جس وقت گورنر پنجا ب سلمان تاثیر اور ان کی مرکزی قیادت نواز لیگ کے خلاف گٹھ جوڑ میں مصروف تھے ۔اسی وقت ہمارے بہت قریبی دوست ملک کی کرکٹ ٹیم شہر لاہور میں مہمان بنی ہوئی تھی۔ہماری قیادت کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ہمارا دشمن دشمنی میں مہمان کھلاڑیوں پر جان لیوا حملہ بھی کرسکتا ہے ۔ایک ایسا ملک جو ان دنوں خاص طور پر دشت گردی کی بہت سنگین وارداتوں میں گھرا ہوا تھا ۔اس ملک کے بڑے شہر میں سری لنکن کھلاڑیوں کو ہوٹل سے گراونڈ پہنچانے کے لیے صرف سٹی ٹریفک پولیس کے جوانوں کا انتخاب کیا گیا تھا ۔جبکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہماری سٹی ٹریفک پولیس کے جوانوں کے پاس آج بھی اپنے دفاع کے لیے کوئی ہتھیار موجود نہیں ہوتا مگر سلام ہے ٹریفک پولیس کے جوانوں کو جنہوں نے اس دن اپنی جان کو وطن میں آئے مہمانوں کی جان پر قربان کر کے وطن کے بہادر بیٹے ہونے کا فرض ادا کردیا ۔سلام ہے اس بس ڈرائیور کو بھی جس نے حاضر دماغی اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح مہمان ٹیم کی بس کو قذافی سٹیڈیم کے اندر پہنچادیا ۔قوموں کی تاریخ میں ایسے گمنام ہیروز ہمیشہ سے ہی موجود رہتے ہیں۔جو وقت پڑنے پر اپنی جان وطن پر قربان کرنا اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہیں۔سری لنکن ٹیم کے کھلاڑیو ںپر جان لیوا حملہ کرنے والے دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئے ۔ان کا مقصد تھا کہ ہمارا ملک دنیا سے کٹتا چلا جائے ۔ہمارے کھیلوں کے میدان ویران ہو جائیں ۔اور ہمارے بچے صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لینے کی بجائے ان کے آلہ کار بنتے چلے جائیں۔ دشمن اپنی سازش میں کامیاب رہا ۔ہمارے کھیلو ںکے میداں غیر ملکی ٹیموں کی شکلیں دیکھنے کو ترس گئے ۔ہماری ایک نسل نے اپنے ملک سے باہر ہی اپنے کئیریر کا آغاز کیا ۔ہماری سیاسی قیادتوں اور کھیلوں کے سربراہان نے اپنی طرف سے لاکھ کو ششیں کیں ۔مگر دشت گردی کا جو لیبل ہمارے ملک پر لگ چکا تھا ۔اسے دھونا مشکل سے مشکل تر ہوتاگیا جبکہ سول حکومت کے آنے کے بعد دنیا ہماری اصلاحات کے گن گاتی رہی اسی عرصے میںہماری بہادر افواج نے شمالی وزیرستان اور ملک کے دوسرے علاقوںسے دشمن کی بہت سی پناہ گاہیں ختم کردی ہیں۔ملک دشمنوں کے چہروں سے نقاب ایک ایک کر کے اترتے رہے ہیں۔مگر ہماری یہ ساری کوششیں دنیاکے کھلاڑیوں کو ہمارا مہمان نہ بنا سکیں۔ہمیں کبھی شارجہٟدبئی تو کبھی انگلینڈ میں اپنی ہوم سیریز کھیلنی پڑیں۔بیچ میں ایک بار ایسا بھی ہوا کہ کرکٹ بورڈ اور پنجاب حکومت کی کوششوں سے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم تین میچ کھیلنے قذافی سٹیڈیم میں ہی ہماری مہمان بن سکی۔ ہمارے لوگوں نے مہمانو ں کو بہت عزت دی ۔گراونڈ تماشایوں سے بھرے رہے ۔مگر دنیائے کرکٹ پر چونکہ بھارتی کرکٹ بورڈکا بہت زیادہ اثر و رسوخ رہا ہے ۔اس لیے ہر طرح کی کوششوں کے باوجو ہم اپنے سونے میدان آباد نہ کر سکے۔بھارت نے پاکستان اور پاکستانی کھلاڑیوں سے دشمنی کا کوئی موقع کبھی بھی ضائع جانے نہیں دیا۔بھارت میں ہونے والی آئی پی ایل میں پاکستانی ایمپائر اور کوچ تو شامل کر لیے جاتے ہیں ۔مگر کبھی کسی پاکستانی کھلاڑی کو وہاں کھیلنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔بھارتی ہاکی ٹیم کو ان کے گھر میں گھس کے ہرانے پر جب ہمارے پلئیر نے شرٹس اتار کے خوشیاں منائیں ۔تو یہ بھی بھارتی حکام نے اپنے لیے انا کامسئلہ بنالیا ۔حالانکہ ایسا ہی بھارتی کپتان انگلینڈ میں میچ جیتے پر کرچکا تھا ۔خیر خدا خدا کر کے پاکستان سپر لیگ کا فائنل پاکستان کے دل لاہور میں ہو گیا ہے ۔جس میں بہت سے غیر ملکی پلیئر بھی ایکشن میں نظر آئے ہیں۔اللہ کرے یہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو اورہمارے سونے میدان ایک بار پھر سے آباد ہو نا شروع ہو جائیں۔وزیر اعلی پنجاب بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔جنہوںنے ہر طرح کی مخالفت اور ریشہ دیوانیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں کرانے کی حامی بھری ہے یہ صرف ایک کرکٹ میچ نہیں بلکہ ملک دشمنوں کو صاف پیغام ہے کہ ہم نہ پہلے ان کی طرف سے کیے گئے بزدلانہ حملوں سے ڈرے ہیں اور نہ مستقبل میں کوئی دشمن ہمیں جینے سے روک سکتا ہے ۔وطن کی سلامتی کی بات ہو تو ہمارے بچے بزرگ سبھی وطن کی حفاظت کے لیے سر بکف ہو جاتے ہیں ۔دنیا بھر میں کہیں نہ کہیں متشدد کروائیاں ہوتی رہتی ہیں۔مگر وہاں کھیلوں کے میدان بند نہیں کیے جاتے۔جہاں وزیر اعلی پنجاب اور ان کی ٹیم کے لوگوں کی لگن کو سراہا جانا چاہیے وہیں پاک فوج کی طرف سے سیکیورٹی فرائض کا ادا کیا جانا بھی لائق تحسین ہے ۔عمران دنیا ئے کرکٹ کا ایک بہت بڑا نام ہے ۔ اس کی ذات کا سحر آج بھی اپنا ایک مقام رکھتا ہے ۔کاش خان صاحب پاکستان سپر لیگ کے فائنل والا بیان دینے سے پہلے اپنے ساتھیوں سے ہی مشورہ کر لیتے ۔اگر خان صاحب کو سیاست کی سمجھ ہوتی تو وہ اس موقع پر آگے آتے اور دنیا کرکٹ میں موجود اپنے دوستوں کو میچ دیکھنے کے لیے لاہور مدعو کرتے ۔جس سے پاکستان اور کرکٹ کو بے پناہ فائدہ ہوتا ۔اور خود عمران کے چاہنے والوں میں بھی اضافہ ہوتا ۔ہماری قوم نے بار بار ثابت کیا ہے کہ ہم دشمن سے ڈرنے والے نہیں ہیں ۔اے پی ایس پر حملے کے چند روز بعد ہمارے وہی بچے دوبارہ اسی سکول میں تعلیم حاصل کرنے پہنچ جاتے ہیں ۔واہگہ بارڈر پر ہونے والے خود کش حملے کے بعد بھارتی لوگ چھپ کے گھرو ںمیں بیٹھ جاتے ہیں جبکہ ہمارے لوگ پہلے سے بھی زیادہ جذبے سے پریڈ دیکھنے پہنچ جاتے ہیں ۔سیہون شریف میں اتنی زیادہ جانوں کے نقصان کے باوجود لوگ دھمال ڈالنے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں ۔یہ ہماری طرف سے دشمن کے لیے صاف اور واضع پیغام ہے ۔کہ ہم کسی صورت اس کی مکروہ چالوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں ۔ہماری سیاسی قیادت اور عسکری قوتیں متحد اور پرعزم ہیں ۔اللہ کرے طاقت کے سر چشمے اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے ملک کی بہتری کے لیے کام کرتے رہیں۔ملک میں کھیل اور کھلاڑی ترقی کرتے رہیں ۔کھلیوں کے میدان آباد ہوتے رہیں۔بچوں کے لیے صحت مند سرگرمیوں کے مواقع میسر رہیں۔تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دنیا سے ہر میدان میں مقابلہ نہ کرسکیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024