپنا کردار ادا کریں اور بھارت پر دبائو ڈالیں کہ وہ افغانستان کے ذریعے پاکستان میں بدامنی پھیلانے سے باز رہے۔ بڑی طاقتوں کے اس خطہ میں اپنے مفادات ہیں جن کو پروان چڑھانے کیلئے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ جنوبی ایشیا کی ترقی کی کنجی ’’سی پیک‘‘ کا میاب ہو اس لئے وقت کا تقاضا ہے ایکو ممالک ان دو بڑے مسائل سے نمٹنے پر بھی توجہ دیں کیونکہ اکیلے پاکستان کی کوششیں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک اُسے علاقائی ممالک کی حمایت حاصل نہ ہو ۔ ای سی او اجلاس میں افغانستان کی عدم دلچسپی کا اظہار اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ نہ تو افغان صدر اور نہ ہی چیف ایگزیکٹو اس اجلاس میں شریک ہوئے بلکہ پاکستان میں تعینات افغان سفیر نے کانفرنس میں افغانستان کی نمائندگی کی ۔ پاکستان میں 19ویں سارک سربراہ کانفرنس ملتوی کروانے میںبھی بھارت کی بد نیتی شامل تھی اور اب اس نے ایکو کانفرنس میں شریک ملکوں کے سربراہان کو روکنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ اُس کا بس کسی اور پر تو نہیں چل سکا لیکن افغانستان ضرور اُسی کے دبائو میں آیا جس کا نقصان خود افغانستان کو ہی ہو گا۔
بھارت پاکستان کو دنیا میں سفارتی سطح پر تنہا کر دینے کا تاثر دیتا رہا ہے لیکن گذشتہ دنوں پاکستان میں 36 ممالک کی بحری افواج نے مشترکہ مشقوں میں شرکت کی جس نے پوری دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کے بھارتی تاثر کا اثر زائل کیا اور اب ایکو اجلاس کے انعقاد کے بعد پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی اور بھارت کی سفارتی تنہائی بالکل واضع ہے۔ گو کہ نتائج کے حوالہ سے اقتصادی تعاون تنظیم کا اسلام آباد میں اجلاس بہت کامیاب رہا اور پاکستان کے دشمنوں کی کوششیں ہر زاویے سے ناکام ہوئیں اس کے باوجود ہمیں عیار دشمن سے ہر وقت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان نے جنوبی ایشیا میں معاشی ٹائیگر کے طور پر کردار ادا کرنا ہے اور سی پیک منصوبہ کو ہر حال میں کامیاب بنانا ہے تاکہ پاکستان کو دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل کیا جا سکے۔ حکومت ، افواج پاکستان اور قوم پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمہ اور سی پیک منصوبہ کے تحفظ کے لئے پُرعزم ہے اس لئے دشمن کوشش کے باوجود بھی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دُشمن کویہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ ہم متحد قوم نہیں ہیں۔