”ولایت نامہ“ کا آغاز اس بار پھر پروین شاکر کے اس شعر سے کرنا پڑ رہا ہے کہ ”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی“ موضوع جو آپ سے شیئر کرنے جارہا ہوں اس میں محبت اور حب الوطنی کے علاوہ ندامت‘ قومی بے بسی اور عالمی دنیا میں پاکستان کی ہونے والی جگہ ہنسائی کا پہلو واضح طور پر نمایاں ہے۔ عجیب تذبذب کا شکار اس لئے ہوں کہ یہ سمجھ نہیں پا رہا کہ رسوائی کے اس واقعہ کا آغاز آخر کن الفاظ سے کروں کہ اس موضوع پر بحث کوئی پہلی مرتبہ نہیں کر رہا۔ یہ تو ایک ایسا قومی رونا ہے جس پر گزشتہ 2-1/2 برس سے میں آنسو بہا رہا ہوں۔ اس حالیہ واقعہ نے تو وہ آنسو بھی چھین لیے ہیں جو بطور ثبوت رکھے ہوئے تھے۔
میں اور آپ کے اپنے عزیز وطن پاکستان میں جو ”لا الہ اللہ“ کے نام پر معرض وجود میں آیا، آزادی کے 70برس گزر جانے کے باوجود آج بھی اہل وطن کو بسوں‘ ویگنوں اور ٹرینوں کی چھتوں پر حفاظتی تدابیر اور قانون کی پرواہ کیے بغیر سفر کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح موٹر سائیکلوں پر سوار ننھے منے بچوں کو جنہیں والدین پٹرول ٹینکس پر بٹھا کر Extra Seat سے لطف اندوز ہوتے‘ Seat Belt کے تصور سے آزاد مصروف ترین شاہراہوں پر تیزی سے دوڑاتے نظر آتے ہیں بھی خطرناک سفر کرتے دیکھا ہے مگر پاکستان کی فضائی تاریخ میں قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کا یہ پہلا ایسا انتہائی افسوسناک واقعہ ہے جس سے ملک کے شہری اور دیہی علاقوں میں صبح وشام دوڑنے والی بسیں اور ویگنیں جن پر نمایاں الفاظ میں آرائیں، گھمن‘ جٹ اور وڑائچ طیارہ لکھا ہوتا ہے زیادہ شدت سے یاد آنے لگی ہیں۔ واقعہ جو اب عالمی شہرت حاصل کرچکا ہے کچھ یوں ہے کہ باکمال لوگوں کی لاجواب سروس مہیا کرنے کی دعویدار قومی ایئرلائن پی آئی اے نے جو سیلز ٹیکس کی مد میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی مبینہ طور پر 5ارب 90کروڑ روپے کی نادہندہ بھی ہے اگلے روز 7 ایسے مسافروں کو ہینڈ ریٹن بورڈنگ کارڈ جاری کردیئے جن کا کمپیوٹرائزڈ فہرست کے اضافی مسافروں میں بھی نام شامل نہیں تھا اور یوں ٹرپل سیون کی یہ پرواز جس میں Jump Seats سمیت 409 نشستوں کی گنجائش ہوتی ہے اس میں 416 مسافروں کو سوار کردیا گیا جو فضائی سفری قوانین کی سنگین ترین خلاف ورزی تھی‘ انتہائی سادہ الفاظ میں یوںکہہ لیں کہ ٹرپل سیون کو شاہراہوں پر دوڑنے والی ”طیارہ بسوں“ کی طرح بنا کر اضافی مسافروں کو سوار کر دیا گیا‘ اور یوں دنیا کی ایک وقت کی بہترین اور باوقار قومی فضائی کمپنی ذرا سی دیر میں ”گڈی“ کا روپ دھار گئی۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سمیت برطانوی اخبارات نے بھی اس واقعہ پر بڑھ چڑھ کر تبصرے اور تجزیے کیے ہیں۔ دوران پرواز AISLE میں کھڑے اضافی مسافروں کی پی آئی اے نے گو ذمہ داری قبول کرلی ہے مگر باوثوق ذرائع کے مطابق اس معاملے کو تاہنوز سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق فضائی اور گراﺅنڈ عملہ تک ایک دوسرے کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرایاجارہا ہے۔ طیارے کے کپتان انورعادل کا مو¿قف ہے کہ کمپیوٹرائزڈ لسٹ میں اضافی مسافروں کا نام نہیں تھا جبکہ ایئر ہوسٹس کی اطلاع پر مجھے پتہ چلا کہ طیارے میں کچھ اضافی مسافر بھی سوار ہیں۔
”لفظ اگر“ چونکہ ایک تکنیکی لفظ ہے اس لئے یہ رائے دینا کہ واقعہ میں ملوث ذمہ دار افراد کے خلاف پی آئی اے اور سی اے اے کیا اقدامات کرے گی قبل ازوقت ہے۔ البتہ اس سٹیج پر پی آئی اے کے سی او اومسٹربرناڈ تک برطانوی پاکستانیوں کے چند سوالات بھجوائے جارہے ہیں تاکہ انہیں اس واقعہ کی حقیقت کے بارے میں درست معلومات حاصل ہوسکیں۔ مسٹربرناڈ گو جرمن نژاد ہیں تاہم انگریزی زبان پر انہیں مکمل عبور حاصل ہے۔ توقع ہے کہ وہ اس بارے میں برطانوی پاکستانیوں کا اعتماد ضرور بحال کریں گے۔